• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی

سورۃ الاخلاص کا آسان ترجمہ: اے محمدﷺ! کہہ دو کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے۔ اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے، یعنی سب اس کے محتاج ہیں، وہ کسی کا محتاج نہیں۔ نہ اس کی کوئی اولاد ہے، اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور اس کے جوڑ کا کوئی بھی نہیں، یعنی اس جیسا کوئی بھی نہیں ہے، کیونکہ وہی خالق حقیقی ومعبود حقیقی ہے ،باقی کائنات کا ذرہ ذرہ اس کی مخلوق ہے۔

شانِ نزول: اس سورت کے مکی یا مدنی ہونے میں اختلاف ہے۔ بعض احادیث میں مذکور ہے کہ مشرکین مکہ نے رسول اللہ ﷺ سے کہا اپنے رب کا نسب ہمیں بیان کیجئے۔ اس پر یہ سورت نازل ہوئی۔ بعض روایات میں ہے کہ یہودیوں کے ایک گروہ نے حضور اکرم ﷺ سے کہا کہ اپنے رب کے متعلق بتائیں کہ وہ رب کیسا ہے، جس نے آپ کو بھیجا ہے۔ 

اس پر یہ سورت نازل ہوئی۔ غرضیکہ مختلف مواقع پر حضور اکرم ﷺ سے معبودحقیقی اللہ تعالیٰ کے متعلق سوال کیا گیا جس کی عبادت کی طرف آپﷺ لوگوں کو دعوت دے رہے تھے۔ ہر موقع پر آپ ﷺ نے اللہ کے حکم سے ان کے جواب میں یہی سورت سنائی تھی۔ البتہ سب سے پہلے یہ سوال مشرکین مکہ نے کیا تھا، اور ان کے جواب میں ہی یہ سورت (سورۃ الاخلاص) نازل ہوئی تھی۔

خلاصۂ تفسیر:اس سورت کی ان چار مختصر آیات میں اللہ تعالیٰ کی توحید کو انتہائی جامع انداز میں بیان فرمایا گیاہے۔ پہلی آیت (قُلْ ہُوَ اللہُ اَحَدٌ) میں اُن لوگوں کی تردید ہے جو ایک سے زیادہ معبودوں کے قائل ہیں۔ دوسری آیت (اللہُ الصَّمَدُ) میں اُن لوگوں کی تردید ہے جو اللہ تعالیٰ کو ماننے کے باوجود کسی اور کو اپنا مشکل کشا اور حاجت روا تسلیم کرتے ہیں۔

تیسری آیت (لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ) میں اُن لوگوں کی تردید ہے جو فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں کہتے تھے، یا حضرت عیسیٰ یا حضرت عزیر علیہما السلام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دیتے تھے۔ اور چوتھی آیت (وَلَمْ یَکُن لَّہُ کُفُواً اَحَدٌ) میں اُن لوگوں کی تردید ہے جو اللہ تعالیٰ کی کسی بھی صفت میں کسی اور کی برابری کے قائل ہیں۔ اس طرح مختصر سی سورت نے شرک کی تمام صورتوں کو باطل قرار دے کر خالص توحید ثابت کی ہے۔ اسی لئے اس سورت کو سورۃ الاخلاص کہا جاتا ہے۔

سورۃ الاخلاص میں مکمل توحید اور ہر طرح کے شرک سے نفی ہے: اس سورت میں ہر طرح کے مشرکانہ خیالات کی نفی کرکے مکمل توحید کا سبق دیا گیا ہے کہ اللہ ہی ساری کائنات کا خالق، مالک اور رازق ہے۔ وہی حقیقی بادشاہ ہے، وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اسے اونگھ بھی نہیں آتی ہے۔ وہ نہ کبھی سوتا ہے، نہ کھاتا ہے اور نہ وہ پیتا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اگر کائنات میں دو رب ہوتے تو دونوں کا آپس میں اختلاف ہونے کی وجہ سے دنیا کا نظام کب کا درہم برہم ہوگیا ہوتا۔ وہ انسان کی شہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔ وہ ہر شخص کے ہر عمل سے پوری طرح واقف ہے۔ 

وہ پروردگارکائنات کے ذرے ذرے کا علم رکھتا ہے۔ نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور نہ کوئی اس کی اولاد ہے، بلکہ سب اس کی مخلوق ہیں۔انسان، جن، چرند، پرند، درند سب اس کے محتاج ہیں، وہ کسی کا محتاج نہیں ہے۔ وہ سب کے بغیر سب کچھ کرنے والا ہے،اور پوری کائنات مل کر بھی اس کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں کرسکتی۔ حاجت روا، مشکل کشا اور مسائل کا حل کرنے والی ذات صرف اور صرف اللہ کی ہے۔ وہی مرض اور شفاد ینے والا ہے۔ وہی عزت وذلت دینے والا ہے۔ وہی زندگی اور موت دینے والا ہے۔ اسی نے زندگی اور موت کو بنایا ہے تاکہ وہ آزمائے کہ ہم میں سے کون اچھے اعمال کرنے والے ہیں۔

’’سورۃ الاخلاص‘‘ ایک تہائی قرآن کے برابر:

ایک مرتبہ حضور اکرم ﷺ نے لوگوں سے فرمایا کہ سب جمع ہوجاؤ، میں تمہیں ایک تہائی قرآن سناؤں گا۔ جو جمع ہوسکتے تھے، جمع ہوگئے، تو آپ ﷺ تشریف لائے اور قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ یعنی سورۃ الاخلاص کی تلاوت فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ یہ سورت ایک تہائی قرآن کے برابر ہے۔ (صحیح مسلم )

حضرت ابوسعید خدریؓنے ایک دوسرے صحابی (حضرت قتادہؓ) کو دیکھا کہ وہ سورۃ قُلْ ہُوَ اللہُ اَحَدٌ بار بار دہرارہے ہیں۔ صبح ہوئی تو حضرت ابوسعید خدری ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور نبی اکرم ﷺ کے سامنے اس کا ذکر کیا کیونکہ وہ اسے معمولی عمل سمجھتے تھے (کہ ایک چھوٹی سی سورت کو بار بار دہرایا جائے)۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ یہ سورت قرآن کریم کی ایک تہائی کے برابر ہے۔ (صحیح بخاری)

مذکورہ بالا ودیگر احادیث میں سورۃ الاخلاص کو ایک تہائی قرآن کے برابر قرار دیا ہے، جس کی مفسرین نے مختلف توجیہ بیان فرمائی ہیں: قرآن کریم نے بنیادی طور پر تین عقیدوں پر زور دیا ہے: توحید، رسالت اور آخرت۔ اس سورت میں ان تین عقیدوں میں سے توحید کے عقیدے کی مکمل وضاحت فرمائی گئی ہے۔ اس لئے اس سورت کو ایک تہائی قرآن کہا گیا ہے۔ ۲) قرآن کریم میں تین امور خاص طور پر ذکر کئے گئے ہیں۔ اللہ کی صفات، احکام شرعیہ اور انبیائے کرامؑ وپہلی امتوں کے قصے۔ 

اس سورت میں اللہ کی جملہ صفات کو اجمالی طور پر ذکر کیا گیا ہے، یعنی اس سورت میں تین امور میں سے ایک امر کا مکمل طور پر اجمالی ذکر آگیا ہے،اس لئے اس سورت کو ایک تہائی قرآن کہا گیا ہے۔ ۳) قرآن کریم کے معانی اور مفہوم تین علوم پر مشتمل ہیں۔ علم التوحید، علم الشرائع اور علم اخلاق وتزکیہ نفس ، اس سورت میں علم التوحید سے متعلق بیان کیا گیا ہے، اس وجہ سے سورۃ الاخلاص کو نبی اکرم ﷺ نے ایک تہائی قرآن کے برابر قرار دیا ہے۔

سورۃ الاخلاص کی کثرت سے تلاوت کرنے والا اللہ کا عزیز:

حضرت عائشہ ؓفرماتی ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے ایک صاحب کو ایک مہم پر روانہ کیا۔ وہ صاحب اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھاتے تھے اور نماز میں ختم قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ پر کرتے تھے۔ جب لوگ واپس آئے تو اس کا تذکرہ حضور اکرم ﷺ سے کیا۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ان سے پوچھو کہ وہ یہ طرز عمل کیوں اختیار کئے ہوئے تھے؟چنانچہ لوگوں نے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ وہ ایسا ا س لئے کرتے تھے کہ یہ صفت اللہ کی ہےاور میں اسے پڑھنا عزیز رکھتا ہوں۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ انہیں بتادو کہ اللہ بھی انہیں عزیز رکھتا ہے۔ (صحیح بخاری ۔ کتاب التوحید ۔ باب ما جاء فی دعاء النبی ﷺ)

سورۃ الاخلاص سے سچی محبت کرنے والا جنت میں جائے گا:

حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ ایک انصاری صحابی مسجد قباء میں ہم لوگوں کی امامت کرتے تھے۔ ان کی عادت تھی کہ جب بھی نماز میں سورۂ فاتحہ کے بعد کوئی سورت پڑھنے لگتے تو پہلے سورۃ الاخلاص پڑھتے پھر کوئی دوسری سورت پڑھتے اور ہر رکعت میں اسی طرح کرتے تھے۔ ان کے ساتھیوں نے ان سے کہا کیا آپ سورۃ الاخلاص پڑھنے کے بعد یہ سوچتے ہیں کہ یہ کافی نہیں جو دوسری سورت بھی پڑھتے ہیں۔ یا تو آپ یہ سورت پڑھ لیا کریں یا پھر کوئی اور سورت۔ 

انہوں نے فرمایا: میں اسے (سورۃ الاخلاص کی تلاوت) ہرگز نہیں چھوڑوں گا۔ اگر تم لوگ چاہتے ہو کہ میں تمہاری امامت کروں تو ٹھیک ہے ورنہ میں (امامت) چھوڑ دیتا ہوں۔ وہ لوگ انہیں اپنے میں سب سے افضل سمجھتے تھے، لہٰذا کسی اور کی امامت پسند نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ جب رسول اللہﷺ تشریف لائے تو انہوں نے حضور اکرم ﷺ سے یہ قصہ بیان کیا۔ آپ ﷺ نے اُن سے پوچھا: تمہیں اپنے ساتھیوں کی تجویز پر عمل کرنے سے کون سی چیز روکتی ہے؟ اور کیا وجہ ہے کہ تم ہر رکعت میں یہ سورت پڑھتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ! میں اس سورت سے محبت کرتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تمہیں اس سورت کی محبت یقیناً جنت میں داخل کرے گی۔ (ترمذی۔ کتاب فضائل القرآن ۔ باب ما جاء فی سورۃ الاخلاص)

حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم ﷺ کے ساتھ تھا کہ آپ ﷺ نے کسی کو سورۃ الاخلاص پڑھتے ہوئے سنا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: واجب ہوگئی۔ میں نے پوچھا: کیا واجب ہوگی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جنت۔ (ترمذی۔ کتاب فضائل القرآن ۔ باب ما جاء فی سورۃ الاخلاص) یعنی جس نے اس سورت کے تقاضوں پر عمل کرلیا تو وہ ان شاء اللہ جنت میں داخل ہوگیا۔

تازہ ترین