ستم انتہا کا تھا چنانچہ صدمہ بھی شدید تر ہے، ملک بھر میں فضا سوگوار ہے اور احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری۔ ہزارہ برادری مسلسل 5ویں روز کوئٹہ میں درجہ حرارت کے نقطہ انجماد سے نیچےگرنے کے باوجود خواتین اور بچوں سمیت سانحہ مچھ کے مقتولین کی میتیں کھلے آسمان تلے رکھے سراپا احتجاج ہے۔ اُن کے اِس مطالبے پر کہ جب تک وزیراعظم خود نہیں آتے میتیں نہیں دفنائیں گے، وزیراعظم نے یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ میتیں دفن کریں، جلد دورہ کروں گا۔ دوسری جانب اپوزیشن رہنما بلاول بھٹو، مریم نواز اور مولانا غفور حیدری اپنے وفود کے ہمراہ ہزارہ برادری سے تعزیت اور اظہار یکجہتی کیلئے کوئٹہ پہنچے۔ دورے سے قبل مریم نواز نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ہزارہ برادری کو مخاطب کر کے کہا کہ ’’پوری قوم آپ کے غم میں شریک ہے‘‘۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ وزیراعظم عمران خان ہزارہ برادری سے اظہار یکجہتی کے لئے بہت جلد کوئٹہ کا دورہ کریں گے۔ بلوچستان کے دارلحکومت میں مقیم ہزارہ برادری عرصہ دراز سے ملک دشمن، انتہا پسند عناصر کے ظلم کا نشانہ بنتی آرہی ہے، اِس میں غیرملکی ہاتھ اب کسی سے پوشیدہ نہیں رہا، تاہم سرِدست جو سیاسی صورتحال ہے وہ قبل ازیں کبھی نہ تھی، کوئی شک نہیں کہ وزیراعظم کو متاثرین کے دکھ درد میں فوری طور پر شریک ہونا چاہئے تھا، نجانے وہ کن وجوہ کی بنیاد پر ایسا نہ کر سکے، البتہ اُنہوں نے حکومتی نمائندوں کو ضرور بھیجا لیکن بات بن نہ سکی۔ اِس دوران اپوزیشن رہنمائوں نے اعلان کردیا کہ وہ کوئٹہ جائیں گے، یہ اچھا اقدام ہے اور کسی کی نیت پر شک کرنا بھی روا نہیں تاہم اِس پر پوائنٹ اسکورنگ کا الزام بھی عائد کیا جا رہا ہے۔ موجودہ حالات اِس امر کے متقاضی ہیں کہ تعمیری تنقید کے ساتھ اچھی مشاورت کی راہ اپناتے ہوئے، دہشت گردی سمیت ملک کو درپیش دیگر چیلنجز کا مقابلہ کیا جائے۔ حکومت اور اپوزیشن باہمی تنائو کا خاتمہ کرکے پارلیمنٹ کے ذریعے معاملات کے مستقل حل کی سعی کریں۔