• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایکشن کمیشن کے مختلف وجوہ سے خالی ہونے والی نشستوں پر آئندہ ماہ ضمنی انتخابات کرانے کے فیصلے نے اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کو مخمصے میں ڈال دیا ہے کہ وہ ان انتخابات میں حصہ لے یا بائیکاٹ کرے کیونکہ یہ اس وقت ہورہے ہیں جب اپوزیشن نے اسمبلیوں سے استعفے دینے کا اعلان کیا ہوا ہے اور سینٹ الیکشن بھی ہونے والے ہیں.

ذرائع کا کہنا ہے کہ اسے بارے میں فیصلہ پی ڈی ایم کی قیادت 27 دسمبر کو محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی برسی کے موقع پر لاڑکانہ میں متوقع ملاقات میں کرے گی. اب اگر پی ڈی ایم کی پارٹیوں نے سینٹ الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تو وہ اس موقع کو ضائع نہیں کریں گی. کیونکہ انہیں یا کم از کم پیپلزپارٹی کو اس کا فائدہ ہوگا. اس کے ساتھ ان کی اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کی پالیسی بھی بے نقاب ہوسکتی ہے.

سندھ اسمبلی کی ایک نشست کا الیکشن کوئی ایک سال سے زیرالتوا ہے . باقی نشستوں کیلئے الیکشن نہ ہونے کی بھی الیکشن کمیشن نے مختلف وجوہات بتائی ہیں. اب ان سب پر الیکشن کرانے کا فیصلہ وزیر اعظم عمران خان کے اس چیلنج کے ساتھ آیا ہے کہ پی ڈی ایم استعفے دے، ہم تمام سیٹوں پر ضمنی انتخابات کرادیں گے. تاہم حکومت سینیٹ الیکشن ایک ماہ پہلے فروری میں کرانے کے اعلان پر نظر ثانی کرسکتی ہے کیونکہ ایکشن کمیشن کے ضمنی انتخابات کرانے کے اعلان کے بعد یہ شاید ممکن نہ ہو. پی ڈی ایم کی جماعتیں جنوری سے حکومت پر دباؤ بڑھانا چاہتی ہیں لیکن وہ ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر پائیں کی اسمبلیوں سے استعفے سینٹ الیکشن سے پہلے دئیے جائیں یا بعد . وزیراعظم عمران خان نے ان میں گومگو کی کیفیت دیکھتے ہوئے ہی انہیں استعفوں کیلئے چیلنج دیا.

انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا کہ وہ استعفے دیتے ہیں تو ہم ضمنی انتخابات کرادیں گے. اب اپوزیشن کیلئے اپنے موقف سے پیچھے ہٹنا یا نظر ثانی کرنا آسان نہیں ہوگا. لیکن دونوں بڑی اپوزیشن پارٹیوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی بالخصوص مسلم لیگ کو اچھی طرح پتہ ہے کہ ان کے ممبر ٹوٹ سکتے ہیں کیونکہ ابھی تک 30 فیصد ایم این ایز، ایم پی ایز نے بھی اپنے استعفے پارٹی سربراہان کو جمع نہیں کرائے.

پیپلز پارٹی کو یقین ہے کہ قیادت نے اسمبلیاں چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو اس کے 95 فیصد ارکان استعفے دے دیں گے. لیکن مسلم لیگ کو پورا یقین نہیں. زیادہ امکان یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی جماعتیں ضمنی انتخابات اور پھر سینٹ کے انتخابات میں حصہ لیں گی اور اس کے بعد پہلے قومی اسمبلی اور پھر صوبائی اسمبلیوں سے استعفے دیں گی.

یہ فیصلہ اسی ہفتے ان کی قیادت کی ملاقات میں متوقع ہے. اپوزیشن کو اچھی طرح علم ہے کہ سینٹ الیکشن میں حصہ نہ لینے کا مطلب تحریک انصاف اور اتحادی جماعتوں کو واک اوور دے کر بے مثال برتری دے دینا ہوگا. پیپلز پارٹی ہائی کمان پہلے ہی قانونی ماہرین سے مشاورت کرچکی ہے. جنہوں نے بتایا ہے کہ اگر وہ استعفے دے بھی دیں تو الیکٹورل کالج نہیں ٹوٹے گا اور الیکشن کمیشن سینٹ انتخابات کرادے گا.

دوسرے یہ کہ سینٹ الیکشن سے قبل استعفے دئیے گئے تو حکومت قومی اسمبلی اور سندھ کو چھوڑ کر باقی تین صوبائی اسمبلیوں کے سپیکرز کے ذریعے انہیں اس بنیاد پر کافی عرصہ زیر التوا رکھ سکتی ہے کہ یہ معلوم کرنا ہے کہ استعفے مرضی سے دئیے گئے یا کسی دباؤ کے تحت. پاکستان کی تاریخ میں ایسے انتہائی اقدامات موثر نہیں ہوئے. واحد کامیاب مثال 1977 کی ہے جب اپوزیشن نے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا. اس کے ساتھ ایجی ٹیشن بھی جاری تھا.

1993 میں ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی کے الیکشن کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا تو اگرچہ شہری سندھ میں ٹرن آؤٹ بہت کم رہا لیکن الیکشن ہوئے اور ایسے لوگ ایم این اے بن گئے جنہوں نے ایسا کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا. حتیٰ کہ 2014 کے دھرنے کے دوران عمران خان اپنے خیبر پختون خوا اسمبلی کے ارکان کو استعفے دینے اور اسمبلی توڑے پر آمادہ نہیں کرسکے. بالآخر صرف قومی اسمبلی سے استعفوں کا فیصلہ کیا گیا اور اس سے بھی کچھ نے انحراف کیا. اپوزیشن پارٹیوں نے چئیرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لاکر بھی دیکھ لیا جب انہوں نے اکثریت ہونے کے باوجود شکست کھائی اور انہیں ہٹانے میں ناکام رہے.

اس لئے پی ڈی ایم کیلئے ایسا انتہائی قدم آسان نہیں ہوگا خاص طور پر ایسے وقت جب کامیابی کا یقین بھی نہ ہو اگرچہ ان کی لیڈر شپ پراعتماد ہے. پی ڈی ایم کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر وہ ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کریں اور استعفوں کے فیصلے پر بھی قائم رہیں تو کون سا امیدوار الیکشن پر کروڑوں روپے ضائع کرنے پر تیار ہوگا اور ایسا پی ڈی ایم کے اپنے پہلے فیصلے کے بھی خلاف ہوگا.

دلچسپی کی بات ہے کہ دونوں صورتوں میں تحریک انصاف کو سیاسی اور اخلاقی فائدہ ہوگا اور پی ڈی ایم کو نقصان پہنچے گا. اس کے اس بنیادی بیانئے کو بھی بری طرح نقصان پہنچے گا کہ یہ سسٹم اور اسمبلیاں فراڈ ہیں.

شاید مسلم لیگ ن کی سینئیر نائب صدر مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری نے استعفوں کے معاملے کو زیادہ اچھالا، کیونکہ پی ڈی ایم میں جے یو آئی کے سوا دوسری جماعتوں کی کوئی خاص اہمیت ہے نہ اسمبلیوں میں کوئی خاص نمائندگی.

پی ڈی ایم کے بڑے لیڈروں نے صورتحال کو جتنا آگے پہنچادیا اس نے درحقیقت حکومت کو دباؤ میں لانے سے بہت زیادہ خود انہیں مشکل میں ڈال دیا۔

تازہ ترین