رواں برس پاکستان ہندوکونسل کے زیراہتمام اجتماعی شادیوں کی سالانہ تقریب کی تیاریوں پرعالمی وباء کورونا کی بناء پر شکوک و شبہات کے بادل چھائے رہے، تاہم مجھے فخر ہے کہ ہم نے اپنی روایات برقرار رکھتے ہوئے بہترین پروگرام کا انعقاد کرایا، اس سال کورونا ایس او پیز کو مدنظر رکھتے ہوئے محدود شرکاء کی موجودگی میں اڑتالیس مستحق جوڑوںکی شادی کرائی گئی جبکہ دیگر کی شادیوں کا انعقاد ضلعی سطح پر ان کے اپنے علاقے میں کرایا جارہا ہے، اس حوالے سے میں سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت تشکیل کردہ ون مین کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر شعیب سڈل کا خصوصی شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جنہوں نے اس یادگار تقریب میں شرکت کرکے ہندو اقلیتی کمیونٹی سے اظہارِ یکجہتی کیا، میں جناب فیصل ایدھی صاحب کا بھی شکرگزار ہوں جنہوں نے اپنے عظیم مرحوم والدعبدالستار ایدھی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اجتماعی شادیوں کی تقریب میں بنفس نفیس شرکت کی،ہر سال کی طرح میڈیا کے دوستوں نے بھی اس تاریخی تقریب کو بھرپور کوریج فراہم کی، میں نے اپنی میڈیا ٹاک میں واضح کردیا کہ پاکستان کی محب وطن ہندو کمیونٹی اپنی دھرتی ماتا پاکستان سے بے انتہا محبت کرتی ہے،مالک کی نظر میں سب سے نیک کام خدا کے بندوں کا گھر بسانا ہے، چند شدت پسند دنیا کے ہر معاشرے میں موجود ہوتے ہیں جو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے نفرتوں کا پرچار کرتے ہیں۔اجتماعی شادیوں کی حالیہ تقریب کو سوشل میڈیا پر لائیو براڈکاسٹ کرنے کے انتظامات بھی کئے گئےتھے تاکہ عالمی برادری اپنی آنکھوں سے دیکھ سکے کہ پاکستان میں اقلیتی کمیونٹی کو اپنی مذہبی و سماجی تقریبات کاانعقاد کرانے کی مکمل آزادی میسر ہے،اجتماعی شادیوںکی تقریب کا کامیاب انعقاد عالمی برادری کے سامنے پاکستان کا مثبت امیج اجاگر کرنے میں بھی معاون ثابت ہوا ہے۔تاہم تقریب کے شرکاء میں اس وقت خوشی کی لہر دوڑ گئی جب اعلان کیا گیا کہ ہولی کا تہوارآئندہ ماہ مارچ میں ملتان کے قدیمی پراہ لاد مندر میں منایا جائے گا ، ہندو دھرم کے مطابق ملتان میں واقع پراہ لاد مندر میں جیت کی خوشی میں شہزادے پراہ لاد نے سب سے پہلے ہولی منائی، آج ہولی کا تہوار انٹرنیشنل فیسٹیول کی حیثیت اختیار کرگیا ہے لیکن بدقسمتی سے ملتان کا وہ تاریخی مقام جہاں سے ہولی کا آغاز ہوا، ٹوٹ پھوٹ اور زبوں حالی کا شکار ہے۔ تاریخی طور پر آج سے ہزاروں سال قبل موجودہ ملتان سمیت گردونواح کے علاقوں پر ہرنیاکاشیپو بادشاہ کا راج تھا، ہندو مذہبی کتاب بھگوات پرن کے مطابق بادشاہ کو پانچ خاص طاقتیں سونپی گئی تھیں، یہ صلاحیتیں درحقیقت ہرنیاکاشیپو بادشاہ کیلئے بھگوان کا تحفہ تھیں لیکن بادشاہ نے اپنی طاقت کے غرور میں اپنے آپ کو دیوتا قرار دیتے ہوئے رعایا سے اپنی پوجا کا مطالبہ کردیا، بادشاہ کے ظلم وستم سے ستائے اس کے اپنے سگے بیٹے پرہ لاد نے بغاوت کردی لیکن وہ بھی بادشاہ کی طاقتوں کے سامنے بے بس نظر آتا تھا، آخرکار وشنودیوتا نے اوتار کی صورت میں زمین پر پدھار کر پرہ لادکی جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار کیا، سنسکرت زبان کے لفظ پرہ لادکا مطلب خوشیوں سے بھرپور ہے،ہر سال بادشاہ کی مددگار ہولیکا کو نذر آتش کرنے کی یاد میں ہولی کے موقع پر عظیم الشان آگ بھڑکائی جاتی ہے جس کا مقصد تمام بدی کی نمائندہ قوتوں سے چھٹکاراحاصل کرنے کے عہد کا اعادہ کرنا ہوتا ہے۔ ملتان کاشمار پانچ ہزار سال سے آباد دنیا کے قدیم ترین شہروں میںکیا جاتا ہے،ملتان کو دنیا بھر کے ہندوؤں کی نظر میں پراہ لاد مندر کی وجہ سے خصوصی اہمیت حاصل ہے، ہندو کمیونٹی کے ہر فرد کی یہ دلی خواہش ہوتی ہے کہ وہ زندگی میں کم از کم ایک بار پراہ لاد مندر کی یاترا ضرور کرے، مذکورہ مندر کو ملتان کے مذہبی ہم آہنگی پر مشتمل روایتی معاشرے کی ایک پہچان سمجھا جاتا تھا جس کی دیواریں حضرت بہاؤ الدین ذکریا کی درگاہ سے ملحقہ ہیں، تاہم بھارت میں 1992ء میں بابری مسجد کے سانحہ کے ردعمل میں مقامی شدت پسندوں نے اپنے انتقام کا نشانہ اس مقدس مندر کو بنایا۔ سپریم کورٹ کے حالیہ احکامات کی روشنی میں ڈاکٹر شعیب سڈل کی سربراہی میںون مین کمیشن نے پراہ لاد مندر کا دورہ کیا تو بطور واحد اقلیتی رکن مجھے بھی یہ اعزاز حاصل ہوا کہ میں اس مقام کی یاترا کروں جہاں کبھی پراہ لاد نے سب سے پہلے ہولی منائی تھی،تاہم مندر کی زبوں حالی نے مجھے غمزدہ کردیا،مجھے قومی متروکہ وقف املاک بورڈانتظامیہ کی نااہلی پر بھی شدید افسوس ہوا، اس موقع پر میرے ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نہ بھگوان کے اس گھر کو دوبارہ سے آباد کیا جائے،جب میں نے یہ تجویز پاکستان ہندوکونسل کی ایگزیکٹو باڈی کے حالیہ اجلاس میں پیش کی تو اسے متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا، اس موقع پر یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ ملتان میں ہولی کا تہوار منانے کیلئے معزز چیف جسٹس جناب گلزار احمد کو بطور مہمان خصوصی مدعو کیا جائے گا ۔ گزشتہ چوہتر سالوں سے اپنے حقوق کے تحفظ کیلئے سرگرم اقلیتی کمیونٹی کو سپریم کورٹ کے مثبت اقدامات سے یہ امید ہوچلی ہے کہ عنقریب پاکستان میں قائداعظم کے پرامن وژن کے مطابق ایک ایسا مثالی معاشرہ تشکیل پائے گا جہاں کا ہر شہری اقلیت اور اکثریت کی تفریق سے بالاتر ہوکرصرف اور صرف پاکستانی کی حیثیت سے ملک و قوم کی ترقی و سربلندی میں اپنا کردار اداکرسکے گا۔میںاپنے تمام ہموطنوں بشمول پارلیمنٹرینز، سول سوسائٹی، میڈیا، اسٹوڈنٹس وغیرہ سب کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ انتیس سال بعد ملتان میں تاریخی پراہ لاد مندر میں خوشیوں سے بھرپورہولی کا جشن مناکر ثابت کردیں کہ پاکستان کی ترقی و سربلندی کیلئے ہم سب ایک ہیں، خدا حق کی راہ میں جدوجہد کرنے والوں کی خود مدد کرتا ہے اوربدی کی قوتیں بظاہر جتنی بھی زیادہ طاقتور کیوں نہ نظرآئیں، آخرکار شکست سے دوچار ہوتی ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)