• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا وائرس کی وبا سے دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے زیادہ اموات، NHS نے اضافی عملہ مانگ لیا

لوٹن /راچڈیل ( شہزاد علی /ہارون مرزا)برطانیہ میں 1940 کے بعدکورونا وبا سے ایک سال کے دوران سب سے زیادہ اموات دیکھنے میں آئی ہیں، اس امر کا انکشاف محکمہ قومی اعداد و شمارنے کیا ہے۔ عبوری اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ سال 1940 کے بعد سے ایک ہی سال میں برطانیہ کی اموات میں سب سے زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا، 2020 میں تقریبا 697000 اموات رجسٹرڈ ہوئیں جب کہ مقابلتا 2015 اور 2019 کے درمیان ہر سال اوسطاً 606000 اموات واقع ریکارڈ کی گئی تھیں، اموات میں اس ہوشربا اضافہ کی وجہ کروونا وائرس ہے جس کی وجہ سے اموات میں اچانک اضافہ ہوا جیسا کہ دوسری جنگ عظیم میںہوا تھا،بی بی سی کے مطابق سیکرٹری صحت میٹ ہینکوک نے کہا ہے کہ انگلینڈ میں سخت اقدامات کو مسترد نہیں کیا جاسکتا، منگل کو اسکاٹش حکومت کی کابینہ کا اجلاس پابندیوں پر تبادلہ خیال کرنے والا ہے، اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ برطانیہ میں 32200 سے زیادہ افراد کوونا وائرس کے ساتھ ہسپتالوں میں داخل ہیں، ہیلتھ سلیکٹ کمیٹی کے چیئر مین اور سابق سیکرٹری صحت جیریمی ہنٹ نے خبردار کیا ہے کہ این ایچ ایس کے لئے سخت دباؤ فروری میں آسکتا ہے، انہوں نے کہا کہ این ایچ ایس نے ہماری زندگی میں اس سے زیادہ دباؤ کبھی نہیں دیکھا اور فروری میں یہ دباؤ عروج پر پہنچ سکتا ہے۔ اس نئی صورت حال کی وجہ یہ ہے کہ کرونا وائرس انفیکشن کی نئی قسم اتنی تیزی سے نیچے نہیں آ رہے ہیں جتنے پہلی لہر میں نیچے آئی تھی۔ ادھر وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ ابھی تک برطانیہ کے کووڈ ردعمل میں مسلح افواج کے 14000 سے زیادہ اہلکار شامل ہیں جو موسم سرما کے دوران ویکسین رول آؤٹ، این ایچ ایس سپورٹ اور کمیونٹی ٹیسٹنگ کے پروگرام میں شریک ہیں،وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ یہ برطانیہ کی مسلح افواج کے ذریعہ اب تک کا سب سے بڑا امن لچکدار آپریشن ہے، سیکرٹری دفاع بین والیس کا کہنا ہے کہ ہمارے ملک کو ایک منفرد چیلنج کا سامنا ہے اور ہماری مسلح افواج این ایچ ایس کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں، انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ سب سے زیادہ کمزور لوگوں کی حفاظت اور دیکھ بھال کرنے پر ان کی مدد کریں گے،ایک رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کرونا وائرس کے واقعات سے جاں بحق ہونے کی وجہ سے برطانیہ میں متاثرہ خاندانوں کو تجہیز و تکفین کے اضافی بوجھ برداشت کرنا پڑ رہےہیں،لوگ اب کوویڈ کے باعث موت کا شکار ہو جانے والے اپنے عزیزوں کے جنازوں کی ادائیگی کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں کیونکہ وبائی امراض کے معاشی اثرات کی وجہ سے ان کے اپنی مالی حالات بدتر ہو گئے ہیں، ایک مسلم فیونرل ایسوسی ایشن سے متعلق ایک ذریعہ نے اس نمائندہ کو آگاہ کیا ہے کہ ان کی کمیٹی جس کی سالانہ اوسط کمیٹی 20 سے 30 پونڈ تک کے درمیان ہوتی تھی اب 50 پونڈ کر دی گئی ہے _ جبکہ بی بی سی پر موجود معلومات کے مطابق عالمی سطح پر بھی کرونا وائرس کے واقعات کی تشویشناک صورتحال بتائی جاتی ہے ، جمعہ کے روز سے ہی ملک میں 17000 سے زیادہ نئے واقعات درج ہوئے ہیں اور اس کے ہسپتالوں میں اس وائرس کی دوسری لہر کا مقابلہ کرنے کے لئے جدوجہد کی جارہی ہے۔علاوہ ازیں برطانوی معیشت کساد بازاری کا شکار ہو چکی ہے بیروزگاری کا طوفان برپا ہے حکومت فرلو سکیم کے تحت بیروزگاروں کو کسی نہ کسی طریقے سے سہارا دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی صورتحال کے پیش نظر بحران کے دوران حالیہ لہر میں ہلاکتوں کی تعداد 1لاکھ 20ہزار سے تجاوز کر سکتی ہے۔ انگلینڈ ‘ ویلز اور سکاٹ لینڈ سمیت شمالی آئرلینڈ میں کورونا بحران کے دوران شرح اموات سب سے زیادہ ریکارڈ کی گئی ہے ،برطانیہ کے شماریاتی اداروں کی تازہ ترین اطلاعات اور آفس برائے قومی شماریات، اسکاٹ لینڈ کا قومی ریکارڈ اور شمالی آئرلینڈ کے اعدادوشمار کے مطابق مجموعی طور پر برطانیہ میں 93ہزار ہلاکتیں ہو چکی ہیںیکم جنوری تک انگلینڈ اور ویلز میں ہونیوالی 84ہزار 449ہلاکتیں اس میں شامل ہیں جن کی او این ایس کی طرف سے تصدیق کی گئی تھی جبکہ سکاٹ لینڈ میں 6ہزار 686 شمالی آئرلینڈ میں 1ہزار 830 ہلاکتیں ہو چکی ہیںتازہ ترین واقعات میں انگلینڈ میں 4ہزار 869ہلاکتیں ریکارڈ کی گئیں جن میں سکاٹ لینڈ میں 117‘ ویلز میں 245‘ شمالی آئرلینڈ میں 118 ہلاکتیں شامل ہیںیہ امر قابل ذکر ہے کہ برطانیہ میں گزشتہ روز بھی 1243ہلاکتیں ہوئی ہیں جبکہ 45ہزار 533نئے کورونا مریض سامنے آئے ہیں گزشتہ کئی یوم سے مسلسل ہلاکتوں کی تعداد 1ہزار سے12 سو کے درمیان یا اس سے زائد ریکارڈ کی جا رہی ہے ۔یہ امرقابل ذکر ہے کہ برطانیہ میں گزشتہ کئی یوم سے مسلسل ایک ہزار سے زائد ہلاکتیں ریکارڈ کی جا رہی ہیں تازہ ترین ہلاکتوں میں 1243افراد کورونا وائرس کا شکار جبکہ 83ہزار 203نئے مریض انفیکشن کا شکار ہوئے ہیں۔ محکمہ پبلک ہیلتھ انگلینڈ کے اعدادو شمار کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر تقریبا پچاس ہزار سے زائد افراد کورونا وائرس کا شکار ہو رہے ہیں صرف برطانیہ میں 31لاکھ 64ہزار سے زائد افراد مجموعی طو رپر عالمی وباء کی لپیٹ میں آ چکے ہیں جبکہ دنیابھر میں کورونا کے مریضوں کی کل تعداد 9کروڑ 10لاکھ 87ہزار 170افراد کورونا کے انفیکشن کا شکار ہو چکے ہیں جبکہ 19لاکھ 62ہزار 759افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں دنیا بھر میں ابتک 5کروڑ 6لاکھ 61ہزار 756 افراد کورونا کا شکار ہونے کے بعد صحت یاب ہو ئے ہیں۔ برطانیہ میں بدترین ہلاکتوںاور مریضوں کی شرح میں خوفناک اضافے کے بعد ہسپتالوں اور قبرستان میں جگہ کم پڑنے لگی ہے کورونا کی پہلی اور دوسری لہر کے بعد تیسری لہر سب سے زیادہ خطرناک ثابت ہوئی ہے۔ ملک میں تیسرے لاک ڈائون کا نفاذ کیا جا چکا ہے اس دوران مختلف پابندیاں متعارف کرا کے کورونا انفیکشن کو روکنے کیلئے موثر اقدامات کیے جا رہے ہیں حکومت کی طرف سے پولیس اور دیگر متعلقہ قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو ہدایات دی گئی ہیںکہ وہ پبلک مقامات پر ہر صورت چہرے پر ماسک کا استعمال یقینی بنائیں سپر مارکیٹوں میں اس سلسلہ میں سخت چیکنگ کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے سپر مارکیٹوں اور سپرسٹور مالکان کو متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ ماسک کا استعمال نہ کرنے والوں کے لیے داخلہ بند کر دیں ۔ لیبر پارٹی کی طرف سے وزیر اعظم بورس جانسن کو سائیکل پر مشرقی لندن کے اولمپک پارک جانے پر تنقید کانشانہ بناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ کورونا لاک ڈائون قوانین پر پوری طرح عمل پیرا نہیں ہیں لاک ڈائون قوانین کے مطابق ورزش کرنے کی اجازت مقامی علاقے میں ہے گھر سے سات میل دور جانا کسی صورت مناسب نہیں ہے ۔علاوہ ازیںبرطانیہ کے سرکاری ہسپتالوں میں کورونا کے مریضوں کی تعدادمیں ریکارڈ اضافے کے بعد این ایچ ایس حکام نے مریضوں کی تیمارداری اور علاج معالجہ کیلئے فوری طو رپر اضافی عملے کی مانگ کر دی ہے۔ این ایچ ایس حکام اس سلسلہ میں نئے اقدامات کے لئے مسودہ تیار کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ این ایچ ایس حکام کے مطابق وارڈز میں مریضوں کی مدد کے لئے سیکرٹریز ‘ طالبعلموں اور نگہداشت کے کارکنوں سے مختلف وارڈز میں خدمات لی جا سکتی ہیں۔ این ایچ ایس ہسپتالوں میں کورونا کے مریضوں کی روز بروز بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر سخت دبائو کا سامنا ہے بستر اور بیڈز کی بھی قلت پیدا ہو چکی ہے 7جنوری تک ہسپتالوں میں 32ہزار 294مریض زیر علاج تھے جن میں مزید اضافہ ہو رہا ہے این ایچ ایس حکام کے مطابق ملک بھر میں ہزاروں ڈاکٹرز اور نرسوں سمیت دیگر طبی عملہ کورونا وائرس کا شکار ہونے کے بعد یا تو بیمار اور زیر علاج ہے یا پھر سیلف آئسولیشن میں جا چکا ہے ایسی صورت میں میڈیکل کے طالبعلموں ‘ نگہداشت کے کارکنان سے ایڈمن سٹاف کیلئے خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں اضافی عملہ کاغذی کاروائی کرنے ‘ سامان کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی ‘ مریضوں کو کھانا کھلانے وغیرہ کے کام آ سکتا ہے جس سے این ایچ ایس کے ڈاکٹروں اور نرسوں سمیت طبی عملے سے بوجھ کم ہوگا اور وہ بہتر طریقے سے کورونا کیخلاف جدوجہد کو جاری رکھ سکیں گے۔ باور کیا جا رہاہے کہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے ڈیمانڈ کے مطابق عملہ کی تعیناتی کی جائے گی جس سے ہسپتالوں میں طبی عملے کو ریلیف حاصل ہوگا یہ بھی خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ تیسرے قومی لاک ڈائون کے دوران فروری کے وسط تک حالات کی بہتری کے امکانات نہیں اور فروری کے وسط میں حکومت کو جائزہ لینے کے بعد مستقبل کیلئے لاک ڈائون کی مدت میں توسیع کی ضرور ت پڑ سکتی ہے۔ لندن میں پیرا میڈیکس کا کہنا ہے کہ مریضوں کی زیادتی کے باعث ہسپتال اتنے مصروف ہیں کہ انہیںایمبولنس عملے کو مریضوں کو آف لوڈ کرنے کیلئے قطاروں میں لگ کر کئی کئی گھنٹے اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے شدید نازک نوعیت کے مریضوں کو ہسپتالوں میں پہنچانے کیلئے ہیلی کاپٹر کے استعمال کا آپریشن بھی زیر غور ہے سیکرٹری صحت میٹ ہینکاک کی طرف سے ہسپتالوں اور این ایچ ایس کے پاس آکسیجن کی کمی کے حوالے سے افواہوں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہسپتالوں کومطلوبہ وسائل مہیا کیے جا رہے ہیں ۔

تازہ ترین