• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کہا جاتا ہے کیا نہیں جاتا

مؤکلات کا کہنا ہے کابینہ اجلاس میں یہی کھسر پھسر ہوتی رہتی ہے کہ اعلان کر دیتے ہیں، کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ مسائل زندہ تو حل کرنے والے زندہ بلکہ پائندہ، اسی لئے اس پر ہی یہ اٹھک بیٹھک ختم کر دیتے ہیں کہ قائد اعظم زندہ باد، نیا پاکستان پائندہ باد۔ احتساب کے لئے ضمیر ہی کافی ہوتا ہے مگر اسے فوت ہوئے بھی ایک زمانہ بیت چکا ہے یہی وجہ ہے کہ 72برس سے اداروں پر ادارے بنائے جا رہے ہیں تاکہ حکمرانوں کے علاوہ جو بھی خوردبرد کرے اس کو ’’انے وا‘‘ پہلے پنجرے میں بند کیا جائے پھر تحقیق کی جائے کہ الزام کو جرم میں کیسے تبدیل کیا جائے۔ یہ طریقہ تو رومن ایمپائر کے ظالمانہ نظام میں بھی رائج نہیں تھا، سچ بات ہے کہ جب سپریم کورٹ کے یہ ریمارکس پڑھے کہ نیب سب ملزموں سے یکساں سلوک کرے، حمزہ شہباز کیس کے میرٹ پر حقائق شرمناک ہیں تو اس جملے کا مصنف بہت یاد آیا ’’کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے‘‘۔ خیر سے یہ بھی جرم ثابت ہونے سے پہلے پابند سلاسل ہیں، اس ملک پر ڈاکہ تو پڑا ہے مگر آج تک ثابت نہیں ہو سکا اور اگر اکا دکا ثابت بھی ہوا تو چوری کا مال برآمد نہیں ہوا۔ وزیراعلیٰ پنجاب کا تازہ فرمان ہے اڑھائی برس، زیرو سکینڈل، اس سے زیادہ شفافیت کیا ہو گی۔ کاش کہ یہ بات عوام کرتے تو ہم ان کو سلام کرتے۔ فارسی مقولہ ہے ’’مشک آنست کہ خود بیوید نہ کہ عطار بگوید‘‘ (خوشبو وہ جو خود آپ اپنا تعارف ہو عطر فروش اس بارے کچھ نہ بولے) تفتیش و تحقیق کے کتنے ہی ادارے اس غریب قوم کے ٹیکسوں پر پل رہے ہیں، کارکردگی یہ کہ وسائل سے بڑھ کر زندگی گزار رہے ہیں، ایک بڑی خبر یہ ہے کہ حکومت سے مذاکرات کامیاب، تدفین ہو چکی۔ وزیراعظم نے یہ بھی فرمایا ہزارہ برادری کے تمام مطالبات تسلیم کر چکے بلیک میل نہیں ہو سکتا، نقطۂ انجماد پر لاشیں سڑک پر رکھ کر لواحقین وزیراعظم کے منتظر رہے، کیا یہ بلیک میلنگ ہے؟ بڑے سچ کہتے تھے پہلے تولو پھر بولو۔

٭ ٭ ٭ ٭ ٭

اشیائے خوردنی کی فریاد

ادارئہ شماریات نے کہا ہے:چکن، پیاز، آلو، ٹماٹر اور آٹے کی قیمتوں میں کمی، 22اشیاء مہنگی۔ جب کھانے کی چیزیں خود بول پڑیں کہ قیمتوں میں کمی نہیں آئی، خریداروں سے پوچھ کر دیکھ لو، حکومت جو ریٹ لسٹ دیتی ہے وہ تو جاری ہوتی ہے مزید گرانی کے لئے، یہ جو گھر گھر جھگڑے ہوتے ہیں اور باپ اپنے بیوی بچے مار دیتا ہے یہ اسی قیمتوں میں ’’کمی‘‘ ہی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ محرومی انسان کو کفر سے ملا سکتی ہے تو کیا خودکشی نہیں کرا سکتی۔ اشرافیہ یعنی امیر کبیر لوگوں کے ہاں ایسے جھگڑے نہیں ہوتے، اور ہمارے نیرو بھی اسی لئے روم جلنے پر بانسری بجاتے ہیں، سابقہ اور لاحقہ تمام حکمران گیس، بجلی، پانی کی شکایت نہیں کرتے بلکہ کہتے ہیں ’’نرخ بالاکن کہ ارزانی ہنوز‘‘ (قیمت اور بڑھائو کہ اب بھی سستا ہے) فون پر ایک سفید پوش خاتون نے فرمائش کی کہ بھائی صاحب اپنے کالم میں ہو سکے تو یہ بھی لکھ دینا کہ ’’میں ایک بڑے سٹور میں ونڈو شاپنگ کیلئے داخل ہوئی، ایک لہری دوپٹہ دل کو بھا گیا، پوچھا بھائی اس کی کیا قیمت ہے، سیلز مین نے کہا آپ نے خریدنا ہے، میں نے کہا صرف قیمت پوچھی ہے، سیلز مین بولا جب خریدنا ہو گا تب قیمت بھی بتا دوں گا۔‘‘ یہ ہے وہ اخلاقیات جو امیری اور غریبی پیدا کرتی ہے۔ اخلاق اچھا ہو تو خواتین کی عزت کرنے کا دعویٰ کیا جائے، ورنہ یوں بل پاس کر کے عملدرآمد نہ کر کے زخموں پر نمک نہ چھڑکا جائے۔ اب بھی کچھ اچھا کر دیں کہ دل کے پاس پاسبان عقل بیٹھا ہے، اگر تنہا ہو گیا تو نہ بانس رہے گا نہ بانسری۔

٭ ٭ ٭ ٭ ٭

امریکہ، پاکستان ہو گیا

امریکی کانگریس پر ٹرمپ کے حامیوں نے دھاوا بول دیا، ڈیمو کریٹس نے اسے امریکا کی تاریخ کا سیاہ ترین دن قرار دیا۔ گلوب پر جتنے خربوزے رہتے ہیں اکثر ایک دوسرے سے رنگ پکڑتے ہیں، اب تو یہ عمل خاصا تیز ہو چکا ہے کہیں سورج مغرب سے تو نہیں طلوع ہونے والا، اور یہ کرونا جو گرگٹ کی طرح رنگ بدل بدل کر انسانیت کا ہولوکاسٹ کر رہا ہے کہیں داورِ محشر کا ایلچی تو نہیں؟ اگر امریکا، پاکستان ہو گیا ہے تو ہم نیا پاکستان بنا کر بال بال بچ گئے، اس آسمانی وبا نے مغربی ملکوں میں تو موت کا رقص بپا کر رکھا ہے مگر ہمارے حکمرانوں کے لئے نیک فال ثابت ہوا ہے۔ اڑھائی برس سوچ بچار کی نذر ہو گئے، باقی اڑھائی برس بھی سمجھو کالے چور لے گئے کیونکہ حکمران خوش قسمت ہیں اور مائل بہ تصوف بھی۔ اسی لئے دنیا پرستی سے گریز کا سبق دیتے ہوئے فرماتے ہیں ؎

بہتر تو ہے یہی کہ نہ دنیا سے دل لگے

پر کیا کریں جو کام نہ بے دل لگی چلے

٭ ٭ ٭ ٭ ٭

مائنڈ مت کیجئے!

٭ شبلی فراز:کسی بھی ملک کی ترقی اس کے ورثہ کی قدر میں پوشیدہ ہے۔

ورثہ کی قدر اس سے بڑھ کر کیا ہو گی کہ شبلی کے ساتھ فراز کا نام لگا ہوا ہے۔ 

٭ مافیا کی ملی بھگت، یوٹیلیٹی سٹورز سے گھی بھی غائب۔

کیا یہ یوٹیلیٹی سٹورز غائب نہیں کئے جا سکتے بھلا اسی میں ہے کہ کچھ تو بوجھ ہلکا ہو تاکہ نیّا پار لگے، کسی نے کہا ہے ؎ جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں۔

تازہ ترین