• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میزبان: محمد اکرم خان

ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی

رپورٹ: سلیم اللہ صدیقی

تصاویر: شعیب احمد

مقررین : پروفیسر ہومی اے رضاوی (بانی /مینجنگ ڈائریکٹر سینٹرآف ڈیزیزاینالائسیز، لوئس ویل،امریکا)

ڈاکٹر ضیغم عباس (ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ آف ہیپاٹالوجی،لیورڈیپارٹمنٹ ضیااالدین یونی ورسٹی)

پروفیسرسعید حمید (کنسلٹنٹ ،گیسٹرولوجسٹ ہیڈکلینکل ٹرائل یونٹ ،آغا خان یونی ورسٹی اسپتال)

ڈاکٹرذوالفقاردھاریجو (ڈائریکٹر کمیونی کیبل ڈیزیزکنٹرول/پروگرام ڈائریکٹرہیپاٹائٹس کنٹرول پروگرام،سندھ)

ڈاکٹرآمنہ سبحان (کنسلٹنٹ ،گیسٹرولوجسٹ ،آغا خان یونی ورسٹی،اسپتال)


پروفیسر ہومی اے رضاوی
پروفیسر ہومی اے رضاوی 

2030 تک ہیپاٹائٹس کو ختم کرنے کے حکومتی عزم کے باوجود ہیپاٹائٹس سی کے پھیلاو میں مسلسل اضافہ ہوا ہے، یہاں تک کہ آج تقریباً 10ملین یعنی ایک کروڑ پاکستانی وائرل ہیپاٹائٹس سی کے مرض کے ساتھ زندگی گزاررہے ہیں ،جن کی تشخیص اور علاج کی ضرورت ہے 

پروفیسر ہومی اے رضاوی

ڈاکٹر ضیغم عباس
ڈاکٹر ضیغم عباس

پنجاب اور سندھ میں ہیپاٹائٹس سی اضافہ ہوا جب کہ ہیپاٹائٹس بی کی تعداد سندھ اور پنجاب میں کم ہوئی، دیگردو صوبوں میں سروے نہیں ہوا۔ہمارے یہاں اسٹرلائزیشن اچھی نہیں ہیں،خون کی اسکریننگ کا طریقہ معیاری نہیں، صاف ستھرے معیاری سرجیکل آلات کا استعمال نہیں ہورہا، ہیپاٹائٹس قابل علاج ہےاور اس میں کامیابی کا تناسب 95 فیصد ہے 

ڈاکٹر ٖضیغم عباس

پروفیسرسعید حمید
پروفیسرسعید حمید 

ملک کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے اگر یہ مرض پھیلا توبہت عرصے یہاں موجود رہے گا۔ ہم اپنی پالیسیوں پر مستقل بنیادوں پر کام نہیں کرتے جو نمٹنے کے لیےسب سےاہم قدم ہےاگر ابھی نیامنصوبہ منظور ہوگیا تو یہ ہمارا چوتھا وزیراعظم پروگرام ہوگااگرکسی حکم کے تحت پہلے وزیراعظم پروگرام سے چیزیں مستقل جاری رہتی تو ہم بہت آگے پہنچ چکے ہوتے

پروفیسر سعید حمید

  
ڈاکٹر ذوالفقاردھاریجو
ڈاکٹر ذوالفقاردھاریجو 

صوبے بھر میں ہرسطح پر ہیپاٹائٹس سی،بی کا علاج دوائیں، پی سی آر کٹس، اسکریننگ کٹس اور ویکسی نیشن کی کمی نہیں ہے، ہم مختلف مقامات پر جب کیمپ لگاتے ہیں تو پرنٹنگ میٹریل کے ذریعے لوگوں میں اس مرض کا شعور اجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، سندھ کے دیہی علاقوں میں زیادہ متاثرہ افراد ہیں، اس کے کچھ ضلعوں میں زیادہ کیسز ہیں، کراچی میں کچی آبادی میں یہ مرض زیادہ ہے۔

ڈاکٹر ذوالفقار دھاریجو

  
ڈاکٹرآمنہ سبحان
ڈاکٹرآمنہ سبحان 

ہیپاٹائٹس سی کو روکنے کے لیے حکومت سرکاری اسپتالوں میں کام کررہی ہے لیکن عوام کی بڑی تعداد سرکاری اسپتال میں جانا ہی نہیں چاہتی، کوویڈ کے دنوں میں فون پر ریکارڈنگ چلتی تھی کہ ویکسی نیشن نہ کرنے پرموبائل سم بلاک کردی جائے گی ،جگرکی اہمیت پر ایسے ہی پیغامات چلنے چاہییں، اگر کسی نے ہیپاٹائٹس سی کے لیے اسکریننگ اور ہیپاٹائٹس بی کی ویکسین نہیں کروائی تو آپ کی سم بلاک کردی جائے گی

پروفیسر آمنہ سبحان

پاکستان میں ہیپاٹائٹس خطرناک حد تک تیزی سے پھیل رہا ہے دنیا کی رینکنگ میں پاکستان بھارت اور چین کو پیچھے چھوڑتے ہوئے پہلی پوزیشن پر براجمان ہوگیا ہے جو بہت تشویش کی بات ہے، سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ ہم پاکستان کی ترقی کے حوالے سے لگاتے تھے لیکن عملاً اسے تنزلی کے کھاتے میں ڈالا جارہا ہے پاکستان میں ڈیڑھ کروڑ افراد ایکٹیوہیپاٹائٹس بی اور سی کے مریض ہیں گویا ہردسواں پاکستانی اس مرض کا شکارہے اور ہولناک صورت حال یہ ہے کہ ان مریضوں میں سے ایک شخص ہربیسویں منٹ میں اپنی جان سے جارہا ہے۔ 

پاکستان میں ہیپاٹائٹس کی کیا صورت حال ہے اس کی تشخیص اور علاج میں کیا پیش رفت ہے اس حوالے سے اسپتالوں میں کیا سہولتیں میسر ہیں اور حکومت کی کیا پالیسی ہے یہ جانے کے لیے"ہیپاٹائٹس، پاکستان میں خطرناک پھیلاؤ" کے موضوع پرجنگ فورم کے زیراہتمام گفتگو کا اہتمام کیا گیا،اس پراظہار خیال کے لیے پروفیسر ہومی اے رضاوی (بانی /مینجنگ ڈائریکٹر سینٹرآف ڈیزیزاینالیسیزلوئس ویل،امریکا) ڈاکٹر ضیغم عباس (ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ آف ہیپاٹالوجی، لیورڈیپارٹمنٹ ضیا الدین یونی ورسٹی) پروفیسر سعید حامد (کنسلٹنٹ ،گیسٹرولوجسٹ ہیڈکلینکل ٹڑائل یونٹ ،آغا خان یونی ورسٹی اسپتال)ؑ ڈاکٹرذوالفقاردھاریجو (ڈائریکٹر کمیونی کیبل ڈیزیز کنٹرول، ہیپاٹائٹس،سندھ) اورڈاکٹرآمنہ سبحان (کنسلٹنٹ ،گیسٹرولوجسٹ ،آغا خان یونی ورسٹی،اسپتال) موجود تھے،اس موقع پرماہرین سے جو بات چیت کی گئی وہ تفصیلی رپورٹ پیش خدمت ہے۔

جنگ: پاکستان میں ہیپاٹائٹس کی تشخیص اور علاج کے حوالے سے آپ کاکیا تجربہ اور مشاہدہ ہے اور کیا یہ قابل علاج مرض ہے؟

پروفیسر ہومی اے رضاوی : پاکستان میں اس پر تشویشناک صور ت حال ہے، یہ ملک ہیپاٹائٹس سی کے حوالے سے سب سےزیادہ خطرناک گردانا جارہا ہے، دنیا بھر میں سب سے زیادہ مریض پاکستان میں پائے جاتے ہیں، پاکستان اب چین اور بھارت کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ہیپاٹائٹس سی کے مریضوں کی دنیا میں سب سے بڑی آبادی کا گھر ہے۔2030 تک ہیپاٹائٹس کو ختم کرنے کے حکومتی عزم کے باوجود ہیپاٹائٹس سی کے پھیلاو میں مسلسل اضافہ ہوا ہے،یہاں تک کہ آج تقریباً 10ملین یعنی ایک کروڑ پاکستانی وائرل ہیپاٹائٹس سی کے مرض کے ساتھ زندگی گزاررہے ہیں ،جن کی تشخیص اور علاج کی ضرورت ہے، پاکستان میں صرف دوہزار بیس میں ہیپاٹائٹس سی کے 461.000 سے زیادہ نئے کیسزسامنے آئے جو کہ کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں نئے کیسزکی سب سے زیادہ تعداد ہے۔

ہیپاٹائٹس کی آخری اسٹیج سروسس ہے جو لیور کینسر ہے اس سے موت بھی واقع ہوسکتی ہے اس میں لیور مکمل طور پر خراب ہوجاتا ہے بروقت تشخیص ہی آپ کو اس مرض سے بچاسکتی ہے تاخیر کی صورت میں انجام موت ہے،پاکستان میں علاج کی سہولیات ہے اس سے فائدہ اٹھاناچاہیے، ہیپاٹائٹس ایک خاموش مرض ہے اس کے سروسس بننے میں بیس سال لگتے ہیں، ہیپاٹائٹس کی بڑی وجہ بلڈ ٹرانسفر ہے بروقت اور باربار بلڈ ٹیسٹ ہی آپ کو محفوظ رکھ سکے گا۔

جنگ: پاکستان میں ہیپاٹائٹس کی موجودہ صورت حال کیا ہے اور دنیامیںاس پر ہم اس پر کہاں کھڑے ہیں؟

ڈاکٹر ٖضیغم عباس: پاکستان میں ہیپاٹائٹس بی او ر سی دونوں موجود ہیں ہیپاٹائٹس سی کی شرح میں اضافہ ہوا ہے اور ہم دنیا میں اس وقت پہلے نمبر پر ہیں جس کا اندازہ پنجاب اور سندھ کے حالیہ سروے سے لگایا گیا ہے۔ دو ہزار اٹھ کے سروے میں ہیپاٹائٹس سی کی شرح چاراعشاریہ اٹھ فیصد بتائی گئی تھی ، دوہزارآٹھ کے سروے کے مطابق پنجاب میں شرح چھ اعشاریہ سات فیصد تھی جو تازہ ترین سروے میں اضافے کے ساتھ آٹھ اعشاریہ نوفیصد پر ہے۔جس سے پنجاب میں ہیپاٹائٹس کی شرح ظاہر ہوتی ہے۔

دو ہزار آٹھ کے سروے کے مطابق سندھ میں ہیپاٹائٹس کی شرح پانچ فیصد تھی جو اب بڑھ کر چھ اعشاریہ ایک فیصد ہوگئی ہے۔ تازہ ترین سروے سے معلوم ہوتا ہے کہ پنجاب اور سندھ میں ہیپاٹائٹس سی بڑھا ہے دیگردو صوبوں میں سروے نہیں کیا گیا، ہیپاٹائٹس بی کی تعداد سندھ اور پنجاب میں کم ہوئی ہے۔

جنگ: ہیپاٹائٹس سی کے بڑھنے کی کیا وجوہات ہیں؟

ڈاکٹر ٖضیغم عباس: ہیپاٹائٹس بی کم ہونے کی وجہ ایک توامیونائزیشن ہے دوسرا ای پی آئی پروگرام میں ہیپاٹائٹس بی کی ویکسین دستیاب ہے، ہیپاٹائٹس سی بڑھنے کی وجہ جراثیم کا ہونا ہے ہم اس کے خلاف موثر اقدامات نہیں کررہے، ہم پرانے طور طریقے پر ہی چل رہے ہیں، استعمال شدہ سرنج پر لوگ پہلے سے محتاط ہوئے ہیں سرنج اپنے سامنے چیک کرتے ہیں اور نئی استعمال کررہے ہیں لیکن دوائی کی تیاری اور اس کے استعمال کا طریقہ ابھی بھی غیر محفوظ ہے، اسٹرلائزیشن کی نئی ٹیکنیک نہیں لی جاتی ،خود کوکو جراثیم سے نہیں بچایا جاتا، بغیر صفائی کیے ان ہی ہاتھوں سے اسے دوسروں پر استعمال کرلیتے ہیں، ہمارے اسپتالوں آلات اور سامان بہتر نہیںہیں،۔سرجیکل سامان استعمال کے بعد دوبارہ قابل استعمال نہیں رہتا۔

جنگ: ہیپاٹائٹس بی اور سی ہونے کی وجہ یکساں ہے یا مختلف ؟

ڈاکٹر ٖضیغم عباس: ہیپاٹائٹس بی اور سی کی زیادہ تر وجوہات ایک جیسی ہیں،دونوں خون سے پھیلتے ہیں، ہیپاٹائٹس بی میں ٹرانس میشن ماں سے بچے کو زیادہ منتقل ہوتا ہے،جنسی بے راہ روی بھی ہیپاٹائٹس بی کے اضافے کی وجہ ہے، گندے پانی سے ہیپاٹائٹس بی اور سی تو نہیں لیکن اے اور ای ہوتا ہے۔

جنگ: صوبہ پنجاب ،سندھ اور کے پی کے میں سیلاب آیا ہے جس میں تین کروڑ افراد متاثر ہوئے کیایہ قدرتی آفت بھی مرض بڑھانے کا سبب بن سکتی ہےِ؟

ڈاکٹر ٖضیغم عباس: اس کا اثر ضرور پڑے گاہمارے دیہی علاقے ہیلتھ پر پہلے سے سہولیا ت کی کمی کا شکار ہیں سیلاب سے مسائل مزید بڑھ گئے، ہمیں سیلاب کے بعد ڈینگی اور ملیریا کی طرح ہیپاٹائٹس اے اور ای کے مریض اسپتالوں میں نظر آرہے ہیں لیکن آنے والے دنوں میں ہیپاٹائٹس بی اور سی کے مریض بڑھنے کا قوی خدشہ ہےاس کی وجہ ہمارے پاس جو تھوڑی بہت سہولیات تھیں وہ بھی سیلاب سےختم ہوگئیں ہیں یہ حالات کی مجبوری کے سبب ہواہے۔

جنگ: اس مرض کا پاکستان میں تیزی سے بڑھ کرپہلا نمبر ہونےکی سب سے بڑی وجہ کیا ہے؟

ڈاکٹر ٖضیغم عباس: مرض میں نمبر ون ہونے کی وجہ نہ مناسب احتیاطی اقدامات ہیں، ہمارےیہاں اسٹرلائزیشن اچھی نہیں ہیں،خون کی اسکریننگ کا طریقہ معیاری نہیں،صاف ستھرے ٹھیک سرجیکل آلات کا استعمال نہیں ہورہا۔

جنگ: اس مرض کے علاج کی سہولیات کیسی ہیں؟

ڈاکٹر ٖضیغم عباس : علاج کی سہولیات مسئلہ نہیں ہے پاکستان میں اس کا علاج سستا ہوگیا ہے، یہ قابل علاج اور اس میں کامیابی کا تناسب 95فیصد ہے، علاج کے لیے اچھی دوائیں موجود ہیں لیکن اس کے باوجود ہیپاٹائٹس سی بڑھ رہا ہے اس کا مطلب کہ لوگ خون کی اسکریننگ نہیں کرارہے جو یہ مرض پھیلنے کی بنیادی وجہ ہے۔

جنگ: اس مرض کو بڑھنے سے کیسے روکا جائے،صورت حال کا قابو میں کرنے کےلیے ہمیں کون سے اہداف متعین کرنے پڑیں گے؟

پروفیسرسعید حمید : سارا دارومدار ہمارے ارادوں اور عزم پر ہے، اعدادوشمار بہت زیادہ ہیں اور بہت دیر سے ہمارے پاس موجود ہیں ہم مسائل اور اس کی وجوہات سے باخبر ہیں،کتنے لوگ مرتے ہیں اس میں جگر کے کینسر کا شکار ہونے والوں کی تعداد کیا ہے یہ سب ہمیں معلوم ہے، مایوسی یہ کہ معلوم ہونے کے باوجود ہم کچھ کرنے کے قابل نہیں اس کا مطلب مسئلہ صرف ہمارے ارادوں کا ہے۔ 

اس سے نمٹنے کاتہیہ کوئی ایک شخص بھی کرسکتا ہے اور گروپ بھی یہ عزم کرسکتے ہیں، اس کی مثال دیتے ہوئے مصر کا ذکر کروں گا وہاں کے صرف ایک شخص صدر نے عزم کیا پھر انہوں نے وہ راست اقدامات کیے جس کی بدولت مرض اور اس کا بڑھنا تیزی سے نیچے آیا، ہر ریاست میں کمپیٹنگ مفادات ضرور ہوتے ہیں،ہمارے یہاں ٹی بی، ملیریا، ایچ آئی وی اور اب کوویڈ وغیر ہ بھی بڑھ رہا ہے تو جب کسی کو ترجیحی طور پر دیکھا جاتا ہے، تو اس میں غورکیا جاتا ہے اس میں سب سے آسان چیزکیا ہے،جس پر کام کیا جائے تو اس کے نتائج جلد زیادہ بہتر آئیں گےتو مثال کے طور پر ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے اقدامات کی کامیابی کا تناسب ہیپاٹائٹس سی میں زیادہ ہے بی میں نہیں ہے کیوں کہ وہ مکمل قابل علاج نہیں اس کی روک تھام ضرور ہے۔

ہیپاٹائٹس قابل علاج ہے اور 95فیصد مثبت کیسوں میں اس کا علاج ہے،جب آپ اس کا علاج کرسکتے ہیں تو پھر اس پر عمل درآمد نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہونی چاہیے۔ ہمارے پاس پوری اسٹڈی موجود ہے ، اس پر کی گئی ہماری سرمایہ کاری نہ صرف آج فائدہ دے گی بلکہ کئی دہائیوں تک ہم اس سے مستفید ہوتے رہیں گے،ملک کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے اگر یہ مرض پھیل گیا توبہت عرصے تک یہاں موجود رہے گا۔

جنگ : ترقی یافتہ ممالک کی مثال سامنے رکھتے ہوئےہمیں اس سے نمٹنے کے لیے کن اقدامات کی ضرورت ہے ؟

پروفیسرسعید حمید : ہم اپنی پالیسیوں پر مستقل بنیادوں پر کام نہیں کرتے جو نمٹنے کے لیےسب سےاہم ہےاگر ابھی نیامنصوبہ منظور ہوگیا تو یہ ہمارا چوتھا وزیراعظم پروگرام ہوگا اگر کسی حکم کے تحت پہلے وزیراعظم پروگرام سے چیزیں مستقل جاری رہتی تو ہم بہت آگے پہنچ چکے ہوتے، پالیسی عمل درآمد میں مستقل مزاجی بہت ضروری ہے، بدقسمتی سے حکومت کے تبدیل ہوتے ہی ہماری سرکاری ترجیحات بدل جاتی ہیں،پرانی چیزیں پس منظر میں چلی جاتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔

جنگ: اٹھارویں ترمیم کے بعد صحت کا شعبہ وفاق سےصوبوں کی ذمہ داری ہوگیا ہےاس سے پالیسی پر کوئی فرق پڑا؟

پروفیسرسعید حمید : جو نیا پروگرام بنایا گیا ہے کہ اس میں وفاق کے ساتھ باقی کردار صوبوں کا ہوگا اور جب ہم اس طرح پالیسی لے کر چلیں گے تو زیادہ پائیدار ہوگی کیوں کہ صوبوں کے پاس ہیپاٹائٹس پروگرام کے لیے زیادہ پیسے ہیں پھر وفاق کی بھی مدد آئے وفاق کو وہ پیسے غیرملکی ڈونرز کے ذریعے مل سکتے ہیں تو مشترکہ طور پر یہ پروگرام کامیابی سے چلانا ممکن ہےاور پروگرام بھی ہمارے پی سی کے مطابق بنائیں جو حکومت کے پاس موجود ہے۔

جنگ: اٹھارویں ترمیم دوہزار دس میں آئی تو اس کے بعد کس صوبے میں اس پر زیادہ کام ہوا؟

پروفیسرسعید حمید : ہمارے دوبڑے صوبے پنجاب اور سندھ ہے جس پر ہماری زیادہ توجہ مرکوز ہےان دونوں صوبوں میں اپنی اپنی رفتارسے کام ہوئے لیکن تسلسل نہیں رہا۔کسی حکومت نے پروگرام کو زیادہ سپورٹ کیا اور کسی نے کم ہم کبھی بھی پر وگرام مطلوبہ رفتار سے نہیں چلا سکے۔

جنگ: سندھ میں دو ہزار دس سے ہیپاٹائٹس سی پراگر پروگرام چل رہا ہے تو پھر صوبے میں مریضوں کی تعداد کیوں بڑھ رہی ہے؟

ڈاکٹر ذوالفقار دھاریجو: دوہزار پانچ میں وفاقی سطح پر وزیراعظم پروگرام تھا،جس کا پھر صوبے سندھ میں بھی نفاز کیا گیا،دوہزار آٹھ اور نو میں سروے ہوااس میں پانچ فیصد سی اور دو اعشاریہ پانچ فیصدبی تھا۔یہ اعداد وشمار سندھ اور پنجاب میں یکساں تھے۔ اس کے بعد وزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے اقدامات کیے گئے، ایچ آئی وی،ٹی بی ، ملیریا وغیرہ ان امراض کو گلوبلی بہت سپورٹ حاصل ہے۔ ہیپاٹائٹس سی وہ واحد پروگرام ہے کہ جب یہ پی سی ون موڈ میں تھااس پروفاق سے کچھ شیئر ملتا تھا لیکن پچھلے تین چار سال سے وہ مدد بھی نہیں ہے۔

اس وقت صرف سندھ حکومت اس پروگرام کو سپورٹ کررہی ہےمکمل بجٹ سندھ حکومت کا مہیا کردہ ہے،پہلےاکثر خبریں سننے کو ملتی تھیں کہ دوائیں نہیں ہیں، پی سی آر کٹس نہیں ہیں، اسکریننگ نہیں ہورہی ،ویکسی نیشن نہیں ہورہی، شروع میں یہ رکاوٹیں رہیں لیکن پچھلے دوسال سے ایسی کوئی رکاوٹ نہیں آرہی۔ صوبے بھر میں ہرسطح پر ہیپاٹائٹس سی،بی کا علاج دوائیں، پی سی آر کٹس، اسکریننگ کٹس اور ویکسی نیشن کسی کی کمی نہیں ہے اور کوئی بھی اسے اپنی جیب سے نہیں کررہا۔

دوہزار بیس میں سندھ حکومت کی درخواست پر ڈبلیو ایچ اونے سروے کیایہ سروے سندھ حکومت کرواسکتی تھی لیکن پھر اس پر سوال اٹھتے اس لیے ہم نے بین الاقوامی ادارے سے یہ کام کروایا۔جس کی رپورٹ کے مطابق پنجاب میں 6فیصد سے بڑھ کر 9 اعشاریہ چھ فیصد پر اور سندھ میں پانچ فیصد سےاب بڑھ کر چھ اعشاریہ ایک فیصد ہوگیا ہے، بی دو اعشاریہ پانچ سے ایک فیصد پر آگیا ہے،اس کی بنیادی وجہ اس کی ویکسی نیشن ہے،سی کی نہیں ہے صرف احتیاط ہے۔

پہلے اتنے فنڈ ہوتے تھے کہ کچھ دن کے لیے اخبار اور الیکٹرانک میڈیا پرآگاہی کی تشہیری مہم بھی ہوجاتی تھی لیکن جب سے یہ ریگولر پروگرام آیا ہےتو وہ سلسلہ نہیں رہا۔ ہم مختلف مقامات پر جب کیمپ لگاتے ہیں تو پرنٹنگ میٹریل کے ذریعے لوگوں میں اس مرض کا شعور اجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہیں ابھی ہماری کوشش ہے کہ اس کی آگاہی کی تشہیر کے لیے کوئی منصوبہ بنایا جائے مہم میڈیا کے ہی ذریعے کی جائے۔

قنبر تحصیل میں ایک پراجیکٹ ہےاس کے لیے سندھ حکومت اور صوبائی وزیرصاحبہ نے منصوبہ بنایا ہے اس کے فنڈ بھی منظور ہوگئے ہیں،اب وہ عمل درآمد کی طرف جارہا ہے،قنبر تحصیل کی گیارہ یونین کونسل ہیں،چارلاکھ کی آبادی ہےوہاں گھر گھر اسکریننگ ہوں گی جو کیس مثبت آئیں گے اس کا علاج کیا جائے گا،اور یہ چند دنوں میں شروع ہونے جارہا ہے۔یہ نہ صرف پورے سندھ بلکہ پاکستان بھر میں ماڈل منصوبہ ہوگا پنجاب میں صرف ایک یونین کونسل میں اس مرض کے خاتمے کے لیےاس طرح کا منصوبہ کیا گیا ہے،لیکن ہم پوری تحصیل میں کرنے جارہے ہیں۔

ہم ایک اور نیا کام کرنے جارہے ہیں ایک بیسک یونٹ جو یونین کونسل سطح کے ہیں، وہاں کی کیچ منٹ ایریا اسے کنٹرول کرتاہے وہاں یہ سروس فراہم کی گئیں ہیں،ساری سروسس ،لاجسٹک پروگرام سندھ حکومت کا شعبہ صحت فراہم کررہا ہے ۔لیکن ایچ آر اورانفراسٹرکچر پی پی ایچ کا ہوگا،یہ بھی سندھ حکومت کا بڑا اقدام ہے، یہاں زیادہ سے زیادہ لوگوں کی بلڈاسکریننگ ہوگی مرض کی تشخیص ہوسکے گی ، پھر علاج بھی ہوجائے گا،جس سے یقیناً مرض کا خاتمہ ہوگا۔ ہم یہ جیل میں بھی کررہے ہیں جیسے ملیر جیل ہے،قیدیوں میں یہ بہت زیادہ ہے، وہاں اسکریننگ کے بعد علاج بھی کیاگیا ہے، ہم یونی ورسٹی کی طرف جارہے ہیں،اس طر ح ہم کمیونٹی سطح پر جارہے ہیں،وسائل ہمارے پاس بہت زیادہ تو نہیں لیکن پہلے سے بہت بہتر ہیں۔

جنگ: مرض سے متعلق تازہ ترین سروے کو اگر میں سندھ شہری اور دیہی میں تقسیم کروں توزیادہ متاثر ہ کون سے علاقہ ہے؟

اکٹر ذوالفقار دھاریجو: مجموعی طور پر سندھ کے دیہی علاقوں میں زیادہ متاثرہ افراد ہیں، اس کے کچھ ضلع میں زیادہ ہیں،کراچی میں کچی آبادی میں یہ مرض زیادہ ہے۔

جنگ: دیہی علاقوں میں صحت کی سہولیات ویسے ہی کم ہیں تو پھر کیسے نمٹیں گے؟

ڈاکٹرذوالفقار دھاریجو: ہماری مرکزی سائٹس ڈسٹرکٹ اورتعلقہ اسپتال میں موجود ہیں وہ سب نزدیک ہیں اور اب تو ہم بیسک ہیلتھ یونٹ پر چلے گئے ہیں،ابتدا میں 65سینٹرز تھے اس میں مزید 432 کا اضافہ ہوگیا ہے۔

جنگ: لیبارٹری ٹیسٹ کے لیےکیا کررہے ہیں؟

اکٹر ذوالفقار دھاریجو: ابتدائی تشخیصی ٹیسٹ سہولت ہر لیبارٹری میں دستیا ب ہے، ری ایکٹیو کیس آنے پر وہ مالیکیول لیب میں جاتا ہے،یہ لیب ڈویژنل سطح پر دستیاب ہیں۔ پنجاب میں لاہور میں ہے جب کہ ہمارے پاس ڈویژنل سطح پر ہےاور یہ سہولت مفت ہے۔ پی سی آر ٹیسٹ مہنگا ہوتا ہے لیکن ہم یہ سہولت مفت فراہم کررہےہیں۔

جنگ: مرض کے خاتمے کےلیے آپ کے کیا اہداف ہیں کیوں کہ سروے کے مطابق تو مریض بڑھ رہے ہیں؟

ڈاکٹر ذوالفقار دھاریجو: ہم ڈبلیوایچ او کو فالو کررہے ہیں،انہوں نے 2030 تک کا ہدف رکھا ہے،اسے اس عرصے میں ختم کرنا ہے۔ ان کی گائیڈلائن پر چل رہے ہیں۔ امید ہے ہم یہ ٹارگٹ پورا کرلیں گے۔

جنگ: پاکستان میں ہیپاٹائٹس تیزی سے بڑھنے کی وجوہات کیا ہیںـ؟

پروفیسر آمنہ سبحان : کوانٹامنیٹم بلڈ جس بھی ذریعے سے ایک شخص سے دوسرے میں منتقل ہوگا وہ متاثر ہوجائے گااس جراثیم کی منتقلی سرنج سے ہوسکتی ہے اسٹرلائنزڈ سرجیکل آلات اور غیرمحفوظ خون ،بھی ہوسکتا ہے،شیونگ ریزرزبھی وجہ بنتی ہے کیوں کہ آج بھی کچھی آبادیوں ،دیہاتو ں میں ہیئرڈریسر ریزرز استعمال شدہ سے کام چلارہے ہوتے ہیں وہاں کوئی احتیاط نہیں ہوتی۔

ریزرز ایک دوسرے پر استعمال ہورہے ہوتے ہیں،دیہاتوں میں آج بھی بچوں کی ختنہ کسی اسپتال میں نہیں ہوتی تو اس موقع پراگر معیاری ریزر استعما ل نہیں ہوتے تو مرض لگنے کا خدشہ رہے گا۔ شہری علاقوں خواتین سیلون جاتی ہیں تو وہاں میڈی کیو ر ،پیڈی کیورمیں جو چیزیں استعمال ہوتی ہیں وہ شیئرنگ پر ہوتی ہیں،ہم کہہ سکتے ہیں کہ شعبہ صحت کے علاوہ عوام کے عام رہن سہن کے طورطریقوں میں کئی ایسے فیکٹر ہیں جس میں کوانٹا مینٹم بلڈ ایک دوسرے میں منتقل ہورہا ہے۔

اس کے بڑھنے کی کئی وجوہات ہیں،جہاں تک آگاہی معلومات اور علاج کا تعلق ہے،تو ہر شخص یہاں یہ کہہ رہا ہے کہ ہمارے پاس وسائل ہیں، تو پھر وسائل مربوط حکمت عملی کے ساتھ استعمال کیا جائے۔ ہمارے پاس پالیسی ہے، رولز ہیں قانون ہیں لیکن اس پر عمل درآمد سب سے بڑا مسئلہ ہے،عوام کو آگاہ اور معلومات فراہم کرنے والی تشہیری مہم زیادہ منظم نہیں ہے،شعبہ صحت کے لیےکام کرنے والے اپنے طور پر سیمینار ،کانفرنس کرکے کوشش کررہے ہیں، حکومت اپنے طور پر کررہی ہے، لیکن یہ ساری کوششیں کسی ایک حکمت عملی کےتحت نہیں ہیں۔

پاکستان کے نظام صحت کا جائزہ لیں تو سرکاری اسپتال زیادہ ترعام عوام کو خدمات دے رہے ہیں، صحت کے شعبے میںپاکستان میں بہت بڑاسیکٹر پرائیوٹ ہے،جو عوام کو علاج کی سہولت دے رہا ہے،ہیپاٹائٹس سی کو بڑھنے سے کو روکنے کےلیے حکومت سرکاری اسپتالوں میں کام کررہی ہے لیکن عوام کی بہت بڑی تعداد سرکاری اسپتال میں جانا ہی نہیں چاہتی وہ صرف پرائیوٹ سیکٹر ہی سے رجوع کرتی ہےاور وہ جو علاج کرواتے ہیں اس کی قیمت اپنی جیب سے ادا کرتے ہیںتو جب تک صحت کے سرکاری اور نجی سیکٹر آپس میں مشترکہ طور پر کوئی حکمت عملی نہیں بنائیں گے معلومات اور مرض کو بڑھنے سے روکنےکی مہم کارآمد نہیں ہوگی۔

پبلک کے لیےمعلوماتی تشہیری مہم کی بات ہورہی تھی تو کوویڈ کے دنوں میں فون پر پیغامات سنتے تھے ویکسی نیشن نہ کرنے پرموبائل سم بلاک کرنے کے پیغامات چلائے گئے ، جگرکی اہمیت پر ایسے ہی پیغامات چلنے چاہییں۔ اگر کسی نے ہیپاٹائٹس سی کے لیے اسکریننگ نہیں کروائی، ہیپاٹائٹس بی کی ویکسین نہیں کروائی تو آپ کی سم بلاک کردی جائے گی اس طرح کے پیغام چلائے جائیں اس قسم کے اقدامات سے آپ کی آبادی کی زیادہ تعداد یہ ٹیکے لگوالے گی، اب دور دراز دیہات میں بھی لوگوں کے پاس موبائل موجود ہیں انہیں معلومات فراہم کرنے کا آسان ترین طریقہ ہے تو ایسے پیغام ان کو پہنچ جائیں گے۔

جنگ: ویکسین لگانے کے بعد کوئی کتنا محفوظ ہوجاتا ہے؟

پروفیسر آمنہ سبحان : اگر کسی نے ہیپاٹائٹس بی کی تین ڈوز لگوا لی ہیں تو 98 فیصد امکان ہے کہ اسے زندگی بھر ہیپاٹائٹس بی نہیں ہوگا، بدقسمتی سے ابھی ہیپاٹائٹس سی کی کوئی ویکسین دستیاب نہیں لیکن علاج میسر ہے، سی سے محفوظ رہنے کے لیے غیر محفوظ خون کی منتقلی روکنا ہے۔

جنگ: ہیپاٹائٹس سی خاموش مرض ہے لیکن یہ کتنے عرصے میں سامنے آکر خطرناک ہوجاتاہے؟

پروفیسر آمنہ سبحان : سروسس سے مراد لیور کا سکڑ جانا ہے،ہیپاٹائٹس سی کو سورسس بننے میں پندرہ سے بیس سال لگتے ہیں، بی اس سے کم عرصے میں سورسس بنتا ہے،لوگوں کو عموما اس سے پہلے علامت ظاہرنہیں ہوتیاور جب ایک دفعہ سروسس ہوجائے تو صورت حال گھمبیر ہوجاتی ہے، کیوں کہ جیسے سروسس بڑھتا ہے مریض میں پیچیدگی بڑھتی جاتی ہیں۔جس میں غنودگی کا ہونا ،خون کی الٹی ہونا،پیٹ میں پانی بھر جانا،خون کا بہت زیادہ پتلا ہوجانااور پھر جگر کا کینسر ہوجانا۔

جنگ: سروسس اور جگر کے کینسر میں کیا فرق ہے؟

اگر ہیپاٹائٹس بی اور سی جگر پر زیادہ دیر رہ جائے تو توجگر پر آہستہ آہستہ ورم آتا جائے گا اوروہ سکڑ جائے گا اس سروسس کہتے ہیں،سورسس پھر واپس نہیں جاتااسے دوبارہ نارمل نہیں کرسکتے ان مریضوں میں لیورکے کینسر خطرہ ہوسکتا ہے۔

ہیپا ٹائٹس بی میں کچھ لوگوں میں بغیر سروسس کے لیور کے کینسر ہونے کا خدشہ رہتا ہے،لیکن ہیپاٹائٹس سی میں لیور کینسر سروسس میں مبتلا لوگوں میں ہی ہوتا ہے۔ایک مرتبہسروسس ہوگیا اور مرض میں پیجیدگی بڑھتی گئی توپھر ایک موقع ایسا آتا ہے جب دوائیاں کام نہیں کرتیں یہ وقت ہوتا ہے جب مریض کو لیور ٹرانسپلانٹ کی ضرورت پڑتی ہے، لیور ٹرانسپلانٹ کا علاج بہت مہنگا ہےاور پھر ان کی زندگی کے خطرات بہت بڑھ جاتے ہیں۔

جنگ: کہا جارہا ہے کہ اس مرض میں ہر20منٹ بعد ایک جان جارہی ہے اس کی وجہ سروسس ہے یا لیورکینسر؟

پروفیسر آمنہ سبحان: یہ سروسس اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی پیجیدگیوں کے سبب ہورہا ہے،جیسے خون کی الٹیاں ہونا،بے ہوش ہونا ،گردے کام نہیں کررہے پیٹ میں پانی بھرجانا یہ ساری پیچیدگیاں موت کا سبب بنتی ہیں۔

جنگ:یہ مرض کتنے عمر کے لوگوں کے لیے خطرناک ہے اورجنس کی کوئی تفریق ہے؟

پروفیسر آمنہ سبحان: یہ دونوں جنس کے لوگ اس کا شکار ہوتے ہیں اور ہرعمرکے افراد میں پایاجاتاہے۔ دیہاتی علاقوں میں ہیپاٹائٹس بی کی ورٹیکل ٹرانسمیشن ہے یعنی ان علاقوں میں پیدائش کے وقت ماں سے بچے میں منتقل ہوجاتا ہے اس کی وجہ سے ان علاقوں سے آنے والے مریض کم عمر ہوتے ہیں۔

جنگ: فورم میں نجی شعبے سے بھی ماہرین موجود ہیں ادویہ ساز کمپنی فیروز سنزسے آپ کا تعلق ہے پالیسی کے تسلسل کے حوالے سے سوال ہے دوہزارآٹھ سے سندھ میں ایک ہی جماعت کی حکومت ہے کیا وجہ ہے اس کے بعد بھی سندھ میں تسلسل کے متاثر ہونے کی شکایت ہے؟

عثمان خالد وحید
عثمان خالد وحید

عثمان خالد وحید: اس میں تسلسل کی بہت ضرورت ہےاگر ہم اسے قومی سطح پر جائزہ لیں تو ایسے پروگرام کس طرح چلیں گے، یہ ذمہ داری وفاقی ادارے پلاننگ کمیشن کی ہے،اس بات کی بہت ضرورت ہے صرف وزارت صحت نہیں وفاق میں منصوبہ کمیشن  اور صوبے میں  پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ ایسے معاملات سے نمٹنے کے لیے اپنی ذمے داری طے کریں تاکہ ہرسال کوئی نیا منصوبہ نہ بنے آپ ایک مرتبہ پانچ سے دس سال کا منصوبہ بنائیں اور اس کا فنڈ مختص کردیں، اگر ایک دفعہ ایسا ہوجائے تو اس کا بہت فائدہ ہوگا۔

اس مد میں لگائے گئے سرمائے کی واپسی اور فائدہ بہت زیادہ ہے، اگراس کے خاتمے کے لیے 350ملین ڈالر کا خرچ ہے تو دوسری طرف ہماری معیشت کو لیور کینسراور لیبر کی استعداد میں کمی سے بہت زیادہ نقصان سامنا ہے، ہماری سب سے بڑی لیبرمارکیٹ خلیجی ریاست ہیں اگر آپ کے یہاں ہیپاٹائیٹس مثبت ہے تو ان ریاستوں میں نوکری نہیں ملے گی۔

پھر ہمیں ترسیلات زر کی مد میں بڑے نقصان کا سامناکرنا ہوگا،یہ نقصان بلین ڈالر زمیں جاتا ہے دس بلین ڈالر کے قریب کا نقصان ہے، توآپ اندازہ لگائیں کہ خرچ تو کچھ بھی نہیں اس کے مقابلے میں اس کا فائدہ کتنا زیادہ ہے ہمیں اس کا ادراک ہونا چاہیے۔ ہیپاٹائٹس میں دوسرابڑا مسئلہ مریض کی بےخبری ہے، جو اس مرض کا شکار ہیں ان میں سے اکثریت اس سے آج بھی بے خبر ہیں۔

ان کے لیے ہمیں گھر گھر جاکر اس کے تشخیص کی مہم چلائی جائے مہم پرائمری لیول پرہو، لیڈی ہیلتھ ورکر کے ذریعے گھر گھر جاکر لوگوں کے خون کی اسکریننگ کی جائے تاکہ مرض کی تشخیص ہو جس طرح پولیو کے لیے کام کیا جارہا ہے،ہمیں اس مرض کے خاتمے کے لیے قومی سطح پر پرائمری لیول کی جانچ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

جنگ:پرائمری لیول پر کام کرنے کے لیے مزید بجٹ درکا ر ہے تو وہ مدد کیسے حاصل ہوگی؟

عثمان خالدوحید: اس کے کے لیے ہم مصر کی مثال لے سکتے ہیں وہاں اس مرض کا تناسب آٹھ فیصد تھا،وہاں نمٹنے کے لیے جب سنجیدہ اقدامات کیے گئے تو مختلف ممالک اداروں، ورلڈ بینک نے معاونت کی اگر ہم آج سنجیدگی دکھائیں توامید ہے ہمیں فنڈنگ میں کسی کمی کا سامنا نہیں ہوگا۔

جنگ: ہم اس مرض میں پہلے نمبر پر نہیں تھے تو ہم نے جن ملکوں پیچھے چھوڑا ہے اس مرض کے تدارک کے لیےانہوں نے کیا اقدامات کیے تھے؟

عثمان خالدوحید: ہم سے آگے چین تھا اور اگر دس سال ماضی میں جائیں تو انڈیا اورنائیجیریا ہم سے آگے تھےہم نے ان ممالک کو پیچھے چھوڑا ہےاگر ہم چین یا دیگر کی مثال لیں تو ان ممالک نے نہ صرف علاج کےذریعے اس مرض کو ختم کیا اور ساتھ ہی نئے کیس کو آنے سے روکا،ہماری یہ حالت ہے کہ ہم سالانہ 5لاکھ اس کے نئے مریض کا اضافہ کر رہے ہیںاب آپ پانچ لاکھ کا علاج کریں اور 5لاکھ بڑھ جائیں تو ہم صفر پر کھڑے ہیں،ہم مرض کے پھیلاو کو روکنے میں ناکام ہیں۔

جنگ: مرض کی آگاہی مہم کس سطح پر کی جارہی ہے،یہ کتنی مفید ہے ویسے ہم نے ہیپاٹائٹس بی اور سی کی کوئی مہم نہیں دیکھی ؟

عثمان خالدوحید: ہمارے نظام صحت کو بڑا چیلنج یہ بھی ہے کہ ہم لوگوں کی طرف توجہ ان کے بہت زیادہ بیمار ہونے پر دیتے ہیں جب تک لوگ پوری طرح ڈوب چکے ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر ٖضیغم عباس: پولیو کی آگاہی مہم کو بین الاقوامی فنڈنگ ہے ،ہیپاٹائٹس بی اورسی کے لیے بھی اگر ہوجائے تو بہت اچھا ہو۔

جنگ: اس مرض سے نمٹنے کے لیےآج آپ لوگوں کن بڑے چیلنجز کا سامنا ہے؟

عثمان خالدوحید: سب سے بڑا مسئلہ وسائل کا ہے،وفاقی ادارہ منصوبہ بندی کا کوئی کردار نہیں صرف صوبائی سطح پر اپنے طور پر کام ہورہا ہے،دوسرا سب سے بڑا اور اہم پرائمری لیول پر جاکر اس مرض کی تشخیص کرنے کی ضرورت ہے یہ کوشش ہمیں مرض کو قابو کرنے کی طرف لے کرجائے گی۔

جنگ: اسے خاموش کلر کہتے ہیں، کتنے عرصے میں سورسس کی طرف چلاجاتا ہے، اس کے بعد علاج اور زندگی کےلیےیہ مرض کتنا خطرناک ہے؟

عثمان خالدوحید: آج کے اعدادوشمار کے مطابق ہمارے یہاں  ہربیس منٹ میں کوئی نہ کوئی ہیپاٹائٹس سی سورسس یا لیور کے سرطان کا شکار ہورہا ہے۔

عامرظفر
عامرظفر

عامرظفر: فیروز سنز لیبارٹریز کی نمائندگی اس حوالے سے منفرد ہے کہ مریض جوہماری پہلی نظریاتی اساس ہے ہماری ترجیح بین الااقوامی معیار کے مطابق نہ صرف دوا کی ترسیل ہے بلکہ اس مرض اوراس کےمریض کی آگاہی کے لیے معلوماتی پروگرام بھی کررہے ہوتے ہیں اس طرح کی کوششیں فیروز سنز کا ہمیشہ سے وطیرہ ہے اور اسی چیز کو بنیاد بناتے ہوئے ادارے کے طور پر کوئی بھی حکمت عملی بناتے ہیں تو وہ کتنی ہمہ جہت ہے یہ بڑا اہم ہے، ہماری ٹیم لیول پرجو کمٹمنٹ ہے وہ ہیپاٹائٹس فری پاکستان کے لیے وقف ہے، بس سارے چیلنجز ہیں بحیثیت کمپنی ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کام ممکن ہےہم اپنی بہتر حکمت عملی سے ہی اس کا تدارک کرسکتے ہیں اس کے لیے چھوٹے چھوٹے سے اقدامات ہیں جس سے ہم بڑے مثبت فائدے حاصل کرسکتے ہیں اور اس کے لیے ہم سب کو ساتھ بیٹھا پڑے گا۔

جنگ: یہاں بات ہورہی ہے کہ اس پر کوئی خاص آگاہی مہم نہیں تو پھر یہ کیسے کہہ رہے ہیں آپ اس میں حکومت کے ساتھ کام کیوں نہیں کرتے؟

عامرظفر: آگاہی مہم حکومتی ذمہ داری ہےعوامی سطح کےلیے تشہیری مہم حکومت بہتر انداز میں کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، جب فارما سیوٹیکل کمپنی کی کردار کی بات ہوتی ہے،توہماری دوا کی تشہیری مہم یا ملک بھر میں جگہ جگہ لگنے والے میڈیکل کیمپ یا ہیلتھ چینلز پر گفتگو ہو تو ہمارا تعاون ہوتا ہے، اس مہم کا نتیجہ کیانکل رہا ہے یہ الگ پہلو ہے ہم کسی بھی سطح کی تشہیر یا کوئی پیغام دیتے ہیں، تو ہماری نیت یہ ہی ہے کہ مرض کا پھیلاوکو روکنا اور تدارک کو بنیاد بنا کر حکمت عملی بنائی جائے۔

جنگ: علاج میں دوائی کی قیمت بڑا معنی رکھتی ہیں ہمارے یہاں غربت زیادہ ہے مہنگی دوا خریدنا مشکل ہوتا ہے،سرکاری شعبے ضرورت پوری نہیں کرپاتے تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ لوگوں کو اپنے علاج کے لیے سستی دوا مل جائے۔

عامر ظفر: اگر پاکستان میں ہیپاٹائٹس سی کو ہی بنیاد بنا کر دوا کی ترسیل اور قیمت ایک مثال کے طور پر دی جائے،تو اگر ہم یہ سوچیں کہ دوا سستی ہوگی تو علاج ہوسکے گاتو پاکستان وہ ملک ہے جہاں دوا بہت سستی ہے بنانے والے بھی بہت ہیںلیکن اس کے باوجود آپ وہ نتائج حاصل نہیں کرپارہے جسے دنیا دوا کی قیمت کی بنا پر دیکھ رہی ہوتی ہے۔

جنگ: آپ اس کی کیا وجہ سمجھتے ہیں؟

عامر ظفر: اس کی کئی وجوہات ہیں، ہیپاٹائٹس سی نمٹنے کےلیےہمیں مربوط حکمت عملی بنانا پڑے گی، ہماری بہت سی خامیاں اور ڈرینزہیں صرف ہیپاٹائٹس سی نہیں پورے ہیلتھ سیکٹر کا مسئلہ ہے ہم آج بھی پولیو کے خاتمے کی جدوجہد کررہے ہیں، خامیاں رہنے تک یہ مسائل رہیں گے پھر ہمیں مطلوبہ نتائج بھی نہیں ملیں گے۔

جنگ: اس کے علاج کے لیے خاص اسپتال کی ضرورت ہے یا جنا ح طرز کےاسپتال کافی ہیں اور کیا ہمارے پاس مطلوبہ تعداد میں اسپیشلٹ ڈاکٹرز دستیاب ہیں؟

عامر ظفر: ہمارے پاس دوا ، اسپتال اور ڈاکٹر سب دستیاب ہیںلیکن جب تک ہم حکومتی سطح پر پلاننگ کمیشن کے ساتھ وفاقی اور صوبائی حکومت کی مشترکہ مربوط حکمت عملی کے ذریعے کام نہیں کریں گے ہم مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرسکتے۔

ڈاکٹر کشور کمار
ڈاکٹر کشور کمار

ڈاکٹر کشور کمار : جیساکہ سب نے کہا اسے مشترکہ کوششوں سے قابو پایا جاسکتا ہے۔ فیروزسنز اس مقصد کے لیے معاشرے میں اس مرض سے متعلق آگاہی مہم میں حصہ لیتی ہے، ہم اس ماہرین سے بھی مل رہے ہوتے ہیں، ڈاکٹر پیرا میڈیکل اسٹاف اور دیگر ہیلتھ ورکرز کو اس مرض سے متعلق زیادہ سے زیادہ معلومات فراہم کرنے میں ہمارا اہم کردار ہے۔

جنگ: اس مقصد کے لیے فنڈ صرف فیروز سنز رکھتا ہے یا اس میں دیگر ادارے بھی شامل ہیں؟

ڈاکٹر کشور کمار: نجی شعبے میںفیروز سنز اس مقصد کے لیے سب سے زیادہ کام کررہا ہے،وہ سرفہرست ہے ۔دیگر کمپنیاں بھی اس کے لیے فنڈ رکھتی ہیں۔بدقسمتی سے ہم ذیابیطس میںسا ت سےتیسرے نمبر پر آگئے ہیں اورمزید آگے بڑھ رہے ہیں،پولیو ،ٹی بی اور اب ہیپاٹائٹس سی اور بی سب میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ہم اپنے دشمن خود ہیں، پولیو کی تشہیری مہم کرنے کی وجہ صرف یہ ہے کہ لوگ بچوں کو پولیو کے قطرے ہی نہیں پلاتے ،یہ عوام کا مائنڈسیٹ ہے جسے تبدیل کرنا ہے، دیہی آبادی کی عوام کو سمجھانا بہت مشکل ہوتا ہے، ہماری دیہی آبادی کی اکثریت سندھی سمجھتی ہے تو ہمیں آگاہی کی تشہیر کے لیے آسان سے آسان راستے دیکھنا ہوں گے ہمیں لوگوں کے مائنڈسیٹ کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے۔

جنگ: مرض کے متعلق تشہیری مہم کے لیے کئی دواساز کمپنیاں حکومت کے ساتھ مل کر کام کیوں نہیں کرتیں،ایک کیمپئن ہونے سے بل بورڈ ،اخبارات میں اشتہارات ٹیلی ویژن ایک ساتھ ہرجگہ یہ کام ہوسکتا ہے بجٹ بڑھنے سے تشہیری آگاہی مہم زیادہ پراثر ہوسکتی ہے؟

ڈاکٹر کشور کمار: آپ کا آئیڈیا بہت اچھا ہے ایسی مشترکہ کوشش سے نتائج زیادہ بہتر آئیں گےاگر کسی یونیفارم اپروچ کے ساتھ چلیں تو اس کا زیادہ اچھا اثر پڑسکتا ہےاور صرف

تشہیری مہم نہیں آپ ہر سطح پر بلڈ اسکریننگ کریں، ہم نے کوویڈ کے دنوں میں سفر کے لیے کوویڈ ویکسین کو لازمی کردیا تھا تو اگر این آئی سی بنانے کے لیے اسکرینگ لازمی کردی جائے اس طر ح کے اقدامات سےہم مرض سے چھٹکارہ پاسکتے ہیں،قابو پانے کے طریقے اچھے ہوں گے تو ٹھیک ورنہ ہم صرف گفتگو کرتے رہیں گے۔

آیسن مرتضیٰ اولو: دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ہم کام کررہے ہیں، ایچ آئی وی کی طرز پر ہم ہیپاٹائٹس سی کے خاتمے کے لیے سرگردہ ہیں ،یہ آسان کام نہیں ہیں اپنے اہداف پورے کرنے کے لیے حکومت فزیشنز اور سوسائٹی کو مل کر اس چیلنج کا مقابلہ کرنا ہوگا ،بلڈ بینک اور خون کی اسکریننگ اور محفوط سرنج کا استعمال بہت ضروری ہے اس حوالے سے اگر قانون سازی کی ضرورت ہو تو وہ بھی کی جائے ، انفیکشن سے بچنا ہوگا، اسپتال میں صفائی کے معیار کو بہتر کرنا ہوگا ،کوویڈ طرز پر کوئی کارڈ بھی جاری کیا جاسکتا ہے۔ 

تازہ ترین