• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاہور میں پی ڈی ایم کاجلسہ عددی اعتبار سے کیسا تھا؟ اس حوالے سے آپ جانتے ہیں کہ ایک روایت یہ بھی ہے کہ ہر جلسے کے بعد جہاں اپوزیشن اپنے جلسے کو تاریخی قرار دیتی ہےتووہاں حکومت اسے ناکامی سے تعبیرکرتی ہے،چونکہ اب سوشل میڈیا و ٹیکنالوجی کا دور ہے اس لئے لمحوں میں حقیقی صورت حال عوام کے سامنے آجاتی ہے اور وہ خود اس پوزیشن میں ہوتے ہیں کہ کوئی رائے قائم کرسکیں۔تاہم، مریم نواز کادوران جلسہ لگایا گیا یہ الزام کے چینلوں سے کہاگیا ہے کہ وہ جلسے کو ناکام ظاہر کریں،اگر صادق ہے تو قابلِ افسوس اور یہ اس بات کی غمازی کرتاہے کہ حکومت خوف میں مبتلا ہے۔ پھر تعدا د سے قطع نظر جس طرح مریم نواز صاحبہ نے جلسے کو جو رنگ دیا، وہ اس قدر نمایاں ہوا کہ پورےملک کو اپنی جانب کھینچ لایا،یہ رنگ اُن ویڈیوز کا تھا جو جلسے کے اسٹیج پر نصب دیو ہیکل اسکرین پر چلائی گئیں،اس میں وزیراعظم کے قول و فعل کے تضاد کوبڑے سلیقے سے عوام کے سامنے لایاگیا۔ ہم مگر جس بات کی جانب آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہتے ہیں، وہ یہ ہےکہ اس جلسےمیں چونکہ پاکستان کی تمام قومیتوں کی نمائندہ جماعتیں موجود تھیں، اس لئے قومی یکجہتی کی ایک عظیم فضا دیکھی گئی۔ چھوٹے صوبوں کی قیادت نے پنجاب سے کھل کر گلے شکوے کئے تو وہاں پنجاب کی قیاد ت نے دل کھول کر ان کی تسلی کیلئے ہاتھ بڑھایا۔ تاریخ یہ ہے کہ قیام پاکستان سے قبل جس وقت باچاخان اور عبدالصمدخان اچکزئی کی قیادت میں چھوٹے صوبوں کے عوام انگریز استعمار کیخلاف آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے تو یہ پنجاب ہی تھا جس نے انگریز راج کا ساتھ دیا۔جیسا کہ ایک جلسے میں محمود خان اچکزئی نےکہا تھا کہ جب باچاخان نے پاکستان کی اسمبلی میں وفاداری کا حلف لیا تو ان کے حلف کو اس لئے قابل قبول نہیں سمجھاگیا کہ پاکستان میں اقتدار پر براجمان لوگ یہ جانتے تھے کہ وہ باچاخان اور ان کے ساتھیوں کی موجودگی میں نہ تو انگریز کا وہ ایجنڈاجواب امریکا کی صورت میں ایک نئے سامراج نے اپنا لیا تھا،آگے بڑھاسکتے ہیں اور نہ ہی وہ موقع پرست سیاست جو قیام پاکستان سے قبل ان کا اوڑھنا بچھونا تھا، جاری رکھ سکتے ہیں۔یوں نہ صرف باچاخان کی جماعت خدائی خدمتگار تحریک پر پابندی لگائی گئی ،پختونخوا(صوبہ سرحد)میں منتخب حکومت کا خاتمہ کیا گیا بلکہ باچاخان و ولی خان سمیت تمام رہنمائوں کو جیل میں ڈالا گیا۔یہی نہیں بلکہ بابڑہ کےمقام پر 6سو سے زائد خدائی خدمتگاروں کا قتل عام کیا گیا،اس کے باوجود جب جب ان رہنمائوں کو جیل سے باہر آنے کا موقع ملتا ،وہ پاکستان میں جمہوریت، عوامی حقو ق اور آئین کی بالادستی کیلئےمیدان میں نکلتے لیکن شومئی قسمت کے اُن کی راہ میں پیدا کی جانے والی رکاوٹوں کا سہولت کار پنجاب ہوتا،یہی وجہ ہے کہ ملک میں آج تک نہ تو حقیقی جمہوریت رائج ہوسکی ہےاور نہ ہی ووٹ کو تقدس مل سکا ہے۔پی ڈی ایم کے جلسے میں چھوٹے صوبوں کے بڑے ترجمان اسفندیارولی خان کی عدم شرکت کو مسلسل محسوس کیا جارہا ہے،وہ صحت یاب ہوتے تو ان جلسوں کو اور تقویت ملتی،مگر محمود خان اچکزئی، اخترمینگل اور آفتاب شیرپائو نے جس انداز سے چھوٹے صوبوں کا مقدمہ اہلِ پنجاب کے سامنے رکھا ہے، وہ قابلِ ستائش ہے۔معروضی حالا ت کا یہ اعجاز ہے کہ اس نے بالآخر پنجاب کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ اس ملک کا اصل مسئلہ ہے کیا؟کیوں اس کے ساتھ آزاد ہونے والے ممالک ترقی کی دوڑ میں آگے نکل چکے ہیں؟پاکستان سے الگ ہونے والا بنگلہ دیش پاکستان سے تعلیم، معیشت اور امن کے شعبے میں اِس قدر آگے بڑھ گیاہےکہ اقتصادی ماہرین کے مطابق پاکستان کو بنگلہ دیش کی ترقی تک پہنچنے کیلئے دس سال درکار ہیں۔پنجاب کے عوام اب غور کرنے لگے ہیں کہ کیوں وسائل سے مالامال یہ ملک مقروض، خوفناک غربت، جہالت ،بیماری اور دہشت گردی کا شکار ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ معجزہ تب رونما ہوا جب اسی پنجاب کے ایک عوامی لیڈر پر بھی ایسے ہی مقدمات قائم کئے گئے جو قبل ازیں باچا خان، عبدالصمدخان اچکزئی، جی ایم سید،ولی خان، خیربخش مری،عطااللہ مینگل ،غوث بخش بزنجو پر قائم کئے گئے تھے۔عوام اب یہ ادراک کرنے لگے ہیں کہ کیوں غداری اور بغاوت کے الزامات لگاکر عوام کے مقبول راہ نمائوں کو معتوب کبنایا جاتارہا ہے۔میاں نواز شریف اور محترمہ مریم نواز کو یہ کریڈٹ جاتاہے کہ اُنہوں نے ملک کے اصل امراض کی نہ صرف تشخیص کی بلکہ اس کے علاج کیلئے پنجاب کے عوام کو بیدار کرنے کا بیڑہ بھی اُٹھایا ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ بیداری کا یہ سفر جاری رہتاہےیا پھر کسی دوراہے پرپہنچ کر مصلحت کا شکار ہوجاتاہے؟

تازہ ترین