• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اہم مسائل حل طلب ہی رہے، وبا نے معیشت و معاشرت مزید متاثر کی

نیا سال ہر شخص کے لیے نئی امیدیں ، بہت سی توقعات اور کئی مواقع لے کر آتا ہے۔ امسال نئے سال کا سورج ایسے وقت میں طلوع ہواہے، جب بلوچستان سمیت مُلک بھر میں ایک طرف وباکی دوسری لہر کا سلسلہ جاری ہے، تو دوسری جانب سیاسی منظرنامے پر بھی غیر معمولی ہلچل کا سماں ہے ۔ گزشتہ سال کے دوران ہمیںکچھ اچھی خبریں ملیں، تو بحیثیت مجموعی بُرے حالات کا بھی سامنا کرنا پڑا، بالخصوص بلوچستان کے عوام بدترین وبائی حالات ، غربت ، پس ماندگی اور بےروزگاری ہی کی چکّی میں پستے رہے۔ کورونا وائرس کی عالم گیر وبانے بلوچستان کی معیشت و معاشرت دونوںپر غیر معمولی اثرات مرتّب کیے۔ 

صوبے میں تا دمِ تحریروائرس کے باعث160سے زائد اموات ہوچُکی ہیں۔ پہلی لہر کے دوران وفاقی حکومت نے لاک ڈاؤن کا جو آپشن استعمال کیا ، اس سے بلوچستان کا غریب ،دیہاڑی دار طبقہ بُری طرح متاثرہوا ،علاوہ ازیں صوبے کے زمین داروں کو ٹڈی دَل حملوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ واضح رہے ،ٹڈی دَل حملوں سے کوئٹہ سمیت بلوچستان کے متعدّد اضلاع میں پھلوں اور سبزیوں کی کھڑی فصلات کو شدید نقصان پہنچا اور پیداوار متاثر ہوئی ۔

سالِ رفتہ حکومت نے وبائی ایّام کے با وجودصوبے کی خوش حالی کے لیے چند انتہائی اہم کام کیے، جن کی جانب ماضی میں کچھ خاص توجّہ نہیں دی گئی تھی۔ مثال کے طور پر صوبائی ترقیاتی پروگرام پر توجّہ دی، پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام( پی ایس ڈی پی) کوکرپشن اور سیاسی اثرو رسوخ سے پاک کرنے کے لیے موثر اقدامات کیے ۔ نہ صرف نئے ترقیاتی پراجیکٹس کا آغاز کیا، سابقہ حکومتوں کے جاری کردہ پراجیکٹس پر بھی کام کیا۔ صحت و تعلیم کے شعبوں میں اصلاحات کیں۔ صوبے کے پیداواری شعبوں پر بھی خاص توجّہ دی گئی ۔ زرعی شعبے کے بجٹ میں اضافے کے علاوہ بلوچستان کی تاریخ میں پہلی بار’’ لائیواسٹاک ایکسپو ‘‘ کا انعقاد ہوا۔

اسی طرح معدنی شعبے میں نئی قانون سازی اور سرمایہ کاروں کو بلوچستان کی طرف راغب کرنے کے لیے بھی عملی اقدامات کیے گئے۔ اس مقصد کے لیے جہاں بلوچستان سرمایہ کاری بورڈ فعال کرکے اسے بااختیار بنایاگیا ، وہاں بلوچستان ریونیو اتھارٹی ( بی آر اے ) کو بھی منظّم کیا۔ حال ہی میں وزیرِ اعظم عمران خان نے بلوچستان کے 9اضلاع کے لیے ” جنوبی بلوچستان پیکیج “ کے نام سےچھے سو ارب روپے کے ریکارڈ ترقیاتی پیکیج کا اعلان کیا ،جس کے تحت مختلف شعبوں میں ترقیاتی کام کیے جائیں گے۔

اس حوالے سےدسمبر کے وسط میں چیف سیکرٹری ، فضیل اصغر کی زیرِ صدارت ایک اجلاس منعقد ہوا ، جس میں بتایا گیا کہ وفاقی حکومت کے اعلان کردہ جنوبی بلوچستان پیکیج میں صوبے کے عوام کو صحت کی بہترین سہولتوں کی فراہمی،مختلف اضلاع میں نرسنگ ریزیڈینشل کالجز اور ڈیمز کی تعمیر، ماربل،کرومائیٹ، گرینائٹ کی صنعتوں کے قیام اورروڈ نیٹ ورک سمیت دیگر اہم منصوبے شامل ہیں ۔ 

سیاحت کےفروغ کے لیے صوبائی حکومت نے 770 کلومیٹر ساحلی پٹی کی بہتری اور قیام کے لیے 150 ملین روپے مختص کیےاور ساحلی علاقوں کے سیاحتی مقامات پر رہائش گاہیں قائم کرنے کا منصوبہ بھی بنایا، جب کہ ساحلی علاقوں میں ماحولیاتی سیاحت کو فروغ دینے کے لیے ایک ہزار ملین روپے کی لاگت سے 7 سیاحتی ریزورٹس قائم کرنے کا فیصلہ ہوا۔ حکومت نے ساحلی علاقوں میں 5بیچ پارکس بنانے کا منصوبہ بنایااور اس مقصد کے لیے 250 ملین روپے بھی مختص کیے۔

امن و امان کی بات کی جائے تو سالِ رفتہ بھی کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں بم دھماکوں ،دستی بم حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کاسلسلہ جاری رہا، جن میں زیادہ تر سیکیوریٹی فورسز کو نشانہ بنایا گیا۔ صوبے کے مختلف علاقوں میںمجموعی طور پر 80دھماکےہوئے ، جن میں مجموعی طورپر پولیس، لیویز ، ایف سی اہل کاروں اور عام شہریوں سمیت 115افراد شہید اور 250سے زائد سیکیوریٹی اہل کار اور شہری زخمی ہوئے( 30بم دھماکوں میں پولیس ،ایف سی اور لیویز اہل کاروں سمیت 55افراد جاں بحق اور 160زخمی ہوئے۔ اسی طرح 50دستی اور بارودی سرنگ دھماکوں میں35سیکیوریٹی اہل کاروںسمیت 60افراد شہید اور 90 زخمی ہوئے)۔امن و امان کی اہمیت کے پیشِ نظر صوبائی حکومت امن وامان کے شعبے پر خطیر رقم اور وسائل خرچ کررہی ہے، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بجٹ میں امن وامان کے لیے 44ارب روپے مختص کیے گئے۔

بلوچستان میں صنعتوں کو تاحال فروغ حاصل نہیں ہوسکا، گو کہ گزشتہ کچھ عرصے سے چین ، پاکستان اکنامک کوریڈور( سی پیک ) کاخُوب چرچا ہے اور وفاقی و صوبائی حکومتیں اس عزم کا اعادہ کرتی رہی ہیں کہ سی پیک سے صوبے کو زیادہ سے زیادہ مستفید کیا جائے گا، تاکہ یہاں کے نوجوانوں کو روزگار کے مواقع ملیں اور صوبے میں صنعت وحرفت کو فروغ دیا جاسکے، مگر تاحال اس حوالے سے کوئی بڑی اور خاطرخواہ پیش رفت سامنے نہیں آسکی۔ سی پیک کے حوالے سے بلوچستان کے ساحلی شہر ،گوادر کو کلیدی اہمیت حاصل ہے، مگر اس کے باوجود بلوچستان کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہاہے، جس کا اعتراف موجودہ وزیرِاعلیٰ ،جام کمال خان نے نومبر میں پِسنی اور گوادر کے دورے کے موقعے پربھی کیا،ان کا کہنا تھا کہ ’’ ماضی میں ہم نے سی پیک سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا اور بلوچستان کے لیے ایک اسکیم بھی حاصل نہیں کی۔

سی پیک کا ایک وقت کا تھا ،جو گزرچُکا، کیوں کہ چینی باشندے اب سرمایہ کاری کے موڈ سے نکل کربزنس موڈ میں آگئے ہیں۔‘‘ سی پیک کی بدولت بلوچستان کی تعمیر وترقّی ،صنعت وحرفت کے فروغ میں کوئی معاونت ملتی ہے یا نہیں اس حوالے سے کچھ کہنا قبل اَز وقت ہوگا،فی الحال تو بلوچستان میں روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں ۔صوبے کے کراچی سے متصل علاقے، حب کو چھوڑ کر پورے صوبے میں صنعتیں ہیں، نہ کاروبار۔ اسی سبب یہاں کے عوام زیادہ تر دو ہی شعبوں، زراعت و مال داری اورسرحدی تجارت سے وابستہ ہیں۔مارچ2020ءکے بعد سے تاحال افغانستان سے متّصل سرحدی علاقے ،چمن میں تجارتی صورتِ حال معمول پر نہ آسکی۔ واضح رہے کہ سالِ گزشتہ کے آغاز پر کورونا وائرس کے سبب احتیاطی تدابیر کے طور پر سرحدیں بند کردی گئی تھیں، بعدازاں سرحد پر آمدورفت اور تجارت بحال ہوئی تو چمن میں یکے بعد دیگرے بدامنی اور تشدّد کے ایسے واقعات پیش آئے ،جن کی وجہ سے نہ صرف عوام میں شدید غم و غصّہ پھیلا ، خود حکومت کو بھی مشکل صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا۔

چمن بارڈر کی صورتِ حال پر آل پارٹیز کے مسلسل اجلاس بھی ہوئے، جب کہ بلوچستان اسمبلی کے فلور پر بھی اس مسئلے پر سال بھر آواز اُٹھائی جاتی رہی ۔ اس دوران ایک اور افسوس ناک واقعہ یہ بھی پیش آیا کہ چمن سے منتخب رکنِ صوبائی اسمبلی ، اصغرخان اچکزئی کے (جو اے این پی کے پارلیمانی لیڈر اورصوبائی صدر بھی ہیں ) چچازاد بھائی، عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی سیکرٹری اطلاعات، اسدخان اچکزئی کو نامعلوم افراد نے چمن سے کوئٹہ آتے ہوئے اغواکرلیا۔ ان کے علاوہ بھی پورا سال ہی بلوچستان کے طول و عرض سے لاپتا ہونے والے افراد کے اہلِ خانہ انصاف کے حصول کے لیے احتجاج کرتے دِکھائی دیئے۔گرچہ 70سے زائد لاپتا افراد گھروں کو لَوٹ چُکے ہیں،مگر اب بھی 100کے قریب افراد لاپتا ہیں۔

اس حوالے سے چیف جسٹس ، سپریم کورٹ،گلزار احمد نے کوئٹہ میں لاپتا افراد کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ’’ لاپتہ افراد کا مسئلہ گمبھیرہے ، عدالتوں کی کوششوں سے بہت سے لاپتا افراد بازیاب ہوئے ہیں۔ تاہم، پولیس نے عوام کو کچرا سمجھ رکھا ہے، لہٰذاپولیس فی الفور تمام لاپتا افراد کوبازیاب کروائے۔‘‘ یاد رہے کہ گزشتہ برس ضلع کیچ میں پیش آنے والے ایک واقعے نے بھی عوام کو احتجاج پر مجبور کر دیا۔ یہ واقعہ تربت میں پیش آیا ،جہاں بااثر مسلّح افراد نے ایک گھر میں ڈکیتی کی غرض سے گُھس کر خاتو ن کو فائرنگ کرکے شہید اوران کی چار سالہ کم سِن بچّی، برمش کو زخمی کیا۔ اس واقعے کے خلاف پورے بلوچستان میں شدیداحتجاج ہوا، تو قومی و صوبائی اسمبلیز میں بھی آواز اٹھائی گئی۔ 

اسی طرح 8 اگست کو تربت ہی میں ایک طالب علم، حیات بلوچ کو فورسز نے اُس کے والدین کے سامنے فائرنگ کرکے قتل کردیا، جس کا مقدمہ لوگوں کے احتجاج کے بعد فائرنگ کرنے والے ایک سیکیوریٹی اہل کار کے خلاف درج ہوا۔اسی طرح 13فروری کو ایک نوجوان، سمیع اللہ کو مسلّح موٹرسائیکل سوار وں نے گھر کے عین سامنے فائرنگ کرکے قتل کردیا ۔ سمیع اللہ مینگل نے واقعے سے دو ماہ قبل انتظامیہ کی کُھلی کچہری میں منشّیات کے اڈّے کی نشان دہی کی تھی۔یا درہے کہ سالِ گزشتہ بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت ،کوئٹہ ، نوشکی اور تربت سمیت صوبے کے دیگر اضلاع میں منشّیات فروشوں کے خلاف مسلسل احتجاج بھی ہوتا رہا ۔

صوبے کے طول وعرض میں پھیلی کوئلے کی کانوں میں بھی حادثات پیش آتے رہے ،جن میں کم از کم 50کان کن جاں بحق اور70زخمی ہوئے۔ بلوچستان کے متعدّد علاقوں میں کوئلے کے وسیع ذخائر ہیں، جن سے ماہانہ لاکھوں ٹن کوئلہ نکالا جاتا ہے، مگر بدقسمتی اور المیہ دیکھیے کہ اکیسویں صدی کے اس جدید دَور میں بھی بلوچستان میں کان کنی روایتی اور انتہائی فرسودہ طریقے سے ہوتی ہے۔ کوئلہ کان مالکان سالانہ کروڑوں روپے کی کمائی کرتے ہیں، لیکن کانیں بوسیدگی کی تصویرہی بنی نظر آتی ہیں۔ 

اس حوالے سے دُکھ کی بات یہ ہے کہ ہر حادثے کے بعد چند دن شور ہوتاہے، مائن ورکرز کی تنظیمیں احتجاج کرتی ہیں، محکمۂ معدنیات حرکت میں آتا ہے، خصوصی ٹیمیں تشکیل دی جاتی ہیں، لاشیں نکال کر متاثرہ کان سیل کردی جاتی ہے ، پھر کچھ عرصے کے بعد جب گرد بیٹھ جاتی ہے ،تو پھر سے کان کھول کر سابقہ بے احتیاطی اور بدترین لاپروائی کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔

یہی صورتِ حال قومی شاہ راہوں پر پیش آنے والے حادثات کی بھی ہے۔ کوئٹہ ، کراچی شاہ راہ پر سب سے زیادہ حادثات پیش آتے ہیں ،ہر حادثے کے بعد چند دنوں کے لیے متعلقہ ضلعی انتظامیہ متحرّک رہتی ہے اوَور لوڈنگ اور اوَور اسپیڈنگ کے تدارک کے لیے بیانات داغے جاتے ہیں، انکوائری کمیٹی بنا کر رپورٹ جاری کردی جاتی ہے، لیکن رپورٹ میں کی گئی سفارشات پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔

یہی وجہ ہے کہ گزشتہ برس بھی صوبے میں ٹریفک حادثات کی شرح کم ہونے کی بجائے مسلسل بڑھتی ہی رہی۔ 2020ءکے دوران بلوچستان میں قومی شاہ راہوں پر ٹریفک حادثات میں ایک ہزار افراد جاں بحق اور زخمی ہوئے ۔ اس حوالے سے ڈی آئی جی موٹرویز نے ایک روڈ سیفٹی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ’’ ٹریفک حادثات میں بلوچستان ٹاپ پر ہے۔‘‘

سیاسی منظرنامے کی بات کی جائے توسالِ گزشتہ مرکزمیں جاری سیاسی سرگرمیوں کے اثرات صوبے کے سیاسی منظرنامے پر بھی مرتّب ہوئے۔ حکومت مخالف اتحاد ( پی ڈی ایم ) نے مُلک گیر جلسوں کے سلسلے میں کوئٹہ میں بھی جلسۂ عام منعقد کیا، جس میںپی ڈی ایم کے سربراہ، مولانا فضل الرحمٰن ، مریم نواز ، محمودخان اچکزئی ، سردار اختر مینگل ، امیر حیدر خان ہوتی ، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور دیگر رہنماؤں نے شرکت اور خطاب کیا ،جب کہ سابق وزیرِاعظم ،میاں نواز شریف اور بلاول بھٹو زرداری نے بھی ٹیلی فونک خطاب کیا۔ بلوچستان کا سیاسی مزاج بھی باقی صوبوںسے مختلف اور امتیازی حیثیت کا حامل ہے، اسی لیےفی الحال پی ڈی ایم کی کام یابی یا ناکامی کے حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔ 

تاہم، اگرموجودہ حکومت کی کار کر دگی کی بات کی جائے ،تو وزیرِاعلیٰ جام کمال خان کی قیادت میں بننے والی موجودہ مخلوط صوبائی حکومت پر جہاں اپوزیشن کی جانب سے شدید تنقید کا سلسلہ جاری رہا، وہیں حکومتی مؤقف اور بیانیہ اس کے برعکس ہی رہا۔ حکومتی اراکین کا کہنا تھا کہ اپوزیشن سے حکومتی کارکردگی برداشت نہیں ہورہی، کیوں کہ موجودہ حکومت نے صوبے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ تعمیر و ترقّی کے ریکارڈ کام شروع کیےہیں اور نہ صرف ترقیاتی منصوبوں پر تیزی سے شفّافیت کے ساتھ کام جاری ہے، بلکہ صوبے میں سیر وسیاحت کے فروغ ، امن وامان کے قیام ، روزگار کے مواقع کی فراہمی ، پی ایس ڈی پی کو سیاست اور گروہی مفادات سے بالاتر ہو کر عوامی مفادات کا آئینہ دار بنانے کی کوشش بھی کی جارہی ہے۔ 

نیز، صوبے کے وسائل سے بلوچ عوام ہی کے استفادےکے بھی اقدامات کیے جا رہے ہیں اور یہی بات اپوزیشن جماعتوں سے ہضم نہیں ہورہی۔ حکومت اورا پوزیشن میں کس کا مؤقف درست ، کون صحیح، کون غلط ہے ،یہ فیصلہ آنے والے وقت پر چھوڑتے ہیں۔ فی الحال تو بس ہماری یہی دُعا ہے کہ نیا سال صوبے کے لیے امن ، ترقّی ، خوش حالی اور استحکام کے نئے مواقع لے کر آئے اور یہاں کے باسیوں کو روشن مستقبل کی نوید دے ۔

تازہ ترین