• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برصغیر کی تاریخ کا المیہ ہے کہ ہندوستان کے بٹوارے سے قبل ہی 3جولائی 1946ء کو بنگال کو دو حصّوں میں تقسیم کردیا گیا، یعنی ہندو اکثریتی مغربی بنگال اور مسلم اکثریتی مشرقی بنگال۔ بعدازاں، اگست 1947ء کو ہندوستان کی تقسیم کے نتیجے میں مغربی بنگال، بھارت اور مشرقی بنگال پاکستان کا حصّہ بن گیا۔ پھر قیامِ پاکستان کے بعد 1955ء میں مغربی بازو پر مشتمل علاقے کو مغربی پاکستان کے نام سے اور مشرقی بنگال کو مشرقی پاکستان کے نام سے نیا صوبہ بنادیا گیا۔ 

یہ سلسلہ 1971ء تک چلتا رہا۔ جغرافیائی نقطۂ نگاہ سے مغربی اور مشرقی پاکستان کا اتحاد غیر فطری معلوم ہوتا تھا، لیکن یہ مذہب ہی تھا، جس نے دونوں حصّوں کے مسلمانوں کو دو دہائیوں سے زیادہ عرصے تک ایک لڑی میں پروئے رکھا۔ مشرقی بنگال میں مسلم قومیت کا جذبہ بے پناہ تھا، یہی وجہ تھی کہ بنگالی مسلمان، صوبہ بنگال میں اکثریت میں ہونے کے باوجود نہ صرف یہ کہ قیامِ پاکستان کی تحریک میں پیش پیش رہے، بلکہ پاکستان کی خاطر انہوں نے بنگال کا بٹوارا بھی گوارا کرلیا۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مشرقی بنگال ہی میں مسلم لیگ کی بنیاد پڑی اور پاکستان کے حق میں 99فی صد ووٹ ڈالے گئے۔ ان تمام معروضی حقائق کے باوجود غور طلب بات یہ ہے کہ آخر مشرقی پاکستان میں آباد بنگالی قیام پاکستان کے تھوڑے عرصے بعد ہی پاکستان کے اس قدر خلاف کیوں ہوگئے اور اپنے لیے ایک آزاد مملکت کے بارے میں کیوں سوچنا شروع کردیا۔ 

یقیناً اس کے اسباب معاشی اور سیاسی تھے، اس کے علاوہ بین الاقوامی سیاست کا بھی بڑا عمل دخل تھا۔ تاہم، اس کا سب سے بڑا سبب معاشی ہی تھا۔ بنگالی اپنی معاشی بدحالی کا ذمّے دار مغربی پاکستان کو ٹھہراتے تھے۔ دوسری جانب مغربی پاکستان کے حکم رانوں کو یہ خوف تھا کہ اگر بنگالیوں کو اُن کی اکثریتی آبادی کی بنیاد پر نمائندگی دے دی گئی، تو وفاق میں اُن کی حیثیت کم زور ہوجائے گی، چناں چہ پیرٹی (مساوات) سسٹم اپنایا گیا، جس کا مقصد دونوں صوبوں میں برابری کی بنیاد پر نمائندگی دینا تھا اور یہ مغربی پاکستان کے تحفظ کی خاطر کیا گیا۔ 

ایک اور مسئلہ زبان کا بھی تھا۔ اردو کو پاکستان کی قومی زبان بنانے کے اعلان سے بنگالی خوش نہیں تھے۔ وہ اپنی ثقافت کو زبان کے ذریعے قائم رکھنا چاہتے تھے۔ مشرقی پاکستان، دارالحکومت سے کافی دُور تھا اور بنگالیوں کے ذہن میں یہ بات بٹھادی گئی تھی کہ مرکز پر مغربی پاکستان کا تسلّط ہے۔ مشرقی پاکستان، مغربی پاکستان کے مقابلے میں کم ترقی یافتہ تھا۔ پھر وہ جب اپنے سے کم آبادی والے صوبے کے ترقیاتی کام اور لوگوں کا رہن سہن دیکھتے، تو اُن کی سوچ کو مزید تقویت ملتی۔ اِن ہی وجوہ کی بنا پر بنگالی یہ محسوس کرنے لگے کہ اقتدار اور اختیار کا اصل مرکز اسلام آباد ہے اور وہ اس مرکزی حکومت کے محکوم ہیں اور یہ کہ اقتدار و اختیار اور ملازمتوں میں اُن کا جو حصّہ بنتا ہے، وہ انہیں نہیں دیا جارہا۔ 

دوسری جانب پاکستان دشمن قوتوں اور مشرقی پاکستان میں آباد بااثر ہندوئوں نے، جو قیامِ پاکستان کے پہلے ہی خلاف تھے،بنگالیوں کو یہ باور کروانا شروع کردیا کہ اُن کا ہر شعبۂ زندگی میں استحصال کیا جارہا ہے، چناں چہ ان ہی وجوہ کی بِنا پر پاکستان اپنے قیام کے چند برسوں بعد ہی عدم استحکام کا شکار ہوگیا۔بنگالیوں نے خود مختاری کے لیے آواز بلند کرنا شروع کردی، جس میں وقت کے ساتھ ساتھ پختگی اور تیزی آتی چلی گئی، جس کا مظاہرہ انہوں نے دسمبر 1970ء میں شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ کو بھاری اکثریت سے جتوا کر کیا۔ اس کے بعد حالات بگڑتے چلے گئے اور اس قدر بگڑے کہ ملک دو لخت ہوگیا۔

اس اندوہ ناک سانحے پر ادیبوں، صحافیوں اور شعراءنے بہت کچھ تحریر کیا۔ معروف شاعر، امجد اسلام امجد نے سقوطِ ڈھاکا پر اپنے جذبات کا اظہار کچھ یوں کیا؎ اے زمینِ وطن ہم گنہگار ہیں.....ہم نے نظموں میں تیرے چمکتے ہوئے بام و دَر کے بے تاب قصّے لکھے.....پھول چہروں پہ شبنم سی غزلیں کہیں، خواب آنکھوں کے خوشبو قصیدے لکھے.....تیرے کھیتوں کی فصلوں کو سونا گِنا، تیری گلیوں میں دل کے جریدے لکھے.....جن کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھا نہیں، ہم نے تیری جبیں پر وہ لمحے لکھے.....جو تصوّر کے لشکر میں لڑتے رہے.....ہم وہ سالار ہیں،`ہم گنہگار ہیں.....اے زمینِ وطن ہم گنہگار ہیں.....ہم تِرے دُکھ سمندر سے غافل رہے.....تیرے چہرے کی رونق دھواں ہو گئی اور ہم رہینِ غمِ دل رہے.....ظلم کے رُوبرو لب کشائی نہ کی، اس طرح ظالموں میں بھی شامل رہے.....حشرآور دنوں میں جو سوئے رہے.....ہم گنہگار ہیں، اے زمینِ وطن! پر قسم ہے ہمیں اپنے اجداد کی.....سرحدوں سے بُلاتے ہوئے خون کی، اپنی بہنوں کی حرمت کی، اولاد کی.....ہاں، قسم ہے ہمیں آنے والے دِنوں کی اور آنکھوں میں ٹھہری ہوئی یاد کی.....اب محافظ نما دشمنوں کے علَم ان کے کالے لہو سے بھگوئیں گے ہم.....تیرے دامن کے رسوائیوں کے داغ اپنے آنسوؤں سے دھوئیں گے ہم.....آخری مرتبہ اے متاعِ نظر! آج اپنے گناہوں پہ روئیں گے ہم.....تیری آنکھوں میں اے نگارِ وطن! شرم ساری کے آنسو نہیں آئیں گے.....ہم کو تیری قسم اے بہارِوطن اب اندھیرے سفر کو نہ دہرائیں گے.....گر کسی نے تیرے ساتھ دھوکا کیا ،وہ کوئی بھی ہو.....اس کے رستے کی دیوار بن جائیں گے.....جان دے کر تیرا نام کر جائیں گے،اے زمینِ وطن۔ 

اورمعروف شاعر، فیض احمد فیض نے ڈھاکا سے واپسی پرکہا تھا؎ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی ملاقاتوں کے بعد.....پھر بنیں گے آشنا کتنی مداراتوں کے بعد.....کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار.....خون کے دھبے دُھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد.....تھے بہت بے درد لمحے ختم دردِ عشق کے.....تھیں بہت بے مہر صبحیں مہرباں راتوں کے بعد.....دل تو چاہا پر شکستِ دل نے مہلت ہی نہ دی.....کچھ گلے شکوے بھی کرلیتے مناجاتوں کے بعد.....ان سے جو کہنے گئے تھے فیض جاں صدقہ کیے.....اَن کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد-

اپنوں کی بے حِسی، غیروں کی عیّاری و مکاری اور سیاسی بازی گروں کی چال بازی کے نتیجے میں پاکستان دو لخت ہوا اور بنگلا دیش کا قیام عمل میں آیا۔ یہ برصغیر کی تاریخ کا ایک دردانگیز اور خونچکاں باب ہے، جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔ سقوطِ ڈھاکا کے بعد بہت سے سوالات اٹھے، جو آج بھی جواب طلب ہیں۔ نصف صدی گزرجانے کے باوجود آج بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے مشرقی پاکستان کے المیے سے کچھ نہیں سیکھا۔ بلاشبہ، یہ بدترین ظلم و استحصال، معاشی ناہم واری اور سیاسی بازی گری کا وہ سفر تھا، جس نے نفرتوں کو جنم دیا، تعصبات پروان چڑھے اور اس بدترین المیے میں لاکھوں بےگناہ انسان لقمہ اجل بنے۔ 

1971ء میں پاکستان کے دولخت ہوجانے کے بعد بنگلا دیش کے 66کیمپوں میں محصور ہوجانے والے محب ِوطن پاکستانی آج بھی اپنے مُلک کی راہ تک رہے ہیں اور پاکستان کی عدلیہ، پاک فوج، سیاسی جماعتوں اور رہنمائوں سے مسلسل سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ ’’آخر ہم کب تک اس غیر انسانی، بنیادی ضروریات سے محروم ماحول میں جانوروں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور رہیں گے، جہاں تعلیم ہے، نہ روزگار۔ نہ کسی قسم کی طبی سہولتیں۔ ہم نصف صدی سے ان غلاظت زدہ کیمپوں کی ٹوٹی پھوٹی جھونپڑیوں میں حسرت و یاس کی زندگی گزار رہے ہیں کہ کبھی تو پاکستانی حکمرانوں کو احساس ہوگا، انہیں ہمارا بھی درد محسوس ہوگا کہ اپنے خوابوں کی سرزمین، پاکستان جانے کی آس میں ہماری کتنی نسلیں برباد ہوگئیں، مگر ہمارے دلوں سے کوئی پاکستان کی محبت نہیں نکال سکا۔‘‘ 

خانماں برباد محصورین آج بھی حبّ الوطنی کا تمغہ اپنے سینوں پر سجائے پاکستان کی راہ تک رہے ہیں۔ ہر آنے والا دن اُن کے لیے امید کی نئی کرن لے کر طلوع ہوتا ہے کہ شاید کوئی دن، کوئی لمحہ ایسا آئے کہ اُن کے خواب کو بھی تعبیر مل جائے۔ وہ قید و بند کی صعوبتوں اور دیارِ غیر میں غلامی کی اذیت سے چھٹکارا پالیں۔ نہ جانے ہمارا ضمیر کب بیدار ہوگا۔ ہم اپنے ان محصور پاکستانی بھائیوں کی آبادکاری کے لیے کب سنجیدہ اقدامات کریں گے۔ کبھی کریں گے بھی یا نہیں۔

محصورین کی واپسی، پاکستان کی بنیادی ذمّے داری

بنگلادیش کی وزیراعظم، شیخ حسینہ واجد تک کا کہنا ہے کہ ’’پاکستان تقریباً نصف صدی گزر جانے کے باوجود اپنے ہی ہم وطنوں کو لینے سے انکاری ہے اور یہ انتہائی افسوس کا مقام ہے۔‘‘انہوں نے یہ بات بنگلا دیش میں محصور پاکستانیوں کی نمائندہ تنظیم، ایس پی جی آر سی کے ایک نمائندہ وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ 

وفد نے بنگلا دیش کی وزیراعظم سے درخواست کی تھی کہ 1971ء سے پہلے پیدا ہونے والے پاکستانیوں کو، جنہیں عدالت نے بھی ووٹ دینے کا اہل قرار نہیں دیا، جو منقسم خاندانوں سے تعلق رکھتے اور اپنے اہلِ خانہ کے پاس پاکستان جانا چاہتے ہیں، پاکستان منتقل کروانے میں مدد دی جائے اور اس ضمن میں رابطہ عالمی اسلامی کے پاس جو فنڈز موجود ہیں، اُنہیں استعمال میں لایا جائے۔ وفد میں ایس پی جی آر سی کے رہنمائوں سمیت مختلف کیمپوں کے نمائندے شامل تھے۔شیخ حسینہ واجد نے وفد کی گزارشات بغور سُنیں اور اس حوالے سے اعلیٰ سطح پر اقدامات کا وعدہ کیا۔

وہ پاکستان کو نہیں بُھولے!!.....

ممتاز ادیب اور سقوطِ ڈھاکا کے بعد جنگی قیدی بنائے جانے والے مسعود مفتی نے 2010ء میں شایع ہونے والی اپنی کتاب ’’چہرےمہرے‘‘ مشرقی پاکستان کے بہاریوں کے نام معنون کرتے ہوئے لکھا کہ ’’یہ وہ لوگ تھے، جو 1947ء میں بہار، آسام، یوپی اور سی پی وغیرہ سے ہجرت کرکے مشرقی پاکستان آئے اور دوسرے درجے کے شہری بن گئے۔ انہوں نے یہ جانتے ہوئے بھی تحریک ِپاکستان کی جدوجہد میں حصّہ لیا کہ اُن کے علاقے کبھی پاکستان میں شامل نہیں ہوں گے۔ یہ 1947ء میں اپنے عزیزوں کی لاشوں پر تیرتے ہوئے ڈھاکا پہنچے۔ انہوں نے مارچ اور اپریل 1971ء میں وہ المیہ دیکھا، جو 1947ء میں بھی نہ ہوا تھا، کیوں کہ ان بہاریوں کو پاکستان کے ساتھ وفاداری کے نام پر ہتھیار تھما دیئے گئے اور کہا گیا کہ عوامی لیگ پاکستان کی دشمن ہے۔ 

بہاریوں نے عوامی لیگ کے خلاف پاکستانی فوج کا ساتھ دیا اور 16دسمبر 1971ء سقوطِ ڈھاکا کے بعد انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں رہا۔‘‘ چند برس قبل معروف صحافی، کالم نگار اور جیو کےسینئر اینکرپرسن، حامد میر نے ’’کیپٹل ٹاک‘‘ میں ممتاز مفتی سے سقوط ِڈھاکا کے حوالے سے گفتگو کی۔ پروگرام ختم ہونے کے بعد انہوں نے غیر رسمی طور پر حامد میر سے پوچھا کہ ’’آپ پچھلے دنوں ڈھاکا گئے ہوئے تھے، کیا وہاں بہاریوں سے ملے؟‘‘ حامد میر نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے کہا ’’ہاں، میں بہاریوں کے ایک وفد سے ملا تھا، وہ آج بھی خود کو پاکستانی کہتے ہیں، پاکستان انہیں بُھلا چکا، لیکن وہ پاکستان کو نہیں بُھولے۔‘‘

’’ہم نے مشرقی پاکستان میں قربانیاں دینے والوں کا خیال نہیں رکھا‘‘علی محمد خان

وزیرِ مملکت برائے پارلیمانی امور، علی محمد خان نے 12فروری 2020ء کو قومی اسمبلی میں توجّہ دلائو نوٹس کے جواب میں اعتراف کیا کہ’’ مشرقی پاکستان میں قربانیاں دینے والوں کا ریاست نے اُس طرح خیال نہیں رکھا، جس کے وہ حق دار تھے۔ 

موجودہ حکومت سانحۂ مشرقی پاکستان کے بعد ہجرت کر کے یہاں آنے والوں کو جائز حقوق دے گی۔‘‘ قومی اسمبلی کے رکن صلاح الدّین اور دیگرنے بھی اس موقعے پر کہا کہ مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈالنے کے باوجود لوگ پاکستان کو دولخت ہونے سے بچانے کے لیے لڑتے رہے۔ 

یہ لوگ کئی ماہ تک مزاحمت کرتے رہے، مگر پاکستان کے لیے قربانیاں دینے والوں کو بُھلا دیا گیا ہے۔ جس کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی، اسد قیصر نے رولنگ دے کر یہ معاملہ قومی اسمبلی کی متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا کہ ’’تمام معاملات پر قائمہ کمیٹی میں بات کی جائے۔‘‘ لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ ایک سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود مذکورہ کمیٹی کا نہ تو کوئی اجلاس ہوا، نہ اس معاملے پر مزید کوئی پیش رفت ہوئی۔

تازہ ترین