دی گریٹ لیڈر، مذہبی انتہا پسندوں اور لبرل فاشسٹوں کے راستے کی بہت بڑی رکاوٹ ہے۔
آج کل یہ گریٹ لیڈر اُن طاقتور لوگوں کے دل میں کانٹا بن کر چبھ رہا ہے جو چاہتے ہیں کہ پاکستان بھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لے۔
یہ وہی دی گریٹ لیڈر ہے جسے بوقتِ ضرورت مذہبی طبقہ دنیا کا سب سے بڑا مسلمان اور سیکولر ازم کے دعویدار حسبِ خواہش بہت بڑا سیکولر ثابت کرنے کے جتن کرتے ہیں۔
ستم ظریفی دیکھئے کہ آج کچھ مذہبی لیڈروں سے لے کر بعض لبرل اور سیکولر عناصر اسرائیل کے ساتھ دوستی کے حق میں قرآن کی آیتوں کے حوالے بھی دے رہے ہیں اور قومی مفاد کا رونا بھی رو رہے ہیں لیکن جب صہیونی ریاست کے بارے میں دی گریٹ لیڈر کے موقف کو سامنے لایا جاتا ہے تو یہ مذہبی لیڈر اور سیکولر دانشور لاجواب ہو جاتے ہیں۔
دی گریٹ لیڈر جب زندہ تھا تو چٹان بن کر فلسطین سے لے کر کشمیر تک دنیا بھر کے مظلوموں کے ساتھ کھڑا رہا اور آج دنیا میں نہیں رہا تو بھی مظلوموں کے حقوق کے تحفظ کیلئے ہم جیسے کمزوروں کے پاس آخری سہارا اُسی دی گریٹ لیڈر کے فرمودات ہیں۔ آپ سمجھ گئے۔
اُس دی گریٹ لیڈر کا نام محمد علی جناح ہے جسے ہم پاکستانی قائداعظمؒ کہتے ہیں۔
آج میں اِس بحث میں نہیں اُلجھوں گا کہ قائداعظمؒ پاکستان کو کیسی ریاست بنانا چاہتے تھے؟ وہ اندر سے مولوی تھے یا باہر سے سیکولر؟ میری ناچیز رائے میں نہ تو مولوی ہونا کوئی بُری بات ہے نہ سیکولر ہونا کوئی گناہ ہے بس آپ کو قائداعظم کی طرح ایک سچا اور کھرا انسان بننا چاہئے۔
افسوس کہ قائداعظم کے پاکستان میں قائداعظم کی زندگی کے بہت سے اہم گوشے عام پاکستانیوں کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ قائداعظم پر بہت تحقیق ہوئی، کئی کتابیں بھی لکھی گئیں لیکن آج بھی ہم قائداعظم پر اُن غیرملکی مصنفین کی کتابوں کو زیادہ مستند سمجھتے ہیں جنہوں نے بانیٔ پاکستان کی ذات کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی اور اپنی کتابوں میں ایسی شخصیات کو بطور ریفرنس استعمال کیا جو قائداعظم کو ناپسند کرتی تھیں۔
پاکستان کے ایک سینئر صحافی، کالم نگار اور مصنف منیر احمد منیر اُن لوگوں میں ایک ہیں جو قائداعظم سے عشق کرتے ہیں اور اِس عشق کا اظہار اُنہوں نے بڑے منفرد انداز میں کیا ہے۔
اُنہوں نے کئی سال تک اُن شخصیات کو تلاش کیا جنہوں نے قائداعظم کے ساتھ کام کیا تھا۔ اُن کے ساتھ لمبے لمبے انٹرویو کئے۔ ہر انٹرویو میں بتائی گئی باتوں کی تصدیق کیلئے باقاعدہ تحقیق اور تفتیش کی۔ پھر اُن انٹرویوز کو ’’دی گریٹ لیڈر‘‘ کے نام سے کتاب کی شکل دے دی۔
’’دی گریٹ لیڈر‘‘ کی پہلی دو جلدوں میں قائداعظم کے ساتھ بطور اے ڈی سی خدمات سرانجام دینے والے لیفٹیننٹ جنرل (ر) گل حسن، گروپ کیپٹن (ر) عطاء ربانی، گروپ کیپٹن (ر) آفتاب احمد اور بریگیڈیئر این اے حسین سے لے کر اُن کے پرائیویٹ سیکرٹری کے ایچ خورشید اور پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ ظفر اللہ خان سمیت کئی اہم شخصیات کے انٹرویوز شامل ہیں۔ اب منیر احمد منیر نے ’’دی گریٹ لیڈر‘‘ کی تیسری جلد شائع کی ہے جس میں مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے اُن لیڈروں کی یادداشتیں شامل ہیں جنہوں نے قائداعظم کے دست و بازو کا کردار ادا کیا۔
قائداعظم بہت سے اہم فیصلے اپنے اردگرد موجود فیوڈل لینڈ لارڈز کے مشورے سے نہیں بلکہ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے اُن طالب علموں کے مشورے سے کرتے تھے جو حقیقی معنوں میں قائداعظم کے بےلوث سپاہی تھے۔
اِس کتاب میں قائداعظم کی شخصیت کا جو پہلو کھل کر سامنے آیا ہے وہ یہ ہے کہ بانیٔ پاکستان اپنے اردگرد موجود جاگیرداروں اور سرمایہ داروں پر زیادہ اعتماد نہیں کرتے تھے۔
اُنہوں نے 24؍اپریل 1943کو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ دہلی میں جاگیرداری اور سرمایہ داری کو انتہائی ظالمانہ اور شر انگیز قرار دیا تھا۔
اِس کتاب میں مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے دوسرے صدر ڈاکٹر ضیاء الاسلام کا انٹرویو بڑا اہم ہے جو حمید نظامی کے بعد ایم ایس ایف کے صدر بنے۔ 1946-47میں وہ گورنمنٹ کالج لاہورر کے طالب علم تھے۔
1946کے الیکشن سے پہلے قائداعظم لاہور آئے تو مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے چار بڑے جاگیرداروں نواب افتخار ممدوٹ، سردار شوکت حیات، ممتاز دولتانہ اور میاں افتخار الدین نے قائداعظم سے الیکشن کیلئے پارٹی فنڈ سے پیسے مانگے۔
قائداعظم نے پیسے دینے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ چاروں الیکشن کا خرچہ اٹھانے کے قابل ہیں۔
انکار کے بعد یہ چاروں ڈاکٹر ضیاء الاسلام کے پاس آئے۔ ممدوٹ نے کہا ’’بابے نے پیسے دینے سے انکار کر دیا ہے‘‘۔
پھر ڈاکٹر ضیاء اپنے گریٹ لیڈر کے پاس گئے اور کہا کہ سر یہ بڑے بڑے زمیندار اپنی عیش و عشرت پر رقم خرچ کر سکتے ہیں لیکن ایک قومی مقصد کیلئے رقم خرچ نہیں کریں گے، سر اگر ہم یہ الیکشن ہار گئے تو ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائیں گے۔ یہ سُن کر قائداعظم نے کہا ٹھیک ہے، ممدوٹ سے کہو مجھ سے پیسے لے لیں۔
قائداعظم نے ممدوٹ کو پارٹی فنڈ سے دس لاکھ کا چیک کاٹ کر دیا۔ اسی کتاب میں ایم ایس ایف کے ایک اور رہنما محمد سلیم ملک کا بھی انٹرویو ہے جو بعد ازاں پاکستان آرمی سے کرنل بن کر ریٹائر ہوئے۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان بننے کے بعد قائداعظم لاہور آئے تو گورنر ہائوس میں میری اور ڈاکٹر ضیاء کی بانیٔ پاکستان سے ملاقات ہوئی۔
قائداعظم ان نوجوانوں کو مائی بوائز کہہ کر بلاتے تھے۔ قائداعظم نے کہا کہ اگر مائونٹ بیٹن گورنر جنرل بن جاتا تو وہ میرے ہی اراکین اسمبلی کے ذریعہ میرے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیتا اور پاکستان ختم ہو جاتا۔ اُس وقت کچھ دور دولتانہ اور سردار شوکت حیات بیٹھے تھے۔
قائداعظم نے اُن کی طرف اشارہ کر کے کہا یہ لوگ کبھی میرے ساتھ نہیں تھے، آپ لوگ میرے ساتھ تھے۔ آپ نے اور میں نے مل کر پاکستان بنایا ہے، اب آپ نے پاکستان سنبھالنا ہے۔
قائداعظم نے تحریک پاکستان میں اہم کردار ادا کرنے والے نوجوانوں کی ایک فہرست تیار کرائی اور اُنہیں چھوٹے قرضے دے کر مالی طور پر مستحکم کرنے کی منصوبہ بندی شروع کر دی لیکن گیارہ ستمبر 1948کو وہ کراچی کی ایک سڑک پر ایمبولینس میں دم توڑ گئے اور ڈاکٹر ضیاء الاسلام سے لے کر مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمٰن تک ایم ایس ایف کے کارکنوں کاوہ قافلہ بکھر گیا جسے قائداعظم پاکستان سونپنا چاہتے تھے۔
’’دی گریٹ لیڈر‘‘ دراصل قائداعظم کی کہانی ان کے ساتھیوں کی زبانی ہے جس میں قائداعظم 25؍دسمبر 1943کو مسلم لیگ کے اجلاس میں ایک آریہ سماجی ہندو ستیارتھ پرکاش کی طرف سے توہینِ رسالتؐ کی انتہائی سخت الفاظ میں مذمت کرتے بھی نظر آتے ہیں اور والٹن کیمپ لاہور میں ایک عورت کی گود میں تین سال کے بچے کے کٹے ہاتھ دیکھ کر بےہوش ہوتے بھی نظر آتے ہیں۔
پھر بادل نخواستہ مہاجرین کے قافلوں کو شر پسند ہندوئوں اور سکھوں کے حملوں سے بچانے کیلئے سیلف ڈیفنس میں دستی بم بنانے کی اجازت بھی دے دیتے ہیں۔ ’’دی گریٹ لیڈر‘‘ کی جلد سوم ایک سامراج دشمن اور غریب دوست قائداعظم کو سامنے لاتی ہے۔
منیر احمد منیر اس کتاب کی جلد چہارم اور پنجم پر بھی کام کر رہے ہیں۔ حکومت پاکستان کی مدد کے بغیر ’’دی گریٹ لیڈر‘‘ کی زندگی کے واقعات کو آئندہ نسلوں کیلئے محفوظ بنانے پر ہم منیر صاحب کے شکر گزار ہیں۔