وادی سندھ لہلہاتے کھیتوں، کچی پکی پگڈنڈیوں، چٹیل میدانوں، بہتے جھرنوں، گنگناتےشیر دل دریائے سندھ، رتیلے ٹیلوں، جھیلوں، بلند وبالا پہاڑوں اور قدرتی حسن سے مزین سرزمین، جہاں علی الصباح زندگی بیدار ہوتی ہے۔ انہی پہاڑوں اور میدانی علاقوں پر مشتمل خطے کو سندھ کا کوہستان (یعنی پہاڑوں کی سرزمین) کہا جاتا ہے۔ بہ ظاہر تو یہ خطہ محض پہاڑوں کا لامتناہی سلسلہ دکھائی دیتا ہے مگر اس خطے کی خصوصیت اور انفرادیت یہ ہے کہ یہاں چرند، پرند، حشرات الارض اور انسان، سب ہی نہ صرف ایک ساتھ رہتے ہیں بلکہ اپنے اپنے قوانین کی پاسداری بھی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ کا کوہستانی علاقہ قدیم ثقافتی، تہذیبی، قبائلی، امن و امان کی داستانوں سمیت محبت کے قصے کہانیوں کامرکز رہاہے۔
اس خطے کو دیکھنے کا اشتیاق سیاحوں کے دلوںمیں نئی ترنگ بخشتا ہے۔ یہ کوہستانی علاقہ دنیا بھر میں نیشنل کیرتھر پارک کے نام سے معروف ہے۔ 1974ء میں قائم ہونے والا یہ ہنگول نیشنل پارک کے بعد پاکستان کا دوسرا قدرتی پارک ہے،جو 3؍ ہزار 87؍ کلومیٹر رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ کیرتھر پہاڑی سلسلے کا پہلا حصہ 11؍ سو 29؍ مربع میل اور ان پہاڑوں کی سب سے اونچی چوٹی 8؍ ہزار فٹ بلند ہے۔ اس پہاڑی سلسلے کے شمال میں تاریخی اور انسانی ہاتھوں کا تعمیر کردہ رنی کوٹ قلعہ بھی واقع ہے، جسے ’’دیوار سندھ‘‘ کہا جاتا ہے۔ رنی کوٹ قلعہ سندھ کے قوم پرست رہنما اور سابق وزیر تعلیم جی ایم سید کے آبائی گائوں ’’سن‘‘ سے 30؍ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ پارک کی جنوبی سمت بلوچستان کا علاقہ حب، مشرق میں شکار کی رکھ، سمبگ، سورجانو، اری اور ہوگیانوں کے علاقے، جب کہ مغرب میں لسبیلہ اور خضدار کے ویران علاقے واقع ہیں۔
1997ء کے بعد کئے جانے والے سروے کے اعداد و شمار کے مطابق اس پارک میں 22؍ ہزار خاندانوں پر مشتمل 118؍ مستقل گائوں تھے، بعد ازاں کراچی کے علاقے ملیر کے 70؍ ہزار گھر بھی اسی پارک کی آبادی میں شامل کردیے گئے۔
کہا جاتا ہے کہ لاکھوں سال پہلے یہ کوہستانی خطہ سمندر کے نیچے تھا، مگر پھر موسمی تغیرات کے سبب سمندر سیکڑوں کلومیٹر پیچھے ہٹ گیا تو یہ خوب صورت اور پرسکون علاقہ دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ بعد ازاں اس خطے میں زندگی نمودار ہوئی اور لوگوں نے اسے رہائش کا مستقل ٹھکانہ بنالیا۔ سندھ کے اس طویل پہاڑی سلسلے میں ہزاروں سال قدیم زندگی کے آثار کے علاوہ معدوم نسل کے جانوروں کے فوسلز بھی پائے جاتے ہیں۔ تنگ دہانے والے غاروں کے علاوہ پرانی بستیوں میں سیاحوں کی دل چسپی قابل دید ہوتی ہے۔
ان بستیوں میں کوہستان کا کرچاٹ، بچانی، بالی تھاپ، کیر اور ’’تنگ‘‘ خاصے مشہور ہیں۔ 1926ء کے میں آثار قدیمہ کے ماہرایم، این، جے موجمدار نے کنبوہ، بدھار، بھٹ کے درمیانی علاقے (جسے گاج کابند) میں واقع ایک پہاڑی سلسلے میں ’’کوہ تراش‘‘ نامی علاقہ دریافت کیا تھا، جو موئن جو دڑو اور ہڑپہ کی قدیم تہذیب سے بھی دو ہزار سال پرانا بتایا جاتا ہے۔ محققین کےمطابق ان علاقوں کے باشندوں کی قدیم نسلیں آج ملیر کراچی کے علاقے میمن گوٹھ، چوکنڈی اور منگھوپیر کے علاقوں میں آباد ہیں۔
کیرتھر نیشنل پارک میں کوئی سرکاری یا نجی مسافر ٹرانسپورٹ نہیں چلتی، لیکن اس پارک کی سیر اورسفاری ایریا میں جانوروں کو قریب سے دیکھنے کے علاوہ قدرتی ماحول کی رنگینیوں سے لطف اندوز ہونے کے لئے 4x4 گاڑی درکار ہوتی ہے۔ ان بلند وبالا پہاڑوں کے درمیان راستہ بھٹکنے کا خدشہ رہتا ہے اور دوبارہ اپنی منزل یا ٹھکانے تک پہنچنا انتہائی جان جوکھوں کا کام ہوتا ہے۔
اس سفر کے لیےایک ہزار سے 3؍ ہزار روپے کے معاوضے پرکسی گائیڈ کی خدمات حاصل کرلی جائے تو سیاح دوران سفر پریشانی سے بچ سکتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے نیشنل کیرتھر پارک کے باشندوں یا محکمہ جنگلی حیات سندھ کے عملے کی بھی خدمات حاصل کی جاسکتی ہے۔نیشنل کیرتھر پارک میں داخلے کی کوئی فیس نہیں ہے لیکن محکمہ جنگلی حیات حکومت سندھ کراچی/حیدرآباد کے دفتر سے ایک تحریری درخواست کے ذریعے اجازت نامہ با آسانی حاصل کیا جاسکتا ہے جو اس کی سیر کے لیے انتہائی ضروری ہوتا ہے۔
اگر کیرتھر نیشنل پارک کی سمت سفر کیا جائے توخوب صورت اور پرسکون گائوں ’’تونگ ‘‘ سیاحوں کے لئے اپنے بازو وا کئے ہوئے ہے۔ یہ پارک کا قدیم گائوں ہے جس میں کولہی، شورو، گبول، جمالی، چانڈیو، ملک و دیگر برادری کے باشندے آباد ہیں۔ یہاں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے ۔ ایک چھوٹی سی مسجد ہے جس میں نماز عیدین کے علاوہ نماز پنجگانہ با جماعت ادا کی جاتی ہے۔ زندگی کی روزمرہ ضرورتوں کے لئے گائوں ’’تونگ‘‘ میں پرچون کی دکان ہے، جس کا سامان دکان کا مالک حیدرآباد سے خرید کر لاتا ہے۔ اس گائوں کی مجموعی آبادی 10؍ ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔
تونگ گائوں مختلف بادشاہوں کا بھی مسکن رہا ہے، جس میں سمہ، ارغون، ترخان، مغل، کلہوڑو اور تالپور حکمراں شامل ہیں۔ جام لوہارکا نام آج بھی مقبول ہےاور اس کے نام کا سکہ آج بھی معروف ہے۔ تقریباً 6؍سو سال گزرجانے کے باوجود اس علاقے سے پرانے سکے، ظروف و دیگر اشیاء اب بھی بارشوں کے دنوں میں ملتے ہیں۔
تونگ کے قریب قبرستان بھی ہیں جو تقریباً ایک صدی پرانے ہیں۔ ان میں اتفاق وارو، بوشین کا مقام، پرانا محمود جو کوٹ اور تنگ قبرستان واقع ہے۔ علاقے کے باشندوں کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں بدھ مذہب سے تعلق رکھنے والے تونگر رائے نامی بادشاہ کا خزانہ بھی دفن ہے اور تونگ اسی بادشاہ کے نام سے منسوب ہے۔ اس بستی میں ہر طرح کے قدرتی مناظر موجود ہیں،کہیں سبزے کی چادر اوڑھے پہاڑیاں، کہیں بہتی ندیاں، کہیں جھرنے، کہیں سیاحوں کو تلاش کرتی ہرنوں کی غزالی آنکھیں، کہیں خوف زدہ کردینےوالا ماحول نظر آتا ہے۔
1941ء میں ایچ ٹی لمبرگ، 1981ء کے دوران لوئس فلیم اور 1997ء میں ان کی ٹیم نے ملبورن کی ٹیم کےساتھ دورہ کیا اورا نہوں نے مشترکہ طور پر تونگ میں آبادی، کیرتھر پہاڑی سلسلے اور قدیم قبرستان پر مشتمل ایک رپورٹ مرتب کی تھی جس میں انہوں نے لکھا کہ ’’تونگ کے مکینوں کی زندگی کا انحصار بارش، گاج اور باران جیسی صاف پانی کی ندیوں پر منحصرہے‘۔‘ آثار قدیمہ کے ماہرین کے مطابق تونگ کے قریب بارش کےپانی کو زراعت و دیگر کاموںکے لئے استعمال کرنےکے لئے قدیم دورمیں تعمیر کیا جانے والا ’’کبر بند‘‘ موجودہ دور میں بھی اپنی افادیت قائم رکھے ہوئے ہے۔ اس بستی کے لوگ انتہائی جفاکش ہیں۔
زراعت ان کا پسندیدہ ذریعہ معاش ہے، لیکن مویشیوں کی افزائش اور دیکھ بھال میں بھی خصوصی دل چسپی رکھتے ہیں۔ مہمان نوازی ان کی سرشت میں شامل ہے۔ جب کہ پرندوں کے شکار کو معیوب سمجھتے ہیں۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اس علاقے میں چیتے بھی موجود تھے، لیکن شکاریوںکے ہاتھوں ان کی نسل معدوم ہوتی گئی۔ پارک کا آخری چیتا1977ء میں شکاریوں نے شکار کیا تھا۔ تونگ بستی کے گرد خاردار درختوں اور جھاڑیوں کی بھرمار ہے۔
یہاں املتاس، کیکر، قیمتی و نایاب جڑی بوٹیوں، جنگلی پودے عام ملتے ہیں۔ فاختاؤں، بلبل، عقاب سمیت 276 مختلف نسل کے پرندے بہ کثرت پائے جاتے ہیں۔ اس پارک میں امریکا کی ریاست ٹیکساس کی جانب سے تحفے میں دیئے گئے پہاڑی بکروں کی نسل اٹھکیلیاں کرتی دکھائی دیتی ہے۔
تونگ بستی میں واقع 59؍ مربع میل پر محیط شفاف پانی کی’’ تیکھوباران جھیل‘‘ کیرتھر نیشنل پارک کا دل ہے۔ سیاح اس کے کنارے کھڑے ہوکر مہاشیرمچھلی کو شفاف پانی کی تہہ میں تیرتا دیکھ کر لطف اندوز ہوتے ہیںلیکن اس کا شکار کرنا ممنوع ہے۔
قدرتی حسن اور جنگلی حیات کے حامل اس علاقے کو 1972ء میں حکومت سندھ نے بھرپور توجہ دی ،بالآخر 1975ء کے دوران اقوام متحدہ نے اسے دنیا کے قدرتی پارک کی فہرست میں شامل کرلیا۔ بعد ازاں پارک کے علاقے کھار اور کرچھاٹ کو خصوصی طور پر ترقی دی گئی اور سیاحوں کے لئے 7؍ کمروں، اسٹینڈ بائی جنریٹر، صاف پانی اور آرام دہ فرنیچر، پر مشتمل ریسٹ ہائوس بھی تعمیر کیا گیا جس کا کرایہ سیاح باآسانی ادا کرسکتے ہیں ۔
موسم سرما کی سرد راتوں میں سیاح ان پہاڑوں کے دامن میں سندھ کی قدیم ثقافتی ’’مچھ کچہری‘‘ منعقد کرتے ہیں جس میں مقامی ہی نہیں، کوہستانی خطےکے مختلف علاقوں کے دانش ور، فن کار ان لمحات کو یادگار بناتے ہیں۔ اگر آپ مہم جو اور فطری حسن دیکھنے کے دلدادہ ہیں تو قدیم بستی ’’تونگ‘‘ سمیت نیشنل کیرتھر پارک آپ کا منتظر ہے۔