• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کو وبائی امراض سے نمٹنے کیلئے تیاری کی ضرورت

کورونا وائرس (کووِڈ19-) سے ایک بار پھر ثابت ہورہا ہے کہ وَبائی امراض اور عالمی وَبائیں انسانی زندگیوں پر تباہ کن اثرات مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ طویل مدتی معاشرتی اور معاشی ترقی کو بھی نشانہ بناتی ہیں۔ کووِڈ19-کے باعث عالمی سطح پر پیدا ہونے والے صحت کے موجودہ بحران نے پہلے سے زیرِدباؤ صحت کے عالمی نظام کی کمر توڑنے، عالمی سپلائی چین کو درہم برہم کرنے اور خواتین و بچوں سمیت تمام لوگوں کی معاشیات کی غیر متناسب تباہی اور غریب ترین اور انتہائی کمزور ممالک کی معیشتوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے کا خطرہ پیدا کردیا ہے۔ حالات بتارہے ہیں کہ یہ تمام خطرات انتہائی حقیقی معلوم ہوتے ہیں۔

ان حالات اور خدشات کے پیشِ نظر، ایک ایسے مضبوط نظامِ صحت کی اشد اور فوری ضرورت ہے، جو کمزور یا نازک حالات سے دوچار افراد کی دسترس میں آسکے۔ بین الاقوامی عدم توجہی کے باعث مستقبل کی عالمی وبائیں، شدت اور گہرائی کے لحاظ سے گزشتہ عالمی وباؤں کو پیچھے چھوڑ سکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین سمجھتے ہیں کہ عالمی وبائی امراض کی مؤثر روک تھام کے لیے مقامی، قومی ، علاقائی اور عالمی سطح پر وبائی امراض سے متعلق معلومات کا تبادلہ، سائنسی علم، معیاری تعلیم اور ایڈووکیسی پروگرام بڑھانے کی بہت ضرورت ہے، تاکہ ان سے بہتر تیاری کے ساتھ نمٹا جاسکے۔

یہ انتہائی اہم ہے کہ عالمی وبائی مرض پر قابو پانے، اس کے نتیجے میں بنیادی خدمات کی فراہمی کو معطل ہونے سے روکنے اور موجودہ وبائی مرض سے نمٹنے کے لیے تیاری کے عمل کے دوران جو سبق سیکھے گئے ہیں، ان کی بنیاد پر، مستقبل میں پھوٹ پڑنے والے کسی بھی عالمی وبائی مرض کے لیے بہتر طور پر تیاری کے لیے کثیرالجہتی نظام کو مضبوط بنایا جائے، وبا کے خلاف اپنائی جانے والی حکمت عملی کو استعمال کرکے بنیادی خدمات کو روکنے کے عمل کو روکا جائے جبکہ وبا کی روک تھام کے لیے کیے جانے والے اقدامات میں اضافہ کرنا بھی ضروری ہے، تاکہ وبا کی جلد سے جلد شناخت اور اس کا حل نکالا جاسکے۔ ساتھ ہی ’’سب کے لیے ایک جیسا نظامِ صحت‘‘ کی اہمیت کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے، جو انسانی صحت ، جانوروں کی صحت اور نباتاتی صحت کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی اور دیگر متعلقہ شعبوں کے انضمام کو فروغ دے سکے۔

عالمی وبائی امراض سے نمٹنے میں کثیرالجہتی سوچ اور بین الاقوامی تعاون اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ہمیں عالمی وبائی امراض کے انتظام کے تمام مراحل میں ہر فرد، برادری، ریاست اور علاقائی و بین الاقوامی تنظیموں کے مابین شراکت اور یکجہتی کی اہمیت کے ساتھ ساتھ اس سلسلے میں صنفی تناظر پر غور کرنے کی اہمیت پر بھی زور دینے کی ضرورت ہے۔

اقوام متحدہ کا نظام، خاص طور پر عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او)، 2030ء کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے اپنے دائرہ اختیار کے مطابق، وبائی امراض کے خلاف رد عمل کو مربوط کرنے اور متعدی بیماریوں اور وبائی امراض کے اثرات کو روکنے ، ان کے خاتمے اور ان سے نمٹنے کے لیے قومی ، علاقائی اور بین الاقوامی کوششوں کی حمایت کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ 

تاہم، حکومتوں کے بنیادی کردار اور ذمہ داری، اور عالمی سطح پر صحت سے متعلق چیلنجوں سے نمٹنے میں متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کی ناگزیر شراکت کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے، خاص طور پر خواتین، جو صحت کے کارکنان کی عالمی افرادی قوت میں اکثریت رکھتی ہیں۔ اقوام متحدہ کے رکن ممالک، وبائی مرض سے سب سے زیادہ متاثر ہونے کے خدشات سے دوچار کمزور طبقات یا نازک صورتِ حال کے شکار افراد پر خصوصی توجہ کے ساتھ ان کی اجتماعی، مساوی اور غیرامتیازی شراکت کو یقینی بنانے کا عزم رکھتے ہیں۔

اسی بات کے پیشِ نظر، گزشتہ سال 27دسمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے تمام رکن ممالک ، اقوام متحدہ کے نظام میں شامل تنظیموں اور دیگر عالمی ، علاقائی اور ذیلی تنظیموں، نجی شعبے اور سول سوسائٹی سمیت غیرسرکاری تنظیموں، تعلیمی اداروں ، افراد اور دیگر متعلقہ شراکت داروں کے ساتھ ’’وباکے خلاف تیاری کا عالمی دن‘‘ بھی منایا گیا اور یہ دن اب ان دنوں کی فہرست میں شامل ہوچکا ہے، جسے اقوامِ متحدہ کے تحت ہر سال عالمی سطح پر منایا جاتا ہے۔

ابتدائی اندازوں کے مطابق، نیاکورونا وائرس دسمبر 2019ء میں چین کے شہر ووہان میں پایا گیا تھا، جو دیکھتے ہی دیکھتے چند ماہ کے اندر پوری دنیا میں پھیل گیا۔ اس کے تیزی سے پھیلنے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 6جنوری 2021تک دنیا بھر میں 8کروڑ 70لاکھ سے زائد افراد کووِڈ 19-پازیٹو قرار پاچکے ہیں، جب کہ اموات کی تعداد 19لاکھ کے قریب ہے۔ خطرناک بات یہ ہے کہ کووِڈ19-کی جاری حالیہ دوسری لہر، پہلی لہر کے مقابلے میں زیادہ جان لیوا ثابت ہورہی ہے ۔

زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ اس وقت جب نئے کورونا وائرس کے خلاف ایک سے زائد ویکسینز بڑے پیمانے پر دنیا کے مختلف ممالک میں عوام کو دی جارہی ہے یا اس کی تیاری کی جارہی ہے، برطانیہ میں اچانک سے کورونا وائرس کی ایک نئی قسم سامنے آگئی ہے۔ کورونا وائرس کی یہ نئی قسم دنیا کے دیگر ممالک میں بھی پھیل رہی ہے۔ نئی اُبھرتی صورتِ حال نے ان ویکسینز کی افادیت پر سوال کھڑے کردیے ہیں اور دنیا کے نارمل حالات کی طرف واپسی کی خواہش پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ ہرچندکہ، طبی ماہرین کا خیال ہے کہ یہ ویکسینز، کورونا وائرس کی نئی قسم پر بھی اتنی ہی مؤثر ثابت ہوں گی۔

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ، دنیا کو ناصرف کوروناوائر س سے نمٹنے کے لیے مزید سنجیدگی دِکھانے کی ضرورت ہے، بلکہ اسے مستقبل میں آنے والے کسی بھی عالمی وبائی مرض کے خلاف ابھی سے تیاری شروع کردینی چاہیے، کیونکہ کوئی نہیں جانتا کہ اگلا عالمی وَبائی مرض دنیا کو کب اپنی لپیٹ میں لے لے گا، جس کی نشاندہی کئی ماہرین پہلے سے ہی کرچکے ہیں۔

ایسے میں دنیا، عالم ِ اقوام کی بہتری میں سب سے اہم، ضروری اور بنیادی کام یہ کرسکتی ہے کہ وہ ایک ایسا عالمی نظام صحت قائم کرے، جس تک ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کو رسائی حاصل ہو اور کسی بھی طبی ایمرجنسی کی صورت میں اسے صحت کی سہولیات سے محروم نہ رہنا پڑے۔

تازہ ترین