پاکستان نے بیڈ منٹن کے میدان میں کئی نامور کھلاڑیوں کوجنم دیا جنہوں نے ایشیائی اور عالمی سطح پر بھی اچھی کار کردگی کا مظاہرہ کیا،قومی سطح پر پچھلے چند سالوں میں ایک ایسی کھلاڑی سامنے آئی جس نے اپنی پر فار منس سے سب کو حیرت زدہ کردیا، عالمی نمبر133 اور پچھلے چار سال سے مسلسل قومی چیمپئن ہونے کا اعزاز رکھنے والی ماہور شہزاد کو کھیل سے لگائو فیملی سے ملا ان کے والد محمد شہزاد خود بھی پاکستان کے جونیئر بیڈ منٹن چیمپئن رہے،بڑی بہن فریال بھی اسی کھیل سے وابستہ ہیں جبکہ چھوٹی بہن رابعیہ شہزاد ویٹ لفٹنگ کی قومی کھلاڑی ہیں۔
آئی بی اے سے گریجویٹ ماہور شہزاد نے جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اپنے والد کو دیکھ کر کھیلوں میں دل چسپی پیدا ہوئی،گیارہ برس کی عمر میں اپنے محلہ ڈیفنس کی گلیوں میں بیڈ منٹن کا آغاز کیا، ایک سال بعد والد نے اس کھیل کی پریکٹس کے لئے سن سیٹ کلب میں داخلکرایاجہاں ان کے کوچ سابق قومی جونیئر چیمپئن انور سعید نے ا ن کے کھیل کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا،اگلے سال قومی جونیئر چیمپئن شپ میں حصہ لیا اور قومی اعزاز جیت لیا، فائنل میں بڑی بہن فریال کو شکست سے دوچار کیا۔
انہوں نے کہا کہ2014کے ایشین گیمز کے لئے ٹیم میں انتخاب زندگی کا یاد گار لمحہ تھا، ملک کی نمائندگی میرے لئے بڑا اعزاز تھا،ماہور کا کہنا ہے کہ 2015 میں آل پاکستان ریکننگ ٹور نامنٹ میںفائنل میں پلوشا بشیر کو شکست دی جو قومی چیمپئن تھیں،2016 میں 18سال کی عمر میں پاکستان کی نمبر ون کھلاڑی ہونے کا اعزاز حاصل کیا، اگلے سال پلوشا بشیر کو شکست دے کر انہوں نے قومی خواتین چیمپئن ہونے کا اعزاز بھی اپنے نام کیا، اور لگاتار چار سال سے قومی ٹائٹل جیت رہی ہیں،ماہور شہزاد نے کئی ملکوں میں بیڈ منٹن لیگز مقابلوں میں بھی حصہ لیا اور وہاں لیگ بھی کھیلی، 2019میں ایشین اولمپکس کے ڈیولمپنٹ پرگروم کے تحت انہوں نے ڈنمارک میں ٹریننگ کیمپ میں بھی شر کت کی۔
ان کا کہنا ہے کہ ملک میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے، مگر ان کے پاس سہولت نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ گروم نہیں ہوپاتی ہیں، کھلاڑیوں کو جب تک ملازمت نہیں دی جائے گی ان کے معاشی حالات میں بہتری نہیں آ سکتی، پاکستان واپڈا میں گریڈ 18میں ملازمت کرنے والی ماہور کا کہنا ہے کہ اس وقت واپڈا اور نیشنل بنک ہی اس کھیل میں اپنا اہم کردار ادا کررہے ہیں۔
کھلاڑیوں کی تعداد زیادہ ہے جبکہ اداروں کی ٹیمیں نہ ہونے کے برابر ہیں، حکومت کو اس جانب توجہ دینا ہوگی، ماضی میں ملک میں نئے اور جونیئر کھلاڑیوں کو گروم کرنے کے لئے کیمپ لگائے جاتے تھے جس میں غیر ملکی کوچز کھلاڑیوں کی مہارت اور صلاحیت کو پالش کرتے تھے مگر اب اس قسم کے کیمپ کے انعقاد کا سلسلہ ختم ہوگیا ہے، تعلیمی اداروں میں بھی انڈرو گیمز ختم ہورہے ہیں، اسکولوں اور کالجوں میں بہت کم کھیل ہوتے ہیں جس کی وجہ سے اچھے کھلاڑی سامنے نہیں آ رہے ہیں۔
ماہور شہزاد نے پاکستان میں ہونے والے انٹر نیشنل بیڈ منٹن سیریز میں بھی پاکستان کے لئے ٹائٹل جیتا اور کئی غیر ملکی کھلاڑیوںکو ناکامی سے دوچار کیا،وہ کامن ویلتھ گیمز 2018میں بھی پاکستانی ٹیم کا حصہ رہیں، اس کے علاوہ امریکا، پولینڈ، ایران، مصر، کینیا،الجیریا،بحرین،ملائیشیا میں ہونے والے انٹر نیشنل ٹور نامنٹس میں ملک کی نمائندگی کا اعزاز حاصل کر چکی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ نئے کھلاڑیوں کو ٹریننگ دینے کے لئے ملک کے چاروں صوبوں میں بیڈ منٹن کی اکیڈ میاں قائم کی جائیں تو اس سے پاکستان کو ایشیائی اور عالمی سطح پر اپنی پوزیشن کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے،انہوں نے کہا کہ حکومت بیڈ منٹن کے سامان کی قیمت کم کرے، اچھی اور معیاری شٹل کاک اس وقت بہت زیادہ مہنگی ہے،ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پریکٹس کے لئے حال ہی میں کے پی کے میں شٹل مشین آئی ہے اس قسم کی مشین ملک کے چاروں صوبوں میں ہونی چاہئے۔
ماہور شہزاد نے بتایا کہ الجیریا میں ٹور نامنٹ کے دوران ان کے ٹخنے میں موچ آگئی اور وہ ان فٹ ہونے کی وجہ سے ٹورنامنٹ ادھورا چھوڑ کر وطن واپس آگئی ، کچھ دن آرام کے بعد مکمل فٹ نہ ہونے کے باوجود اسلام آباد میں کھیلے گئے انٹر نیشنل ایونٹ میں انہوں نے پاکستان کے لئے گولڈ میڈل اور ڈبلز میں سلور میڈل جیتا۔