• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکن مر رہے ہیں۔ کوئی دن نہیں جاتا جب پی پی پی کے کسی کارکن کے اس دنیا سے رخصت ہونے کی خبر سویرے سویرے سوشل میڈیا پر گردش شروع نہ کر دے۔ لاہور میں ایک دوست کا روزانہ کا فیس بک بلیٹن گویا ایک مستقل کتبے کی شکل اختیار کر گیا ہے جس پر جانے والے کا نام ،عمر اور کبھی کبھار جنس تبدیل ہوتی رہتی ہے مگر پارٹی Affiliation یا وابستگی بدستوربیان کی جاتی ہے۔ ظاہر ہے موصوف پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ بھی ظاہر ہے کہ مروت کے مارے ہم جیسے ایک بار کے تعارف کے بعد انھیں دوستوں کی فہرست سے خارج کرنا گناہ سمجھتے ہیں۔ تو بس بہت سی دوسری وفاداریوں اور پرانی رفاقتوں کی طرح چل رہی ہیں یہ تعزیتیں ان پرانے سیاسی کارکنوں کی جن میں بہت سے ناموں سے ہم زیادہ اور بہت سوں سے کم واقف ہیں۔ ان میں سے ماضی کے بہت سے نامور جیالے اب شاید فیس بک کے ذریعے ہی ایک دوسرے سے رابطے میں ہیں۔

پی پی پی کے اس چھوٹے سے جلوس کی راقم الحروف کے سوشل میڈیا نیٹ ورک پہ اس پیش قدمی کے پیچھے کیا عوامل ہو سکتے ہیں؟ ایک وجہ تو شاید یہ ہے کہ اس نایاب ہوتی ہوئی جنس کا ایک غول کسی ایک انجن کے پیچھے چپک کے کسی نہ کسی بہانے اپنے ہونے ( یا نہ ہونے) کا احساس ہمیں دلاتا رہتا ہے۔ آپ سب کرم فرما یہ تو جانتے ہی ہیں کہ یہ وہ پیپلز پارٹی نہیں ہے جسے اپوزیشن میں محض ایک ’’انتقال‘‘ سے غرض ہوا کرتی تھی یعنی اقتدار کی عوام کے’’ اصل نمائندوں‘‘ کومنتقلی۔ بہت برسوں سے موت اس پارٹی کی زندگی میں ایک بڑی تقریب ہے۔ اللہ انہیں سلامت رکھے،ایک عادت سی ہوگئی ہے مرثیہ گوئی کی اس پارٹی کے کارکنوں کو۔ جیسا کہ یہ دنیاوی زندگی کی طرح سیاسی جدوجہد کی بھی منزل ہو۔ایک اور وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ فیس بک پہ میرےجتنے سیاسی کارکن دوست ہیں، ان میں شاید پی پی پی کے جیالوں کی ایک بہت بڑی تعداد عمر کی اس بریکٹ میں ہے یا وہ اپنی زندگی میں اتنی شکست و ریخت دیکھ چکے ہیں کہ کوئی بھی غیر معمولی حالات جیسا کہ کوئی بیماری کی وبا ان پہ زیادہ نظر انداز ہوتی ہے۔

ہم جذ بات میں صرف یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ پی پی پی چونکہ اس ملک کی آخری سیاسی جماعت تھی اور اس کے بعد بس چھوٹے بڑے اقتدار پسند ٹولے ہی اس ملک کو نصیب ہوئے، اس لئے ظاہر ہے کہ کارکن تو صرف پی پی پی کا ہی مرے گا۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ جس رومانوی دور سے چیئرمین بھٹو اور بی بی شہید کی باقی ماندہ جماعت ایک عرصے سے گزر رہی ہے، اس کو دیکھتے ہوئے پارٹی کے احیا کی خواہش رکھتے ہوئے نیم خوابیدہ بوڑھے جیالے اپنے لئے نایاب کا خطاب پسند کریں گے۔ پیپلز پارٹی کے کارکن مر کر خبر بن رہے ہیں کیونکہ وہ نایاب یا معدوم ہوتی ہوئی ایک انسانی قسم سے تعلق رکھتے ہیں۔ان کی تیزی سے گھٹتی ہوئی تعداد میں بہر حال خبریت تو ہے۔ کسی اور وقت، کسی اور بڑے چیلنج کے سامنے شاید یہ بھی کہا جا سکتا تھا کہ اس ’’کرپٹ ترین‘‘ جماعت کے کارکنوں کی شکلوں پہ، ان کے جسموں پہ بیک وقت جسمانی اور معاشی کمزوری کے اثرات اس قدر زیادہ ہیں کہ یہ پچھڑے ہوئے لوگ بیماری اور دیگر مشکلات کا نسبتاً بہت آسان شکار نظر آتے ہیں۔راقم شاید اس پہلو پہ مزید زور دیتا اگر اس کے سامنے کووڈ وائرس سے انتہائی بہادری سے نبردآزما زوار کامریڈ کی کہانی نہ ہوتی۔ میری نظر میں اپنی بیماری کے ہر Phase کو کسی قدر تفصیل سے اس انداز میں ریکارڈ پہ لانے والےپیپلز پارٹی سے منسلک یہ صحافی ہمارے لئے لڑنے کی، ہار نہ ماننے کی ایک بہت بڑی مثال ہیں۔بیماری سے کامریڈ کی جنگ ایک پوری فلم کی طرح ان کے فیس بک اکاؤنٹ سے نشر ہورہی ہے۔اتار چڑھاؤ سےبھری یہ کووڈ کہانی یقیناً ایک ’’فیچر فلم‘‘ کا موضوع ہے۔ کامریڈ اس وقت لاہور کے ایک اسپتال میں زیر علاج ہیں اور پیپلز پارٹی سے اپنیوابستگی کو اپنی اولوالعزمی کے پیچھے ایک بہت بڑی وجہ سمجھتے ہیں۔ان کی کوئی پوسٹ ایسی نہیں ہے جس میں ان کے ساتھیوں اور پارٹی کا ذکر نہ ہو۔وبا کے دنوں میں اور نظریہ سے خالی اس دور میں کم ازکم میرے جیسے کمزور ایمان والے شخص کو تو کامریڈ ایک دیو مالائی کردار لگتے ہیں۔ خدا انہیں اپنے حفظ و امان میں رکھے۔

یہ اثاثہ ابھی تک ایک ایسی پارٹی کے پاس موجود ہے جو بظاہر ملک کے ایک خاص علاقے کے سوا عوام کی زندگی میں عمل دخل کا حق کھو چکی ہے۔ لاہور میں یہ گنے چنے لوگ جو پاکستان پیپلز پارٹی کا آخری نشان ہیں ، کئی پرانے نام اب بھی ہیں جو خاص مواقع پہ نظر آتے ہیں اور پھر ہجوم میں غائب ہو جاتے ہیں۔ کوششیں شاید ہوتی رہی ہیں مگر اس بیج سے اگلی فصل کی تیاری میں ایک پوری نئی آئیڈیالوجی مانع ہے جو آصف زرداری سے ہوتی ہوئی بلاول بھٹو زرداری کو اپنی گرفت میں لینے پہ بضد ہے۔ ایک پارٹی مر چکی ہے۔ یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس سے وابستہ لوگ اب پارٹی جلسوں میں مصروف ہونے کی بجائے خوشی وغمی کی محفلوں تک ہی کیوں محدود نظر آتے ہیں۔

تقریب کچھ تو پہر ملاقات چاہئے۔ اور یہ ودائیاں، یہ برسیاں، یہ شہیدوں کی سالگرہ کی تقریبات پیپلز پارٹی اور اس کے نا قابلِ تسخیر اور تبدیلی سے گتھم گتھا جیالوں کی روحوں میں سرایت کر گئی ہیں۔ یہ ایک تشویشناک بات ہے۔ جیسے پورا دربار بادشاہوں کے فکرو عمل سے، شاہی خاندان کی نشست برخاست سے اپنے آداب، اپنی عادات و اطوار کشید کیا کرتا تھا، کہیں جیالا بھی تومزار پہ اپنی قیادت کا مسلسل جاری دھمال کےچکر میں تو نہیں پھنس گیا؟ یہ دھمال، شہیدوں کو نظرثانی کی یہ گردان، کافی نہیں ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین