• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عرصے بعد اسلام آباد کا سفر اختیار کیا مگر دل بہت ملول ہوا، اول تو میرے مہربان دوست جنرل اسلم بیگ کی اہلیہ کی تعزیت کی غرض سے حاضر ہوا، بیگم صاحبہ بہت نفیس خاتون تھیں۔ خدا مغفرت فرمائے! آمین ۔اور یہ جان کر کہ برادر بزرگ سینیٹر مشاہداللہ خان اسپتال میں داخل ہیں، دل بوجھل ہو گیا، ابھی یہ بوجھل پن دور نہ ہوا تھا کہ ٹیلی وژن کی اسکرین اِس خبر کے ساتھ شور مچانے لگی کہ خواجہ آصف کو گرفتار کر لیا گیا ہے جب:

غلام بھاگتے پھرتے ہیں مشعلیں لے کر

محل پر ٹوٹنے والا ہو آسماں جیسے

کی طرح کی کیفیت ایوانوں میں موجود ہو تو اپنے خوف کو لوگوں کے سامنے جھٹلانے کی غرض سے کبھی چھٹی کے دن کی مصروفیات کی تصاویر جاری کی جاتی ہیں اور کبھی حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کی گرفتاریاں کی جاتی ہیں مگر یہ سب کچھ صرف خوف کو دیوار پر لکھی تحریر کی مانند اجاگر ہی کر رہا ہوتا ہے۔ موبائل کی گھنٹی بجی، ایک دوست کی آواز سنائی دی، خواجہ آصف کو گرفتار کر لیا گیا ہے، اب خواجہ آصف کے ساتھ کیا ہوگا؟ میں نے کہا کہ خواجہ آصف کے پاس دو راستے تھے یا تو نواز شریف سے الگ ہو جاتے تو اُن کو گنگا نہایا ثابت کیا جا رہا ہوتا یا نواز شریف کی پیروی میں اُن کے ساتھ رہتے اور ہر قسم کے حالات کا سامنا کرنے کے لئے تیاررہتے۔ انہوں نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ اب ان الزامات کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ اِس کا جواب بھی بالکل واضح ہے۔ کیا نتیجہ ظاہر ہوگا؟ دوست نے سوال کیا۔ مشرف دور میں جاوید ہاشمی، پرویز رشید، اسحاق ڈار اور مشاہداللہ خان گرفتاریاں جھیلتے رہے مگر ایک دھیلے کی بدعنوانی سامنے نہ لائی جا سکی حالانکہ یہ سب حکومت کا حصہ رہے تھے۔ شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی، حمزہ شہباز، خواجہ سعد رفیق ماضی میں بھی سلاخوں کے پیچھے دھکیلے گئے مگر اگر ان پر لگائے گئے اس وقت سے لے کر آج تک کے الزامات پر نظر دوڑائی جائے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سب ہتھکنڈے ماسوائے سیاسی انتقام کے اور کچھ بھی نہیں ہیں۔ احسن اقبال تو گرفتاری کے ساتھ ساتھ قاتلانہ حملہ بھی جھیل گئے، کچھ سرکاری افسران بھی گرفتار کئے گئے مگر نتیجہ شرمندگی اور صرف شرمندگی اور یہ سب کچھ اِس لئے کہ نواز شریف کی سیاسی حمایت کو قصۂ پارینہ بنایا جا سکے مگر وہ بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ مریم نواز شریف جس طرف بھی رُخ کر رہی ہے۔میرا دوست بولا یار یہ سب تو ٹھیک ہے مگر صرف نواز شریف کو ماضی بنانے کی خواہش نے ملک کے معاشی حالات کو کہاں سے کہاں تک پہنچا دیا ہے۔ ادرک، لہسن تک سونے کے بھاؤ ہو گئے ہیں۔ آخر یہ سب کچھ کرکے کرنے والوں کے حصے میں کیا آئے گا؟ میرا جواب تھا ایک لقمہ بس۔ مطلب؟ دوسری طرف لہجے میں صاف حیرانی موجود تھی۔ بات یہ ہے کہ یہ بس ایک شاہی خواہش تھی اور کچھ نہیں، خواہش کرتے ہوئے اِس کے نتائج پر غور ہی نہیں کیا گیا۔ عباسی خلیفہ ہارون رشید نے ایک دن شاہی باورچی خانے کے اپنے خاص باورچی کو طلب کیا اور اُس سے دریافت کیا کہ کیا تمہارے پاس جزدر جو ایک نایاب جانور تھا اور اُس کا گوشت بازار میں دستیاب نہ ہوتا تھا، کا گوشت ہے؟ باورچی نے جواب دیا کہ جی، موجود ہے۔ ہارون رشید نے کہا کہ آج دسترخوان پر اُس کو پیش کرو چنانچہ جب کھانا اس کے سامنے پیش کیا گیا تو اس نے جزدر کے گوشت کا ایک ٹکڑا اٹھایا اور منہ میں رکھ لیا۔ اس کا خاص مقرب جعفر برمکی بھی اُس وقت اس کے پاس موجود تھا۔ وہ خلیفہ ہارون رشید کا بہت منہ چڑھا تھا، یکدم ہنس پڑا، ہارون رشید نے لقمہ چبانا چھوڑ دیا اور پوچھا تمہیں کس بات پر ہنسی آئی ہے؟ جعفر برمکی نے بات بناتے ہوئے کہا کہ کچھ نہیں آج گھر میں میری بیوی اور کنیز کے درمیان ایک بات ہوئی، وہ یاد آئی تو ہنس دیا۔ ہارون رشید سمجھ گیا کہ بات کچھ اور ہے۔ اُس نے جعفر برمکی سے اصرار کیا کہ سچ سچ بتاؤ ؟ جعفر برمکی نے کہا کہ آپ یہ لقمہ نوش فرمائیں، میں پھر بتاتا ہوں۔ ہارون رشید نے لقمے کو تھوک دیا اور بولا سچ سچ بتاؤ؟ جعفر برمکی نے ہارون رشید سے سوال کیا کہ آپ جو گوشت تناول فرما رہے ہیں، اُس کی قیمت کیا ہوگی؟ ہارون رشید بولا تین درہم کے قریب۔ جعفر برمکی نے جواب دیا نہیں، اِس کی قیمت 4لاکھ درہم ہے۔ ہارون رشید حیرت سے جعفر برمکی کا منہ تکنے لگا اور بولا جعفر وہ کس طرح؟ جعفر برمکی نے جواب دیا، بہت عرصہ گزرا آپ نے اپنے باورچی سے اِس گوشت کی فرمائش کی تھی مگر فراہم نہ ہو سکا تو آپ نے اُس کو کہا، باورچی خانے کو اس گوشت سے کبھی خالی نہیں رہنا چاہئے۔ اُس روز سے ہم ہر روز ایک جانور ذبح کرنے لگے اور اُس دن سے آج تک اِس مد میں چار لاکھ درہم خرچ ہو چکے ہیں۔ اتفاق کی بات ہے کہ فرمائش کرنے کے بعد پھر کبھی آپ نے اس کو طلب نہیں فرمایا، آج نہ جانے کیسے خیال آگیا اور طلب فرما لیا۔ مجھے ہنسی اس بات پر آئی کہ اتنی بڑی رقم خرچ ہو گئی اور آپ کے حصے میں کیا آیا؟ ایک لقمہ، اور اِس ایک لقمے کی خاطر چار لاکھ درہم آپ کی ذات پر صرف ہو گئے۔ واقعہ طویل ہے کہ پھر ہارون رشید کیسے مطمئن ہوا مگر ایک بات واضح ہے کہ وطنِ عزیز کو موجودہ غیریقینی حالات میں دھکیلنے والوں کے لئے اس معاشی تباہی سے کیا حاصل ہوا، وقتی انا کی تسکین کے سوااور کیا ملا؟

تازہ ترین