قومی سیاست کا منظرنامہ بدستور کشیدگی کا شکار ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان لفظی جنگ جاری ہے۔ ٹوئٹر اور بیانات میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور الزام برائے الزام لگانے پر تمام تر توانائیاں صرف کی جا رہی ہیں۔ اپوزیشن کا تو کام ہی تنقید کرنا ہوتا ہے لیکن وزراء بھی اڑھائی سال گزرنے کے باوجود عوام کے سامنے اپنی کا کارکردگی پیش کرنے کی بجا ئے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے ادوار کی خرابیوں کا رونا رو رہے ہیں۔ عوام بیچارے دونوں کا منہ دیکھ رہے ہیں اور بے بس نظر آتے ہیں۔ مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ اشیائے خورد ونوش کی قیمتوں میں اضافہ کو روکنے میں حکومتی رٹ مکمل طور پر ناکام نظر آتی ہے۔
وزیراعظم نے قوم کو چینی 81روپے فی کلو گرام کی مبارکباد دی تھی۔ اب چینی پھر مہنگی ہوگئی ہے۔ بدقسمتی سے ماحول سیاست زدہ ہوگیا ہے۔ لاشوں پر بھی سیا ست نظر آتی ہے۔ ملک و قوم کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کیلئے سیاسی قیادت میں ہم آہنگی اور یکسوئی نظر نہیں آتی۔ قومی اتحاد اور یکجہتی کا فقدان ہے۔ روایتی رواداری اور باہمی احترام نظر نہیں آتا۔
برداشت کا جذبہ اور اختلاف رائے کا احترام تو جمہوری عمل کا لازمی جزو ہے مگر موجودہ سیاسی قیادت میں یہ دور دور تک نظر نہیں آتا بلکہ اختلاف رائے کو دشمنی سے تعبیر کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے قومی سیاست تلخی اور کشیدگی کا شکار ہوگئی ہے۔ ان حالات میں ملک کیسے آگے بڑھ سکتا ہے۔ ملک کے اندر قومی اتحاد اور ہم آہنگی کی فضا پیدا کئے بغیر کیسے آپ دشمن ملک کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔
پارلیمنٹ میں اتفاق رائے کی فضا پیدا کئے بغیر کیسے مثبت، تعمیری اور مفید قانون سازی کی جاسکتی ہے۔ میثاق معیشت کے بغیر کیسے ملک کی معیشت بحال اور مستحکم ہوسکتی ہے۔ ملک و قوم کے مفاد کا تقاضا ہے کہ سیاسی قیادت بالغ نظری اور پختگی کا مظاہرہ کرے۔ انتہا پسندی کی سیاست کے نتائج کبھی اچھے نہیں نکلتے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو لچک دکھانی چاہئے۔ بہرحال حکومت کا فرض بنتا ہے۔
پی ڈی ایم کی تحریک جاری ہے ۔ پی ڈی ایم نے 19 جنوری کو الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے فارن فنڈنگ کیس پر سکروٹنی کا عمل تیز کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق اسٹیٹ بنک کی جانب سے الیکشن کمیشن کو معلومات کی فراہمی میں دانستہ تاخیر کی جا رہی ہے۔ بہرحال الیکشن کمیشن کو فارن فنڈنگ کیس جلد نمٹانا چاہئے خواہ وہ پی ٹی آئی کا ہو ن لیگ کا۔
تاخیر کے باعث ہی الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری اور آزادانہ حیثیت پر انگلیاں اٹھتی ہیں۔ یہی معاملہ نیب کا ہے۔ نیب بھی اپوزیشن اور حکومت کا امتیاز کئے بغیر کارروائی کرے۔ پی ڈی ایم کی تحریک میں اب وہ دم خم نظر نہیں آتا۔ پی ڈی ایم نے وزیراعظم کے مستعفی ہونے کیلئے 31 جنوری کی ڈیڈ لائن مقرر کی تھی۔ یہ تو واضح ہے کہ وزیراعطم عمران خان 31 جنوری تک استعفیٰ نہیں دیں گے۔
اس کے بعد پی ڈی ایم نئے لائحہ عمل کا اعلان کرے گی۔ یہ تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ ضمنی انتخابات اور سینٹ الیکشن میں حصہ لینے کے فیصلوں نے پی ڈی ایم کی تحریک کا جلسوں سے بنایا گیا ٹیمپو توڑ دیا ہے۔ پیپلز پارٹی نے یہ دونوں فیصلے منوائے ہیں ورنہ اپوزیشن اتحاد ہی ٹوٹ جاتا۔ پیپلز پارٹی کبھی بھی سندھ حکومت نہیں چھوڑے گی۔ صرف حکومت کی بات نہیں ہے دیکھا جائے تو پیپلز پارٹی کی عملی اور حقیقت پسندانہ سیاسی حکمت عملی ہے۔
ماضی میں پیپلز پارٹی کو انتخابی عمل کے بائیکاٹ سے ناقابل تلافی نقصان ہوا۔ جماعت اسلامی کو بھی الیکشن میں بائیکاٹ کی بھاری سیاسی قیمت ادا کرنا پڑی۔ بہرحال پی ڈی ایم نے ضمنی انتخابات اور سینٹ کے الیکشن کے بارے میں لچک کا جو رویہ اپنایا ہے وہ خوش آئند ہے۔ اب نئے انتخابات کے مطالبہ پر بھی پی ڈی ایم کو یہی لچکدار رویہ دکھانا ہوگا تاکہ اسمبلیاں اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کریں۔
مولانا فضل الرحمنٰ کی نئے الیکشن کی ضد سے خرابی پیدا ہوگی۔ نئے انتخابات پر اسٹیبلشمنٹ بھی راضی نہیں ہوگی۔ واحد راستہ ان ہائوس تبدیلی کا ہے جو آئینی اور جمہوری راستہ ہے۔ البتہ اپوزیشن کا یہ مطالبہ جائز ہے کہ اگر ان ہائوس تبدیلی کی کوشش کی جائے تو مقتدر حلقے حکومت کو بچانے کی بجائے غیر جانبدار رہیں۔ سیا سی جماعتوں کو سیاست کرنے دیں۔
قومی اداروں کو غیر جاندار رہنا چاہئے اور سب کو قومی اداروں کا احترام کرنا چاہئے۔ قومی اداروں کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے۔ وفاقی دارالحکومت کے سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم کی جانب سے لچک، شاہد خاقان عباسی کے نام کا ای سی ایل سے اخراج اور محمد علی درانی کی ٹریک ٹو سیاست بے مقصد مشق نہیں ہے بلکہ معنی خیز ہے۔ بالآخر سیاسی جماعتوں کو ڈائیلاگ کی طرف بڑھنا ہوگا۔
راستہ ڈائیلاگ سے ہی نکلے گا۔ لچک سے نکلے گا۔ ایک دوسرے کو سپیس دے کر نکلے گا۔ اپوزیشن اور حکومت دونوں ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کریں۔ دونوں کے پاس عوامی مینڈیٹ ہے۔ 2018 کے الیکشن کا رونا رونے کی بجائے 2023 کے الیکشن رولز اتفاق رائے سے بنائے جائیں۔ نیب کو ہدف تنقید بنانا چھوڑیں اور سپریم کورٹ کی ابزرویشن کی روشنی میں نیب آرڈیننس میں مناسب ترامیم کی جائیں۔
احتساب کا عمل ملک کے مفاد میں ہے اس سے کسی کو استثنیٰ نہیں ملنا چاہئے البتہ احتساب کے عمل کا بے لاگ اور بلا امتیاز ہونا بھی اتنا ہی ضرروی ہے۔ 90دن کے ریمانڈ کا بہرحال کوئی جواز نہیں ہے۔ اسی طرح گرفتاری کے اختیار کو صوابدیدی رکھنا مناسب نہیں ہے۔ اس کو بھی کو ڈیفائن کیا جائے۔ کسی کو تفتیش کے مرحلے پر گرفتار کرنا اور کسی کو ٹرائل کے بعد یہ انصاف کے منافی ہے۔
نیب کے پر بھی نہ کاٹے جائیں لیکن اس کے اختیارات کو لامحدود بھی نہ رکھا جائے۔ آج کے حکمرانوں کو کل اسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا جس کا آج کی اپوزیشن کو ہے۔ بہتر یہی ہے کہ نیب کو غیر سیاسی اور پروفیشنل انداز سے کام کرنے دیا جائے۔ بہرحال نیب نے بدعنوانی کے خاتمہ کیلئے قابل قدر خدمات بھی انجام دی ہیں البتہ سیاسی معاملات کی وجہ سے نیب کی کامیابیاں پس منظر میں چلی جاتی ہیں۔
کورونا کی وجہ سے قومی اسمبلی کا اجلاس طویل عرصہ سے نہیں ہوا۔ اپوزیشن کی ریکوزیشن پر سینٹ کا اجلاس ہوا ہے جس میں سوائے بیان بازی کے کچھ نہیں ہوا۔ آنے والے دنوں میں سیاسی جماعتوں کے باہمی رابطے بڑھتے ہوئے نظر آئیں گے۔