پاناما لیکس کیا لیک ہوئی دنیا بھر کے حکمرانوںکی نیندیں حرام ہو گئیں ،حکومتوں میں بھونچال آگیا ہے ۔ زلزلے کے شدیدجھٹکوں سے کئی حکومتیں زمین بوس ہو گئیں اور کئی پناہ کی تلاش میںہیں۔پہلے آئس لینڈ کے وزیر اعظم نے استعفیٰ دیا اب یوکرین کے وزیراعظم نے بھی استعفیٰ دے دیا ۔ برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈکیمرون اسمبلی میں اپنی صفائیاں پیش کر رہے ہیں اپنے دوسال کے ٹیکس بھی پیش کردئیے لیکن اس کے باوجود حزب اختلاف اور عوام انہیں معاف کر نے پر تیار نہیں ۔ روزانہ ان کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں اور لگتا ہے کہ انھیں بھی عنقریب استعفیٰ دینا پڑے گا لیکن ہمارے وزیراعظم اسمبلی میں آنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کر رہے ۔لیکس سے جاتی امراء کے محلات کی دیواریں لرز رہی ہیں لیکن ہمارے ملک کی شان ہی نرالی ہے جنھیںاخلاقی طور پر استعفیٰ دے دینا چاہئے تھا وہ ریٹائرڈ ججوں پر مشتمل کمیشن کی آڑ میں چھپنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن یہاںکی روایت ترقی یافتہ ملکوں سے الگ ہے۔یہاں حکمرانوں کو کان سے پکڑ کر نکالا جاتا ہے یا بندوق کی نوک پر۔اب یہ حکمرانوں کو سوچنا چاہئےکہ انھیں کو ن سی اداپسند ہے!ہاں جمہوریت کے تسلسل کی بات کی جاتی ہے توہم برادرانہ مشورہ دیں گے کہ فورابین الاقوامی شہرت یافتہ فرانزک آڈٹ فرم کے ذریعے ملک اور بیرون ملک اپنے اثاثہ جات کا آڈٹ کرائیں ۔یہی ایک باعزت طریقہ ہے جس میں اپوزیشن استعفیٰ کا مطالبہ بھی نہیں کرے گی۔
بھارت ،نیوزی لینڈ سمیت ان تمام ممالک میں جن کے شہریوں کے نام اس لسٹ میں آئے ہیں ان کی انکوائری کیلئے بڑے پیمانے پر کمیشن بنادیا گیا ہے جو غیر جانبدارانہ تحقیقات کر ے گا ۔جن ممالک کے حکمرانوں کے نام آئے ہیں انھوں نے اخلاقی طور پر استعفے دے دیئے ہیں یا اس کی تیاری کر رہے ہیں لیکن ہمارے ملک میں ریٹائرڈ جج یا ایف آئی اے کے ذریعے تحقیقات کی کو شش کی جارہی ہے۔ کیا حکومت کے ماتحت ادارہ یا رفیق تارڑو ملک قیوم جیسے ریٹائرڈ جج، وزیر اعظم یا ان کے خاندان کی تحقیقات کرسکتے ہیں؟لوگ اب تک سانحہ ماڈل ٹائون نہیں بھولے جب اس وقت کے جوڈیشنل کمیشن کے سر براہ جسٹس باقر نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ وزیر اعلیٰ ہائوس سے چند قدم دور ماڈل ٹائون میں 4 گھنٹے تک آگ اور خون کی ہولی کھیلی جاتی رہی لیکن وزیر اعلیٰ اس سے بے خبر رہے ۔اس رپورٹ کے کچھ حصے منظر عام پر آنے کے بعد خادم اعلیٰ نے خود کواوراپنے وزیروں کو بچانے کیلئے اپنے ماتحت پنجاب پولیس کے افسران پر مشتمل ایک خود ساختہ کمیشن بنا کر سب کو بچا لیا لیکن جسٹس باقر کی رپورٹ آج تک منظرعام پر نہیںآنے دی۔ اب اسی طرح کالنگڑا لولیٰ کمیشن بنا کرمعاملے کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے اسی لئے آج یہ سوال ملک کے ہر با شعور شخص کے ذہن میں اٹھ رہا ہے!آج اپوزیشن کی وہ تمام جماعتیں جو ملک میں ہونے والی کرپشن ولوٹ مار کی شدید مخالف ہیں ان سب کا متفقہ موقف ہے کہ اب ملک میںمزید لوٹ مار نہیں کرنے دی جائے گی خواہ اپنے آپ کو ہی احتساب کیلئے سب سے پہلے پیش کرنا پڑے۔شریف برادران اور ان کے ہمنوائوں کا موقف ہے کہ ہم نے پیپلز پارٹی کی حکومت کو 5 سال پورے کرنے دیئے اور ان کی حکومت گرانے کی کبھی کوشش نہیں کی لندن پہنچتے ہی اپنے محل کے سامنے پریس کانفرنس میں بھی انھوں نے یہی موقف اختیار کیا ۔اگر ان کی بات مان لی جائے توان کا یہ اقدام انتہائی افسوسناک ہے کہ خود ہی الزامات لگاتے تھے پھرکبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے بیٹھ جاتے تھے تاکہ اگلی باری میں انھیں بھی کوئی کچھ نہ کہے؟چھوٹے میاںصاحب پوری الیکشن مہم کے دوران عوامی اجتما عات میں پیٹ پھاڑ کردولت واپس لانے کی قوم کو نوید سناتے رہے لیکن 3 سال سے حکومت میں ہونے کے باوجود اب تک انکو ا ئری کیوں نہیں کرائی اور اگر الزامات غلط تھے تو قوم سے معذ رت کی جائے۔ پاناما لیکس ایک بین الاقوامی دستاویزات ہیں جن سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتالیکن اس پر یہ الزام لگایا جارہا ہے کہ یہ امریکی سازش ہے کیونکہ اس لسٹ میں کسی امریکی کا نام نہیں ہے۔ایسے الزامات لگانے والوں کو شاید یہ معلوم نہیں کہ امریکا اور کینیڈا کے ٹیکس قوانین انتہائی سخت ہیں اور اس کی خلاف ورزی میں ملوث شخص خواہ کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہوکڑے احتساب سے بچ نہیں سکتا ،سزا بھی پائے گا اور بھاری جرمانہ بھی ادا کرے گا ، جبکہ لینن اور مائو کا روس و چین اب سوشلزم کے بجائے سرمایہ دار ملک بن گئے ہیںجس کی خصوصیت ہے کہ اپنے سرمائےکو بچانے کیلئے ملکی قوانین سمیت ہر قانون توڑتا ہے اس کی دھجیاں اڑاتا ہے یہی وجہ ہے کہ سوشلسٹ لینن اورمائو کے خاندان والے آج بھی سفید پوشی کی زندگی گزاررہے ہیںجبکہ موجودہ سرمایہ دار حکمرانوں کے لامحدود سرمائے پاناما لیکس میں شائع ہورہے ہیں۔ہمارے ملک کاقانون ہی نرالہ ہے قوانین موجود ہیں لیکن ایف بی آر سمیت دیگر ادارے ان پر عملدرآمد کیلئے تیار نہیں یا حکومت کے زیر اثر ہے اور حکومتی اراکین کوٹیکس سے بچنے کی ترکیبیں بھی خودہی بتا تے ہیں یہی وجہ ہے کہ اپنے وزیر کے منی لانڈرنگ کے حلفیہ بیان کےباوجود ان کے خلاف کارروائی سے گریزاں ہیں ۔برطانیہ میں ڈیوڈ کیمرون کے والد کی 70سال پرانی آف شور کمپنی کا نام آیا ہے جس سے ان کا کوئی تعلق بھی نہیں پھر بھی روز کڑے امتحان سے گزررہے ہیں۔ اس آف شور کی آمدنی سے کہیں زیادہ خرچ جاتی امراء کے مکینوں اور اس کی تزئین و آرائش پر آتا ہے، لیکن اس کے باوجودکیمرون کوعوام و حزب اختلاف کے شدید دبائو کا سامناہے !جبکہ ہمارے یہاں ایف بی آر،ایف آئی اے اور نیب غیبی امداد کے انتظارمیں بیٹھے ہیں! کیمرون اپنے اوپر لگنے والے الزامات کا خود جواب دے رہے ہیںلیکن ان کی پارٹی خاموش ہے جبکہ یہاں شریف فیملی پر لگنے والے الزامات کا جواب پارٹی دے رہی ہے۔ وزیر اطلاعات نے پہلے اس کا مذاق اڑایااوراب مختلف تو جیحات پیش کررہے ہیں ۔پنجاب کے ایک وزیر نے پہلے اسے پاجامہ لیکس پھر اسے شیطانی لیکس کہا، لیکن وہ بھول گئے کہ یہ کوئی پاکستانی پیپر نہیں ہے اور نہ ہی اس میں صر ف پاکستانیوں کے نام ہیں اس میں خود ہماری پارٹی کے لوگوں کے بھی نام ہیں اسلئے ہم چاہتے ہیں کہ تحقیقات غیرجانبدارانہ اور شفاف ہوں اور ملزمان کو اپنی صفائی کا پورا موقع ملے تاکہ اصل حقائق سے عوام آگاہ ہو سکیں۔اگر اس لیکس میں میرا یا میرے خاندان کے کسی فردکا نام آیاہوتاتو میں پہلے اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دیتا پھر خود کو احتساب کیلئے پیش کردیتا اور یہی کچھ میں سیاستدانوں سمیت تمام افراد اور اداروں سے بھی چاہتا ہوں۔
ایک سال قبل مریم نواز نے ٹی وی پر آکر کہا تھا کہ اندرون اور بیرون ملک ان کی کوئی جائیداد نہیں ہے بیرون ملک ان سمیت بہن بھائیوںاوروالدہ کی کوئی جائیداد نکلیں تووہ سزاکیلئے تیار ہیں۔مختلف ٹی وی چینل کے ریکارڈپریہ موجود ہے۔ لیکن کچھ دن قبل ان کے بھائی حسین نواز نے اپنے دوفلیٹس اورآف شور کمپنی کو تسلیم کیا پھرپاناما لیکس میںبھی آگیا شاید انھیں اسکی بو آگئی تھی۔ان کے بھائی نے پہلے دو فلیٹس کا اقرار کیا لیکن اس کے بعد1992میںجب ان کے والد وزیراعظم تھے لندن میںان کے دوفلیٹس اورنکلے حسب معمول پہلے انکار کیالیکن جب برطانوی پارلیمنٹ کے ممبرلارڈنذیرنے اس کی تصدیق کی تو خاموشی اختیار کرلی۔سوال یہ ہے کہ جب یہ فلیٹس خریدے گئے تھے اس وقت حسین نواز کی عمرصرف17سال تھی اس عمرمیں ان کے اتنے اثاثہ جات کہاںسے آگئے۔اب تو نواز شریف صاحب کے اپنے نام پر فلیٹس اور آف شور کمپنی نکلی ہیں اب حکمران جماعت کیا کہتی ہے۔