پشاور(نمائندہ جنگ)چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ جسٹس قیصر رشید نے کہا ہے کہ نیب کی کارکردگی صرف ٹی وی شوز تک محدود ہے ،وہ کچھ نہیں کررہی ، بعد میں جب ملزمان عدالتوں سے رجوع کرتے ہیں تو پھر الزام عائدہوتا ہے کہ عدالتوں نے ریلیف کیوں دیا ؟سارا ملبہ عدالتوں پر ڈال دیا جا تا ہے، اسے خود بھی کچھ کرنا چاہئیے صرف بیان بازی سے تو کام نہیں چلے گا، ان کی کارکردگی کا تو یہ حال ہے کہ ایک درخواست کے ساتھ کاغذات تک منسلک نہیں کس طرح وہ سارا ملبہ عدالتوں پر ڈال دیتے ہیں ۔فاضل چیف جسٹس نے یہ ریمارکس گزشتہ روز نیب کی جانب سے نواب زاہد محمود زیب کے ریفرنس میں اضافی کاغذات اور این او سی کی تصدیق کیلئے دائر ایک درخواست کی سماعت کے دوران دیئے ۔ چیف جسٹس قیصررشید اور جسٹس سید ارشد علی پر مشتمل بینچ کے روبرو دوران سماعت نیب کے وکیل نے موقف اختیا ر کہ نواب زاہ محمود زیب کے خلاف مانسہرہ کی مائنگ سے متعلق ریفرنس زیر سماعت ہے ،احتساب عدالت کو درخواست دی گئی تھی کہ نیب بعض کاغذات ریفرنس کے جمع ہونے کے بعد فائل پر لانا چاہتا ہے جبکہ اس حوالے سے اس وقت کے ایک اسٹنٹ ڈائریکٹر کی جانب سے این او سی کا اجرا بھی تصدیق کیلئے فرانزک لیب بھیجنا چاہتی ہے تاہم احتساب عدالت نے ان کی دونوں درخواستیں خارج کر دیں ،انہوں نے کہا کہ نیب عدالت نے بہت سی چیزوں کو نظر انداز کیا وہ سب چیزیں فائل پر لانا ضروری ہے،چیف جسٹس نے پراسیکیوٹر نیب سے استفسار کیا کہ آپ کونسی شہادتیں ریکارڈ پرلانا چاہتے ہیں ہمیں بتائیں کیا ، اس ضمنی درخواست کے ساتھ منسلک ہے جس پر انہوں نے کہا کہ نہیں اس کا ذکر ہے کہ جو کاغذات کو لانا چاہتے ہیں اور وہ فائل پر موجود نہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نیب یہ کیا کررہی ہے پھر سارا ملبہ عدالتوں پر ڈالا جاتا ہے کہ ملزمان کو ریلیف دیا جاتا ہے اپنا حال تو یہ ہے کہ ان کے پاس کاغذات تک موجود نہیں دوسری جانب درخواست گزارکی جانب سے علی گوہر ایڈوکیٹ، عدنان خٹک ایڈوکیٹ اور طیب خان ایڈوکیٹ نے دلا ئل پیش کرتے ہو ئے کہا کہ کہ متعدد چیزیں نیب بار بار دہرانا چاہتی ہے نیب کے پاس ایسے کوئی شواہد ہے ہی نہیں اگر ہوتے تو وہ ان کا ذکر پہلے ہی کرتے اور وہ فائل پر موجود ہوتے ماتحت عدالت نے بھی اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ نیب کے پاس کوئی کاغذی ثبوت نہیں اور صرف لکھا ہے کہ بعض کاغذات فائل کے ساتھ لگانا چاہتی ہے لہذا نیب عدالت کا فیصلہ درست ہے ، جس این او سی کا یہ ذکر کررہے ہیں وہ متعدد بار یہ پہلے بھی کر چکے ہیں اگر نیب اس کو جعلی قرار دے چکی ہے تو اس کا ثبوت نہیں تاہم سارا ملبہ عدالتوں کے سر پر لا کر عدالت سے ریلیف لینا چاہتی ہے ،نیب کے پاس تو اختیار تھا تو انہوں نے اس کی تصدیق کیوں نہیں کی کہ آیا یہ این او سی درست ہے یا جعلی، عدالت نے دلائل مکمل ہونے پر نیب کی ضمنی درخواست عبوری طور پر منظور کرلی اور ریفرنس میں اضافی کاغذات جمع کرنے کی درخواست خارج کردی جبکہ این او سی کی تصدیق فرانزک سے کرنے کے احکامات جاری کردیئے۔