• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’غصّہ کیا ہے؟‘‘ اسے سمجھنے کے لیےذرا اس مثال پر غور کریں کہ جب آپ کا باس آپ کے انتہائی محنت سے کیے گئے کام کو نظر انداز کر کے ایک چھوٹی سے غلطی پہ خاصی دیرڈانٹے یا پھر جب آپ کا ماتحت ہر بار بچّوں کی طرح اُلٹا سیدھا کام کر کے آپ کے سامنے لاکر رکھ دے؟ ظاہر سی بات ہے کہ دونوں صُورتوں میں غصّہ و طیش آئے گا، تو واضح ہوا کہ غصّہ ایک ایسی کیفیت کا نام ہے، جو کسی بھی ناخوش گوار صُورتِ حال کے نتیجے میں سامنے آئے، مگر ہر فرد کا ردِّ عمل ایک جیسا نہیں ہوتا۔

جیسا کہ درج بالا مثالوں میں ایک فریق کی توجّہ کی گئی محنت پر ہے، تو دوسرے کی غلطی پر۔ ایک کو اپنی ملازمت جانے کا خوف ہے، جب کہ دوسرے کو ردِّعمل نہ دکھانے کی صُورت میں اپنے اختیارات اور طاقت چھن جانے کا خوف کہ مَیں نےاگر ابھی اسے نہیں ٹوکا ، تو یہ دوبارہ میری بات نہیں مانے گا۔ اس کے علاوہ اور بھی عوامل ہیں، جو غصّے پر اثر انداز ہوکر مختلف ردِّعمل ظاہر کرتے ہیں۔

غصّہ ایک فطری عمل ہے، جس سے کوئی بھی فرد انکاری نہیں ہوسکتا ۔طبّی اعتبار سے دیکھا جائے،تو کسی ناخوش گوار بات پر غصّہ آنا ذہنی طورپرنارمل ہونے کی علامت ہے،جب کہ غصّہ نہ آنا کسی شدید ذہنی مسئلے کی نشان دہی کرتا ہے۔سوال یہ ہے کہ غصّہ کیوں آتا ہے؟ تو ہر انسانی جذبے کی طرح غصّہ بھی کیمیائی رِدّ عمل کا نتیجہ ہے۔مثال کے طور پر جب ہم اس طرح کےحالات سے دوچار ہوں، جو ہمارے لیے کسی بھی حوالے سے ناخوش گوار ہوں، تو ہمارا جسم"Fight Or Flight" یعنی ’’لڑو یا بھاگو‘‘ کی کیفیت میں آجاتا ہے،جس کے نتیجے میں دماغ ایڈرینالائن (Adrenaline)نامی مادّہ خارج کرتاہے، جو خون کا دباؤ بڑھنے،زائد پسینہ آنے اور آنکھوں کی پُتلیاں پھیل جانے کا موجب بنتا ہے۔ اس ردِّعمل میں نان ایڈرینالائن مادّہ پیدا ہوتا ہے، جوفیصلہ سازی میں مدد فراہم کرتا ہے۔ 

البتہ غصّے کا ردِّعمل اس پر منحصر ہے کہ ہم نے ماحول سے کیا سیکھا۔ مثال کے طور پر گھر کی بڑی خواتین جیسے نانیاں، دادیاں چھوٹی بچّی کے غصّہ دکھانے پر فوراً ٹوک دیتی ہیں کہ ’’یہ لڑکیوں کا شیوا نہیں‘‘،جب کہ چھوٹے بچّے کے غصّہ دکھانے پر بہت فخر سے کہا جاتا ہے، ’’دیکھو ذرا، ابھی سے باپ ،دادا جیسا جلال ہے۔‘‘ دیکھا جائے، تو کم عُمری ہی سے ہم اپنے رویّوں سے لڑکے اور لڑکی کو یہ باور کروانا شروع کردیتے ہیں کہ کسے غصّے کے اظہار کی اجازت ہے اور کسے نہیں۔ ایک طرف غصّےکے اظہار سے منع کیا جاتا ہے ،تو دوسری طرف اظہار کے پُرتشدّد طریقے کو اس کی شخصیت کا خاصّہ کہہ کر اجازت کا اعزاز بخش دیاجاتا ہے۔یہاں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ آیا غصّے کا اظہار درست ہے بھی یا نہیں؟ 

تو یاد رکھیے،ذہنی صحت کے لیے ہر جذبے کا مناسب طریقے سے اظہار ضروری ہے، خواہ وہ خوشی کا اظہارہو یا غم کا، درد کاہو یا غصّے کا۔ہاں البتہ کسی بھی جذبے کے اظہار کے لیے زبردستی، تذلیل یا تشدّد کا راستہ اپنایا جائے، تو یہ نامناسب رویّہ کہلاتا ہے، جوکسی ذہنی مرض کی علامت ہوسکتا ہے۔ اگرابتدا میں بیان کی جانے والی مثال دیکھیں، تو دونوں فریق اپنی اپنی جگہ درست بھی ہیں اور غلط بھی۔ کیوں کہ ہوسکتا ہے، ماتحت نے واقعی بہت محنت سے کام کیا ہو اور نادانستگی میں غلطی رہ گئی ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جلد نمٹانے کی کوشش میں جیسے تیسے کام مکمل کرکے باس کے سپرد کردیا گیا ہو۔

بہرحال، اس صُورت میں باس کو کام دیکھ کر پہلے غصّہ آئے گا اور ماتحت باس کے ردِّعمل کے بعد غصّےکی کیفیت سے دوچار ہوگا۔ دیکھا جائےتو معاملہ فہمی کا بار اس وقت باس کے کندھوں پر ہے ،کیوں کہ باس چاہے تو اپنے غصّے کا مناسب طریقے سےاظہارکرکے اُسی ماتحت سے کام ٹھیک کرواسکتا ہے، تاکہ باہمی تعلقات اوردفتری ماحول خراب نہ ہو۔لیکن ایسا بہت کم کیسز میں ہوتا ہے۔ 

یہ امر باعثِ افسوس ہے کہ ہمارا معاشرہ ،اُن افراد کو جو کسی نہ کسی حوالے سے رتبے میں برتر سمجھے جاتے ہیں،غصّے کے اظہار کی اجازت دیتا ہے، جب کہ کم رتبے والے کو اپنی ناپسندیدگی کے اظہار کی بھی اجازت نہیں دی جاتی اور جذبات کے حوالے سے یہی غیر منصفانہ اصول مزید مسائل کی وجہ بنتا چلا جاتا ہے۔

ایک فرد، جس پر غصّہ غالب آجاتا ہے،وہ کئی افراد کو متاثر کرنے کا سبب بنتا ہے۔ جیسے باس اپنے ماتحت پر غصّہ اُتارے گا، تو شادی شدہ ماتحت گھر آکر بیوی، بچّوں سے لڑ کر یا مار پیٹ کر غصّے کی آگ ٹھنڈی کرنے کی کوشش کرے گا۔ اگر ماتحت غیر شادی شدہ اور گھر کا واحد کفیل ہو، تویقیناً ضعیف والدین اور چھوٹے بہن بھائیوں پر غصّہ اُتاردے گا۔ 

غصّے کا اظہار یہیں تک محدود نہیں رہتا، بلکہ آگے چل کر بیوی اپنے بچّوں، ساس یا نندوں سے لڑ جھگڑ کر غصّہ اُتارے گی اور بچّے چیزیں توڑ پھوڑ کر یا محلّے کے خود سے کم زور بچّوں یا گلی کے کتے، بلیوں کو مار کر غصّہ اُتاریں گے۔ 

اس طرح غم و غصّے کا اصل احساس ختم نہیں ہوتا، بلکہ بڑھتا چلا جاتا ہے، کیوں کہ اس پورے چکر میں نہ صرف منفی رویّہ آگےمنتقل کیا گیا، بلکہ اپنے اندر بھی مزید غصّہ بڑھا لیا گیا، لہٰذا یہ بات گِرہ سے باندھ لیں کہ غصّے کا اظہار جب تک اس سمت نہ ہو، جس کی وجہ سے غصّہ آیا ہے، آپ کا غصہ ختم نہیں ہوگا، وہ شکلیں بدل بدل کر پریشان کرتا رہے گا یا مستقل ذہنی دباو ٔبن کر آپ کو ڈیپریشن کا مریض بنا دے گا۔

طبّی اعتبار سے غصّے کی کیفیت سے باہر نکلنے کے لیے چیخنا چلّانا کسی طور بھی درست نہیں۔اگر آپ کو کسی بھی وجہ سےغصّہ آرہا ہو،تو خود کو پُرسکون رکھتے ہوئے مناسب الفاظ میں یہ واضح کردیں کہ آپ کو یہ بات یا رویّہ پسند نہیں۔ اگر کوئی ایسا مسئلہ ،جس پر گفتگو ضروری ہو، تو جب تک غصّے کا احساس کم نہ ہوجائے، خاموش ہی رہیں، تو بہتر ہے۔ علاوہ ازیں، خود کو پُرسکون رکھنے کے اور بھی کئی طریقے ہیں۔ مثلاً سب سے پہلے تو اُس فرد کے سامنے سے ہٹ جائیں،جوغصّے کا سبب بنا ہو۔ 

البتہ نرم لہجے میں اُسےیہ ضرور واضح کردیں کہ ابھی آپ اُس سےبات نہیں کرنا چاہتے، ورنہ درپیش مسئلہ جھگڑے کی صُورت اختیار کرلے گا۔ اس کے بعد کسی پُرسکون جگہ بیٹھ کر گہری سانسیں لیں۔ اس مشق سےفائٹ اور فلائٹ کی کیفیت کم ہونے کے ساتھ خون کی گردش بھی نارمل ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں اعصاب پُرسکون ہوجاتے ہیں۔ 

ٹھنڈا پانی پی لیں، کوئی مذہبی کتاب پڑھ لیں، خود کو کسی مثبت سرگرمی میں بھی مصروف بھی کرسکتے ہیں۔ مراقبہ کرسکتے ہیں، جو غصّے پر قابو پانے کا وقت طلب، لیکن دیر پا حل ہے۔ واضح رہے کہ غصّے پر قابو پانے کے لیے یہ سوچنا کہ غصّہ کس پر اُتارا جاسکتا ہے اور کس پہ نہیں، لازماً اثر انداز ہوتا ہے، کیوں کہ پھر کبھی کسی ایسے فرد کے لیے غصّہ کنٹرول کرنے کی کوشش ہی نہیں کی جائے گی، جسے خود سے کم تر سمجھا جاتا ہو۔ بظاہر اس کا کوئی نقصان نہیں ہوتا، مگر ذہنی طور پر یہ سوچ فریقین کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ یعنی جس کی تذلیل کی گئی اور جس نے کی دونوں ہی ذہنی کرب میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔

بعض اوقات کسی ذہنی مسئلے کی وجہ سے بار بار اس قدر غصّہ ،طیش آتا ہے کہ اس پر قابو پانا مشکل امر بن جاتا ہے۔ یہ عموماً مستقل ذہنی دباؤ، اینگزائٹی یا ڈیپریشن میں مبتلا افراد کے ساتھ ہوتا ہے۔ مختلف تحقیقات سے یہ ثابت ہوچُکا ہے کہ جلد غصّہ آنے کی ایک وجہ ذہانت میں کمی بھی ہوسکتی ہے۔ اس وجہ کے بھی دو پہلو ہیں۔ ایک احساسِ کم تری اور دوسرا معاملے کی تہہ تک پہنچے بغیر نتیجہ اخذ کرنا۔ یعنی ایک ایسا فرد جسے ہمیشہ اس کی کند ذہنی پرٹوکا جاتا ہو، اس کے سامنے اُس سےکم یا برابر کے رتبے کا حامل فرد اس سے بہتر کام کرکے دکھائے، تو وہ پہلے سے موجود ذہنی دباؤ اور اس صلاحیت کی کمی کی وجہ سے جلد غصّے میں آجاتا ہے اور پھراس کے اظہار کا نامناسب طریقہ اپناتا ہے۔ کسی بھی قسم کے ذہنی مسائل حتیٰ کہ ذہانت کی کمی اور اس سے ہونے والے معاشرتی دباو ٔکی وجہ سے غصّے پر وقتی طور پر درج بالا طریقوں سے قابو پایا جاسکتا ہے، مگر اس کا مستقل حل تب ہی ممکن ہے، جب ذہنی مسئلے کا علاج کروایا جائے۔

یاد رکھیں کہ ہر جھگڑے میں جھگڑا ختم کرنے یا بڑھانے کی ذمّے داری ہمیشہ اس فرد پر عاید ہوتی ہے، جو فریقین میں سے نسبتاً زیادہ رتبہ یا طاقت رکھتا ہو۔ جیسے والدین پر، جب اولاد کم عُمر ہو، تب یہ ذمّے داری عاید ہوتی ہے کہ وہ مصالحتی کردار ادا کریں۔اسی طرح جب اولادجوان ہوجائے اور والدین جسمانی طور پر ان کے رحم و کرم پر ہوں، تو پھر یہ اولاد کی ذمّے داری بنتی ہے۔ استاد ،شاگرد کے رشتے میں یہ ذمّے داری استاد پر، افسر ،ماتحت کے رشتے میں افسر ،جب کہ عالم اور جاہل کے معاملے میں عالم پر عاید ہوتی ہے۔

ایک اور اہم بات یہ کہ آپ اپنے کم عُمر بچّوں کو غصّے کے اظہار کی کس حد تک اجازت دیتے ہیں، کیوں کہ اس عُمر میں وہ آموزش کے مرحلے سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ ایسے میں بچّوں کوغصّہ آنے کی صُورت میں ڈانٹنے کی بجائے پیار سے سمجھائیں۔ اگر آپ کی کسی غلطی کی وجہ سے بچّے کو غصّہ آیا ہو، تو اپنی غلطی تسلیم کرنے میں قطعاً عار محسوس نہ کریں، تاکہ بچّہ یہ سیکھ سکے کہ اگر کوئی غلطی ہوجائے، تو اسے نہ صرف مانا جاتا ہے، بلکہ ٹھیک بھی کیا جاتا ہے۔ 

ہمیں عموماً ایک دوسرے پر تب ہی غصّہ آتا ہے، جب ہم دوسرے کی غلطی معاف نہیں کرپاتے اور اُسے غلطی سدھارنے کا موقع بھی نہیں دیتے۔جو سراسر غلط ہے، کیوں کہ یہ ناممکن سی بات ہے کہ کبھی کسی سے کوئی غلطی نہ ہو، لہٰذا اہمیت غلطی کو نہ دیں، بلکہ توجّہ اس بات پر دی جائے کہ اُسے سدھارا کیسے جائے۔ (مضمون نگار،معروف سائیکولوجسٹ ہیں)

تازہ ترین