• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکا نے مشرقِ وسطیٰ میں ایک اور پیش رفت کرتے ہوئے قطر اور خلیج کے دیگر ممالک کے درمیان ٹوٹے تعلقات پھر سے جوڑنے کی کوششیں شروع کی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اِس ضمن میں اُسے کچھ کام یابیاں بھی حاصل ہوئی ہیں۔اِن دنوں عالمی سیاست میں زیادہ تر تبدیلیاں مشرقِ وسطیٰ ہی میں ہو رہی ہیں۔ابھی عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کا چرچا تھا کہ قطر اور سعودی عرب میں تعلقات کی بحالی کی خبریں بھی سامنے آ گئیں۔ قطر ’’خلیج تعاون کاؤنسل‘‘ کا رُکن تھا، جسے سعودی عرب کی سرپرستی حاصل ہے۔

اِس کاؤنسل میں مِصر، یو اے ای، بحرین، سعودی عرب اور کویت شامل ہیں، جب کہ قطر بھی اس کا حصّہ تھا، لیکن مارچ 2017 ء میں کاؤنسل نے پہلے تو اُسے ایک سخت الٹی میٹم دیا اور پھر خلیج تعاون کاؤنسل سے نکال دیا۔بات یہیں ختم نہیں ہوئی۔ ان پانچ ممالک نے قطر سے سفارتی تعلقات بھی توڑ لیے۔یوں قطر خطّے میں تنہا رہ گیا۔بعدازاں،اِن ممالک کی جانب سے قطر کی ناکہ بندی کر دی گئی، جس کے سبب اُسے معاشی اور سیاسی دونوں شعبوں میں سخت آزمائش سے گزرنا پڑا۔ 

رواں ماہ کے آغاز میں خبر آئی کہ امریکا نے ثالثی کرتے ہوئے تعلقات بحال کروانے کی کوشش کی اور شاید چند ہی دنوں میں اس کا باقاعدہ اعلان بھی ہوجائے۔امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ کے سنئیر مشیر، جارڈ کشنر نے اِس سلسلے میں پہلے سعودی ولی عہد، شہزادہ محمّد بن سلمان اور پھر قطر کے امیر سے ملاقات کی۔مبصرین کا کہنا ہے کہ اِن ملاقاتوں میں تعلقات کی بحالی سے متعلق اقدامات پر بات چیت کی گئی۔واضح رہے، کشنر، صدر ٹرمپ کے داماد ہیں اور وہ مِڈل ایسٹ کی امریکی پالیسی میں اہم کردار کے حامل ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ’’ قطر ڈپلومیسی‘‘ کے پہلے مرحلے میں سعودی عرب اور قطر کے درمیان تعلقات بحال ہوں گے، پھر دیگر ممالک سے بات ہو گی۔

مِڈل ایسٹ کے بدلتے منظر نامے میں اگر اِس تبدیلی یا واپسی کے سفر کو دیکھا جائے، تو ٹرمپ انتظامیہ کی مشرقِ وسطیٰ کی پالیسی کے تسلسل کی یہ آخری کڑی نظر آتی ہے، جس کا مقصد عرب ممالک اور امریکا کو مزید قریب لانا ہے۔ تین سال سے زیادہ ہونے کو آئے ہیں کہ سعودی عرب اور قطر ایک دوسرے کے خلاف تلخ بیانات داغ رہے ہیں۔ماہرین کے مطابق، اگر اسے کورونا اور تیل کی کم قیمتوں کے پس منظر میں دیکھا جائے، تو بہت سی چیزیں سامنے آئیں گی۔ موجودہ عالمی صُورتِ حال عرب ممالک کے لیے بہت زیادہ نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے اور پھر یہ کہ اطراف کے ممالک پر بھی اس کے منفی اثرات مرتّب ہو رہے ہیں۔ خاص طور پر ان ممالک میں ملازمت کرنے والے لاکھوں تارکینِ وطن ان حالات سے براہِ راست متاثر ہوئے ہیں۔ 

یہ وہ عرب ممالک ہیں، جو تیل کی دنیا کے بادشاہ کہلاتے ہیں اور ان کی معیشتیں اسی سے وابستہ ہیں۔یہ ممالک تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم’’اوپیک‘‘ کے رُکن ہیں۔یہی تنظیم تیل کی قیمتوں کا تعیّن کرتی ہے۔ ان عرب ممالک کی آبادی کا ایک بڑا حصّہ اُن تارکینِ وطن پر مشتمل ہے، جن کا تعلق ملائیشیا تک پھیلا ہوا ہے۔اطلاعات کے مطابق تازہ امریکی ڈپلومیسی کے تحت قطر، سعودی عرب اور بحرین کی ائیر لائنز کو ایک دوسرے کی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت ہوگی۔اس سے منقطع رابطے دوبارہ استوار کیے جاسکیں گے۔ جب تعلقات منقطع ہوئے تھے، اُس وقت قطر پر زمین، فضا اور سمندری راستے بند کردیے گئے تھے، جس سے اُس کی تجارت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ 

اِس گھیراؤ سے اُس کی سیّاحت بھی بیٹھ گئی، خاص طور پر اُس کی فضائی کمپنی کو شدید دھچکا لگا، جو مِڈل ایسٹ ہی نہیں، دنیا میں بھی ایک معتبر نام ہے۔تیل تو سپلائی ہوتا رہا، کیوں کہ یہ بین الاقوامی معاہدوں کے تحت مختلف ممالک کو فراہم کیا جاتا ہے، تاہم قطر کی درآمدات متاثر ہوئیں۔ وہاں کوئی بڑا صنعتی ڈھانچا نہیں اور پیداوار بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔اسے کھانے پینے کی اشیاء تک درآمد کرنی پڑتی ہیں۔گھیراؤ کی وجہ سے قطر کے لیے خوراک منگوانا بھی ایک بڑا مسئلہ ہوگیا تھا۔

اُس وقت ایران نے اُس کی مدد کی تھی، لیکن وہ بھی ایک حد تک ہی ، کیوں کہ خود ایران بھی معاشی بحران کا شکار ہے۔ وہاں اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ اس پر امریکی پابندیاں ہیں اور مشرقِ وسطی کی موجودہ صورت حال میں قطر کا اُس کے زیادہ قریب جانا بھی سیاسی مشکلات میں اضافے کا سبب بن سکتا تھا۔ایک طرف تیل کی کم قیمتوں کا دبائو اور دوسری جانب اقتصادی ناکہ بندی، ان دونوں نے قطر کو معاشی اور انتظامی آزمائش سے دوچار کر دیا تھا۔اُس وقت بھی اکثر ممالک کا کہنا تھا کہ ناکہ بندی ایک حد کے اندر ہی رہنی چاہیے، کیوں کہ اس سے انسانی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔

قطر تیل پیدا کرنے والا ایک بہت چھوٹا سا مُلک ہے۔اس کی آبادی27 لاکھ ہے، جس میں اکثریت تارکینِ وطن کی ہے۔ ان تارکینِ وطن میں سات لاکھ کے قریب پاکستانی اور سترہ لاکھ بھارتی ہیں۔اس کی معیشت کا تمام تر دارومدار تیل کی آمدنی پر ہے۔اس کا دنیا کے خوش حال ترین ممالک میں شمار ہوتاہے۔ جی ڈی پی تمام بحرانوں کے باوجود2020 ء میں358 بلین ڈالرز اور فی کس آمدنی139.910 ڈالرز رہی۔ قطر نے نہ صرف مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں بہت متحرّک کردار ادا کیا، بلکہ اردگرد کے ممالک کی سیاست میں بھی کسی نہ کسی طرح ملوّث رہا۔

افغانستان کے متعلق امریکا اور طالبان ڈائیلاگ اور پھر افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات اسی کے دارالحکومت، دوحا میں ہوئے۔شام کی خانہ جنگی میں بھی یہ ملوّث رہا اور شامی اپوزیشن کو مالی امداد فراہم کرتا رہا۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے سیاست میں اپنے حجم سے بڑھ کر کردار ادا کیا۔امریکا کا سب سے بڑا فوجی اڈّا قطر ہی میں ہے اور نائن الیون کے بعد ہونے والی افغان جنگ میں نیٹو افواج کو سپلائی بھی وہیں سے ہوتی رہی۔ 

کہا جاتا ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد آرمز کی سپلائی کا سب بڑا ایئر برج قطر اور کابل کے درمیان قائم کیا گیا تھا۔ یہ سب باتیں قطر کی معاشی اور فوجی اہمیت کا احساس دِلاتی ہیں۔ اس کی سرحدیں خلیج فارس اور خلیج عرب دونوں سے ملتی ہیں۔ظاہر ہے، ایک ایسا مُلک، جو دولت مند ہو اور اسٹریٹیجک اہمیت بھی رکھتا ہو،تو اس سے اس کردار کی توقّع کی جا سکتی ہے۔پاکستان اور قطر کے درمیان قریبی تعلقات ہیں، اِسی لیے دوحا مذاکرات میں اسلام آباد نے بڑھ چڑھ کرسہولت کار کا کردار ادا کیا۔

خلیج تعاون کاؤنسل، جس کا قطر رکن تھا، بنیادی طور پر یمن کی جنگ کے بعد قائم کی گئی۔ اس کا مقصد ایران کی اُن کوششوں کو شکست دینا تھا، جو وہ حوثی باغیوں کی مدد کے ذریعے سعودی عرب کے خلاف کر رہا تھا۔شروع میں قطر اس میں شامل رہا، لیکن پھر مارچ2017 ء میں اچانک کاؤنسل کے باقی ارکان نے اُس پر ایران کی درپردہ حمایت کا الزام عاید کردیا۔پہلے تو خلیجی ممالک نے زبانی الزامات لگائے، لیکن پھر ایک تیرہ نکاتی الٹی میٹم اُسے تھمادیا گیا۔اس میں یہ سنگین الزام بھی تھا کہ قطر، ایران اور دہشت گردی کو سپورٹ کر رہا ہے۔

قطر نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے بات چیت پر رضامندی کا اظہار کیا۔اس الٹی میٹم کی ایک شق یہ بھی تھی کہ الجزیرہ ٹی وی کو بند کردیا جائے، جس کا ہیڈ کوراٹر دوحا میں ہے۔کہا گیا کہ الجزیرہ ٹی وی کاؤنسل کے ارکان کے خلاف پروپیگنڈا اور ایران کو سپورٹ کرتا ہے۔یاد رہے، یہ وہی زمانہ تھا، جب ٹرمپ کو صدارت سنبھالے دو ماہ سے بھی کم کا عرصہ ہوا تھا۔اسی لیے قطر اور خلیج کاؤنسل کے ارکان کو قریب لانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی اور دونوں سے الگ الگ گرم جوشی کےساتھ تعلقات رکھے گئے۔ ماہرین کے مطابق، اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی تھی کہ سعودی عرب کے ولی عہد ٹرمپ کی خارجہ پالیسی میں بہت اہم ہوگئے تھے۔

یہی سبب ہے کہ حالیہ دورے میں بھی جارڈ کشنر پہلے سعودی عرب گئے اور اُسے اعتماد میں لیا۔اگر دیکھا جائے، تو سعودی عرب اور قطر کے درمیان کوئی خاص اور سنجیدہ مسائل نہیں ہیں، لیکن یمن کی خانہ جنگی اور پھر حوثی باغیوں کے ریاض پر پے درپے حملوں نے وہ موقع نہیں آنے دیا، جس میں ان عرب ممالک کے درمیان کسی قسم کے مذاکرات ہو پاتے۔ٹرمپ چوں کہ جنوری میں وائٹ ہاؤس سے چلے جائیں گے، اِس لیے اُن کی خواہش ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں یہ آخری معاملہ بھی امریکی مفادات کے مطابق طے کردیا جائے۔

مِصر کی فوجی حکومت کو الجزیرہ ٹی وی سے بہت زیادہ شکایات ہیں اور اُس نے بار ہا یہ الزام دہرایا ہے کہ’’ یہ ٹی وی نیٹ ورک اُس کے عدم استحکام کے لیے کام کر رہا ہے۔‘‘ اُسے اخوان کی سابق حکومت کی حمایت پر شدید تحفّظات ہیں۔سعودی عرب کا ایسا کوئی معاملہ نہیں اور اس نے جارڈ کشنر سے بات چیت میں بہت سے الزامات پر اصرار نہ کرنے کا عندیا دیا، جس سے قطر اور سعودی عرب میں اعتماد سازی ممکن ہوسکے گی۔یاد رہے، ان دونوں ممالک کے درمیان ایک عظیم الشّان منصوبہ زیرِ غور رہا ہے، جس کے تحت دونوں کی زمینی سرحد پر ایک بڑی نہر کھودی جائے گی، جس کے بعد قطر ایک جزیرہ بن جائے کہ اس کے چاروں طرف پانی ہوگا۔

نومنتخب امریکی صدر، جوبائیڈن نے اپنی الیکشن مہم اور اس کے بعد بھی کہا کہ وہ ایران کے ساتھ نیوکلیئر ڈیل جیسا کوئی معاہدہ کرنا چاہیں گے۔اس پس منظر میں دیکھا جائے، تو امریکا اس مرتبہ زیادہ محتاط رویّہ اختیار کرنا چاہتا ہے۔ایک طرف تو اس کی سرپرستی میں کئی عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہوئے ہیں، جن میں متحدہ عرب امارات اہم ہے۔ اس کے ساتھ، امریکا کی یہ بھی خواہش ہے کہ خلیج کے ممالک قطر سے اختلافات ختم کرلیں تاکہ جب ایران کے ساتھ مذاکرات کی ٹیبل پر دوبارہ بیٹھے، تو کسی قسم کی کم زوری ظاہر نہ ہو۔حال ہی میں ایران کے صفِ اوّل کے سائنس دان، محسن فخری زادہ کے قتل نے معاملات مزید پیچیدہ بنادیے ہیں۔

ایران کی رہبر کاؤنسل نے صدر روحانی کی حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ یورینیم افزودگی بیس فی صد بڑھا دے۔تاہم صدر روحانی نے معاملہ فہمی سے کام لیا ہے۔اُنہوںنے سائنس دان کے قتل کے معاملے میں بھی بدلہ لینے کو مؤخر کیا۔اِسی طرح افزودگی کے معاملے پر بھی اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا، کیوں کہ اُن کے خیال میں اس کے بعد امریکا ہی نہیں، یورپی ممالک سے بھی دوبارہ بات کرنی مشکل ہوگی۔ایران اِس اَمر کا اعادہ کرتا رہتا ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیار نہیں بنائے گا، لیکن اگر یورینیم کی افزودگی بڑھتی ہے اور ساتھ ہی بین الاقوامی ایٹمی ایجینسی کے انسپکٹرز کو پلانٹس کے معاینے کی اجازت روک دی جاتی ہے، تو پھر یہ ایران کی جانب سے اس نیوکلیئر ڈیل کو ایک طرح سے مسترد کرنا سمجھا جائے گا، جس پر وہ اس کے نفاذ سے عمل کر رہا ہے۔

اِسی لیے جوبائیڈن نے افزودگی بڑھانے کی خبر کے ساتھ ہی بیان دیا کہ وہ اس کے بعد ایران سے بات نہیں کرسکیں گے۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے ،تو قطر اور خلیج کے ممالک میں دوبارہ تعلقات ضروری ہوجائیں گے، کیوں کہ اسی طرح ایران کو یہ پیغام دینا ممکن ہوگا کہ کوئی بھی عرب مُلک اس کے ایٹمی پاور بننے کی حمایت نہیں کرتا۔دوسری جانب، عرب ممالک کو اسرائیل کی شکل میں ایک ایٹمی طاقت کی دوستی مل گئی ہے۔نہ صرف چین اور روس اُس کی ایڈوانس ٹیکنالوجی کے معترف ہیں، بلکہ وہ اس سے ہتھیار بھی خریدتے ہیں۔

اسرائیل اور ایران کی دشمنی کسی سے چُھپی ہوئی نہیں ہے، اس کا تازہ اظہار ایٹمی سائنس دان کی ہلاکت کی صُورت میں بھی دیکھا جاسکتا ہے، جسے ایران کے بقول انتہائی جدید طریقے سے ریموٹ اور سٹیلائیٹ کنٹرول ہتھیار سے قتل کیا گیا۔جائے وقوعہ پر کوئی شخص موجود نہیں تھا۔اسرائیل، ایران سے نیوکلئیر ڈیل کی کُھلے عام مخالفت کرتا رہتا ہے۔غالباً یہ سب دیکھ کر ہی ٹرمپ انتظامیہ نے فیصلہ کیا تھا کہ ایران کو گھیرنے کے لیے دو اقدام کیے جائیں۔ اوّل، عرب ممالک اور اسرائیل کے سفارتی تعلقات قائم ہوں اور دوم، عرب ممالک کے درمیان پڑنے والی دراڑیں پُر کی جائیں۔ قطر سے سعودی عرب اور دیگر عربوں کے تعلقات کی بحالی اس ڈپلومیسی کا اہم جزو ہے ۔ٹرمپ کا دَور ختم ہو رہا ہے، تاہم وہ بنیادیں فراہم کرکے جارہے ہیں، جن پر اسی پالیسی کو آگے بڑھایا جائے گا۔

امریکا جیسے ممالک کی خارجہ پالیسی لانگ ٹرم اہداف اور مفادات کی بنیاد پر بنائی جاتی ہے۔وہاں کسی کے آنے، جانے سے کم ہی فرق پڑتا ہے۔ایران کے معاملے میں صدر اوباما نے کچھ نرمی دِکھائی، اُس سے نیوکلیئر ڈیل کی،لیکن وہ امریکی پابندیاں نہ ہٹا سکے، کیوں کہ دونوں ایوان پابندیوں کے حق میں تھے۔

اسی طرح، شمالی کوریا اور چین کے معاملے میں بھی اوباما اور ٹرمپ دَور کی پالیسی میں تسلسل برقرار رہا۔ اگر مغربی ایشیاء میں دیکھیں، تو اوباما کی سب سے بڑی خواہش تھی کہ افغانستان سے فوجیں واپس بلا لی جائیں اور طالبان، افغان حکومت میں کوئی سمجھوتا ہوجائے تاکہ وہاں امن کا قیام ممکن ہو۔وہ اس میں کام یاب نہ ہوئے، لیکن ٹرمپ نے دو معاہدوں کے ذریعے تقریباً یہ کام مکمل کر لیا۔قطر اور عرب ممالک کے درمیان ہم آہنگی امریکی پالیسی کا اہم جزو ہے، یہ اگلے دَور میں بھی اسی طرح جاری رہے گی۔

تازہ ترین