• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کووڈ 19 کے بعد نظامِ تعلیم کو کیسے اپ گریڈ کیا جائے؟

کووِڈ19- کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے عالمی سطح پر عائد لاک ڈاؤن کی انتہا پر، 1.6 بلین (ایک ارب 60کروڑ) بچے اسکول سے باہر تھے۔ یہ ایک حیرت انگیز تعداد ہے لیکن اگر نئے معمول کے مطابق، ضروری احتیاطی تدابیر کو اختیار کرنے کے بعد وہ سب بچے اسکول واپس آجاتے ہیں تو یہ ان کا صرف چند ماہ کا نقصان ہوگا۔ اساتذہ ان کے چند ماہ کے نقصان کو اضافی محنت کے ذریعے پورا کرسکیں گے اور نتیجتاً وَبا کے طویل مدتی اثرات کو زائل کیا جاسکے گا۔

بدقسمتی سے، سب بچوں کے لیے ایسا ممکن نہیں ہوگا۔ اس بحران سے پہلے ہی، 250 ملین (25کروڑ بچے) اسکول سے باہر تھے اور اب بہت سے بچوں کی واپسی کا امکان نہیں ہے۔ والدین اپنے بچوں کو واپس اسکول بھیجنے میں خود کو آرام دہ محسوس نہیں کرسکتے، فیسوں کی لاگت بہت زیادہ ہوسکتی ہے کیونکہ معاشی بحران اس کی گرفت کو مضبوط کرتا ہے، یا بحرانی حالات کے باعث ختم ہونے والی خاندانی آمدنی کے حصول کے لیے بچوں کو کام کرنے کی ضرورت پڑسکتی ہے۔ اور بہت سارے بچے جو اسکولوں کو لوٹیں گے، وہ پہلے کی طرح کبھی نہیں سیکھ پائیں گے۔ 

آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ کووَڈ19-سے پہلے ہی دنیا کے تقریباً نصف بچے ’’ناقص سیکھ رہے تھے‘‘، ان بچوں کے بنیادی اعداد اور خواندگی کی مہارت کے ساتھ جوانی تک پہنچنے کا امکان نہیں ہے، جبکہ عالمی وبا کی وجہ سے 10٪فیصد اضافے بچے اس دائرے میں شامل ہوچکے ہیں۔ خدشہ ہے کہ، اسکولوں کی بندش کا دورانیہ بڑھنے سے ناقص سیکھنے والے بچوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔

ایسی صورتِ حال میں، خاص طور پر انتہائی کمزور طبقات کے لیے خطرے کی گھنٹیاں بج جانی چاہئیں۔ مغربی افریقا میں ایبولا کے پھیلنے سے اسکول سے باہر لڑکیوں کی تعداد تقریباً تین گنا بڑھ کر 8سے 21فیصد ہوگئی تھی، ان میں سے بہت سی کم عمر مائیں بن گئیں، جن کے اسکول واپس جانے کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا۔ اس وقت جبکہ دنیا کو ایک طویل معاشی بحران کا خطرہ درپیش ہے، خدشہ ہے کہ اس سے بچنے کے لیے بروقت اقدامات نہ کرنے کی وجہ سے ہم ایک پوری نسل کی زندگی کے امکانات اور پیداواری صلاحیت کو ختم کردیں گے۔

یہ ایک تاریک تصویر ہے لیکن اگر ہم ابھی کام کرتے ہیں اور مثبت اثر کے ساتھ ایک نیا انداز اپناتے ہیں تو ہم فرق لا سکتے ہیں۔ نتائج پر مبنی پروگرام - جہاں نتائج کی بنیاد پر ادائیگیوں کو مختص کیا جاتا ہے ، دنیا بھر میں تیزی سے مقبول ہورہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا بھر کی حکومتوں کو وسائل میں کمی کے ساتھ ساتھ فوری معاشرتی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا ہے۔

شعبہ تعلیم سے وابستہ آپ میں سے کئی افراد ان چیلنجز سے پہلے ہی بخوبی واقف ہوں گے۔ مسابقتی ترجیحات کا مطلب یہ ہے کہ حکومتیں اپنے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے میں سرمایہ کاری کرنے کی جدوجہد کر رہی ہیں، اس سے پہلےکہ دیر ہوجائے۔ مسئلہ یہ ہے کہ حکومتیں جب مختلف شعبہ جات میں اقدامات کرتی ہیں تو استعداد کی کمی کے باعث مطلوبہ نتائج کا حصول مشکل ہوتا ہے کیونکہ جب حکومتیں پہلے ہی بنیادی تعلیم کی فراہمی کے لیے جدوجہد کر رہی ہوں تو نئے طریقے متعارف کرانے کے لیے ان کی استعداد اور بھی محدود ہوجاتی ہے۔ 

ایک طرف جہاں، کووِڈ19-جیسی عالمی وبا نے ہمارے انتہائی اہم اداروں کی محدودیت کو نمایاں کیا ہے، وہاں یہ بھی ممکن ہے کہ انھیں نئے طور طریقے اپنانے کے لیے حوصلہ ملے، وہ ایک لمحہ توقف کریں، جدیدیت کو اپنائیں اور اپنے پُرانے ’کمزور‘ ٹریک ریکارڈ کو صاف کرتے ہوئے نئے سرے سے آغاز کریں۔

نتائج کی بنیاد پر وسائل کی فراہمی کے پروگرامز نے دنیا کے کئی ممالک میں معیاری نتائج دیے ہیں۔ یہی وقت ہے کہ معیاری تعلیم کی تلاش والے بچوں تک پہنچا جائےاور نئے تعلیمی نظام کی ابتدائی کامیابیوں کو آگے بڑھاتے ہوئے، اسے بڑے پیمانے پر متعارف کروایا جائے۔ بڑے پیمانے پر ماحولیاتی، سماجی اور حکمرانی (ای ایس جی) میں موجودہ سرمایہ کاری 30 کھرب ڈالر ہے۔ اگر دنیا اس فنڈنگ ​​کا ایک حصہ بھی نتائج پر مبنی تعلیمی پروگراموں کی طرف منتقل کر سکے تو اس سے نہ صرف انفرادی زندگی بلکہ تمام ممالک کو بدلا جا سکتا ہے۔

ایجوکیشن آؤٹ کمز فنڈ (ای او ایف) افریقا میں کام کرنے والا ایک غیر منافع بخش ادارہ ہے۔ اس ادارے نے ایک ایسا ماڈل تیار کیا ہے، جو سرکاری اور نجی شعبے میں طویل مدتی اور نظامی اثر کی تائید کرتا ہے۔ نتیجتاً دنیا بھر میں بچوں کے تعلیمی نتائج میں بہتری دیکھی جاتی ہے۔ یہ فنڈز کی فراہمی اور پروگراموں کا اندازہ کرنے کے لیے متبادل ماڈل کے ذریعے مثبت اثرات حاصل کرنے کے لیے ڈونرز، حکومتوں ، سرمایہ کاروں اور تعلیمی اداروں کے لیے ایک نیا طریقہ ہے۔

اثرات کی محدود تشخیص کے باعث سرمایہ فراہم کرنے والے افراد اور ادارے، ایک خاص طرح کی سخت پروگرامنگ کے لیے ادائیگی نہیں کرتے۔ اس کے بجائے ، وہ ان نتائج کی وضاحت کرتے ہیں، جو وہ دیکھنا چاہتے ہیں اور پالیسیوں کے ذریعے نتائج کی روشنی میں وسائل فراہم کرتے ہیں۔

بچوں کو معیاری اور مؤثر تعلیم سے روشناس کرانے کی راہ میں آج کئی رکاوٹیں حائل ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہمیں کوششیں نہیں کرنی چاہئیں۔ اس کے بجائے، عالمی تعلیم کو موجودہ بحران سے نکالنے کے ساتھ ساتھ، آئیں یہ بھی سوچیں کہ اسے مستقبل کے کسی بھی ممکنہ طور پر اَن دیکھے بحران سے نمٹنے کے لیے کیسے تیار کرنا ہے۔

تازہ ترین