• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کبھی انسان کو غور کرنا چاہئے، اِس نیلی زمین اور اِس پہ تخلیق کی جانے والی زندگی پر۔ کسی عظیم منصوبہ ساز نے شہابِ ثاقبوں کی صورت میں زمین پہ پانی نازل کیا۔ پانی وافر ہوا تو سمندر، دریا، ندی نالوں اور بارش کی صورت میں پانی کا ایک مکمل دائرہ (Water Cycle) بنایا۔ زمین کی اوپر والی تہہ پر بچھائی جانے والی مٹی اِس طرح کی تھی کہ یہ پانی کو جذب کرتی اور اپنے اندر اُسے ذخیرہ کر لیتی۔ جہاں کہیں زمین کھودی جاتی، پانی اُبل پڑتا۔ یہی پانی سورج کی شعاعوں سے بخارات میں تبدیل ہوتا تو اوپر جا کر بادلوں کی صورت میں اکھٹا ہو کر برس پڑتا لیکن زمین کی کششِ ثقل اُسے کہیں فرار نہ ہونے دیتی۔ بار بار خدا کہتا ہے کہ بارش میں نشانی ہے، جو زندگی کو سپورٹ کرتی ہے۔ اِس غیرمرئی ہستی نے زمین پہ لوہا نازل کیا۔ اُسے پگھلا کر ایک نادیدہ حصار تخلیق کیا، ہم جسے مقناطیسی میدان کہتے ہیں، یہ سورج سے آنے والے تابکار ذرّات کو واپس لوٹا دیتا ہے۔ اِس کرۂ خا ک کے گرد موزوں گیسوں پر مشتمل ایک فضا (Atmosphere) تشکیل دی گئی۔ گیسوں کا یہ غلاف جانداروں کے لئے اس قدر موزوں تھا کہ گویا آرڈر پر بنایا گیا ہو۔ اس میں سب سے قیمتی چیز آکسیجن تھی، اسپتالوں میں جو باقاعدہ خریدی جاتی ہے۔ اِس کے اوپر اوزون رکھی گئی۔ پودوں اور بیکٹیریا کی صورت میں ایک پورا نظام تشکیل دیا گیا، جس کے ذریعے آکسیجن کی کمی کو پورا کیا جاتا۔ مٹی پودوں کو اپنے اندر جڑیں گاڑنے دیتی۔ یہ پودے آکسیجن اور خوراک پیدا کرتے۔ جانور اِن پودوں کو کھاتے اور زندہ رہتے۔ زندہ چیزوں کے لئے درکار تمام تر حفاظتی انتظامات اِس زمین پر موجود تھے۔

زندگی کو جنم دینے والے عناصر کائنات میں جا بجا بکھرے ہوئے ہیں لیکن کہیں بھی اِن میں وہ توازن موجود نہیں، جو زندہ شے کا روپ دھارنے کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ یہاں یک خلوی جانداروں سے لے کر ڈائنا سار تک انتہائی پیچیدہ جانور پیدا ہوئے۔ اِن میں سے ایک، بظاہر کمزور جانور ہومو سیپین پہ خصوصی رحمت کی گئی۔ وہ صرف کھانا سونگھنے تک محدود نہیں تھا بلکہ کائنات کی ابتدا و اختتام کی تھیوریز بھی پیش کر سکتا تھا۔ آدمی گو عقلمند تھا لیکن اُس میں دوسری حیوانی خواہشات (جبلّتیں) اُنہی جانوروں جیسی تھیں۔ غصہ اُسی طرح آتا۔ اولاد اُسی طرح پیدا کرتا۔ غور کرتا تو وہ دیکھ سکتا تھا کہ زندگی کی حفاظت کے لئے تہہ در تہہ پیچیدہ نظام اِس قدر منصوبہ بندی سے تشکیل دیے گئے ہیں کہ اتفاقاً ایسا ہونا ممکن نہیں۔ وہ غور کرتا تو اپنے کاسۂ سر میں موجود عقل کا دیگر جانوروں سے موازنہ کرتا۔ یوں حقیقت اُس پر منکشف ہو جاتی۔

اِس اثنا میں شریعت نازل ہو چکی تھی۔ خدا کا تقاضا یہ تھا کہ اُن نشانیوں کو دیکھتے ہوئے انسان اُس پر ایمان لائے اور پھر اُس کے بتائے ہوئے طریقے پر زندگی بسر کرے۔ انسان نے نیم دلی سے کسی حد تک اُسے قبول کیا۔ جو یہودی، عیسائی اور مسلمان ہوئے، وہ نسل در نسل اپنے باپ دادا کے عقیدے پر آنکھیں بند کرکے چلنے لگے۔ کسی نے تحقیق کی ضرورت محسوس نہ کی۔ چالیس ہزار سال کے سفر میں انسان جن چیزوں سے خوفزدہ اور متاثر ہوا، وہ اُن کی بھی پوجا کرنے لگا۔ اُن میں پتھر سے لے کر آگ اور بھینس سے لے کر سورج تک شامل تھے۔

کیا بت پرست اور کیا ملحد، کل عالمِ انسانیت اپنے اپنے باپ دادا کی اندھی پیروی میں مشغول ہوئی۔ اپنے تئیں، سب اپنے آپ کو حق پر سمجھنے لگے۔ جو مسلمان تھے اور جن پر آخری مستند الہامی کلام نازل ہوا تھا، اُنہوں نے کتاب کو کھول کر بھی نہ دیکھا۔ بار بار اِس میں کائنات میں موجود خدا کی نشانیوں کا ذکر تھا۔ اِس میں کائنات پہ غور و فکر کرنے والوں پر فخر کا اظہار کیا گیا تھا۔ اِس میں لکھا تھا کہ خدا کے بندوں میں وہی اُس سے ڈرتے ہیں، جو علم والے ہیں۔ اُس میں تحقیق کی دعوت تھی۔ ابتدائی دور کے بعد مسلمانوں نے یہ پیغام سنی ان سنی کر دیا اور دنیا و آخرت میں زوال پذیر ہوئے۔ مغرب ایک اور ہی راہ چل نکلا۔ کئی صدیوں پہ محیط چرچ کے ظالمانہ اقتدار نے اسے مذہب سے باغی کر دیا۔ برہنہ شہر آباد ہوئے۔ مرد و زن سرِ عام اختلاط کرنے لگے۔ ترقی یافتہ انسان نے یہ فیصلہ کیا کہ اگر دو ہم نسل افراد ایک دوسرے سے لذت کشید کرنا چاہیں تو اس میں برائی کیا؟ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ہم جنس پرستی کی مخالفت انتہا پسند ی کہلانے لگی اورہم جنس پرست انسانی حقوق کے چیمپئن۔

کچھ سال پہلے جرمنی میں ایک حکومتی کمیٹی نے یہ قرار دیا کہ اگر بہن بھائی آپس میں شادی کرنا چاہیں تو یہ اُن کا حق ہے۔ آخر دوسرے جانور بھی تو ایسا کرتے ہیں۔ جہاں تک خدا کی طرف سے مقرر کی گئی سزائے موت کا تعلق ہے، اب پاکستان میں بھی مغرب نواز ’’دانشور‘‘ کھل کر اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ مغرب کی طرح عورت اور مرد بغیر شادی کے اکھٹا رہنا چاہیں تو انہیں اس کی اجازت دی جانی چاہئے اور ہم جنس پرستوں کو بھی۔ واحد رکاوٹ ڈنڈا بردار مولوی ہے، جو سڑکوں پہ نکل آتا ہے۔ قصاص سمیت خدائی قانونِ انصاف معطل ہو چکا ہے۔ قاتل کو اب سزائے موت نہیں دی جا سکتی۔ مغرب میں توپھر بھی قاتل گرفتار ہوتا اور جیل جاتا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ حلال و حرام کی فکر کرنے والے کو اب احمق سمجھاجاتا ہے۔ خدا پسِ منظر میں رہ گیا۔ وہ غائب اور پسِ منظر میں رہنا ہی پسند کرتاہے؛البتہ اس کے قوانین حتمی اور طے شدہ ہیں۔ ان میں تبدیلی ممکن نہیں۔تاریخ کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ قدرت کا ان دیکھا ہاتھ انسانیت کو زخم لگانے کو ہے۔ ادھر انسان ہے کہ خود فراموشی کی کیفیت میں جھول رہا ہے۔ مہلت کو اس نے ابدی سمجھ لیا ہے۔

تازہ ترین