• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کووِڈ19-کے بعد کی دنیا میں تعمیرشدہ ماحول کی ترجیحات

پچھلے ڈیڑھ سو برسوں کے دوران، انسانی معاملات کی تنظیم میں ایک بہت اہم تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ پہلے ہم بنیادی طور پر دیہی زندگی گزارا کرتے تھے، تاہم اب دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی شہری علاقوں میں رہتی اور کام کرتی ہے۔ تخمینے بتاتے ہیں کہ 2050ء تک یہ تعداد بڑھ کر تقریباً دو تہائی ہوجائے گی۔

شہرکاری (اَربنائزیشن) وہ عمل ہے جس کے ذریعے انسان مل کر شہروں میں مادی اور علمی وسائل اکٹھے کرتے ہیں۔ اس انسانی اشتراک نے دنیا کو بڑے پیمانے پر فوائد پہنچائے ہیں اور متعدد مشترکہ چیلنجوں سے نمٹنے میں ہماری مدد کی ہے۔ لیکن ایسا نہیں کہا جاسکتا کہ اس کے اثرات خصوصی طور پر فائدہ مند ہی ثابت ہوئے ہیں:شہر، دنیا کے قدرتی وسائل کا 75٪ فی صد استعمال کرتے ہیں اور عالمی گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں ان کا حصہ 80٪فی صد ہے۔

شہرکاری کا ماحولیاتی تبدیلی کے ساتھ ایک مستقل رشتہ ہے جبکہ کووِڈ19-وبائی مرض ایک اور یاددہانی کراتا ہے کہ فطری دنیا کے ساتھ ہمارے تعلقات کو بے قدری کی نگاہ سے مزید نہیں دیکھا جاسکتا۔ کورونا وائرس نے اس حقیقت کو پھر سے عیاں کیا ہے اور بہت سے معاملات میں عدم مساوات کو بڑھایا ہے۔

ہم یہ کیسے یقینی بناسکتے ہیں کہ معاشی بحالی اور وبائی مرض کے مابین پائے جانے والے فوری تناؤ کو حل کرنے کے لیے ہم ایک ایسی شہری دنیا تعمیر کریں جو لوگوں اور ان کے سیارے کے لیے بہتر نتائج کی حامل ہو۔

ماہرین اس حوالے سے مندرجہ ذیل اصول پیش کرتے ہیں جو زیادہ صاف ستھرا ، زیادہ سرسبز اور زیادہ شمولیت پسند تعمیراتی ماحول کے قیام میں اہم ثابت ہوسکتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں ESG (ماحولیاتی، معاشرتی اور گورننس) کے معیار میں دلچسپی بڑھ گئی ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کووِڈ 19-بحران کے دوران بھی عالمی اسٹاک ایکس چینجز پر ای ایس جی سے وابستہ حصص کی کارکردگی زیادہ بہتر رہی ہے۔ 

یہ (کم از کم جزوی طور پر) معاشرتی اور ماحولیاتی امور میں شہری اور صارف سرگرمیوں کے باعث ممکن ہوا۔ ماحولیاتی اعتبار سے موزوں اور پائیدار سرمایہ کاری اور نمو کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے، تاکہ معیشت کے تمام شعبوں میں پائیدار ترقی کے رجحان کو فروغ دیا جاسکے۔

بنیادی ڈھانچے کے شعبے میں، خالص تجارتی کارکردگی کے بجائے معاشرتی قدر کو بینچ مارک بنانے کا عمل کارآمد ہو رہا ہے۔ برطانیہ میںA303سڑک کی بہتری کی اسکیم اس کی ایک مثال ہے۔ اوّلین اور سب سے کم لاگت تجویز یہ تھی کہ اس سڑک کو اسٹون ہنج ورلڈ ہیریٹیج سائٹ سے گزار کر پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔ تاہم برطانیہ میں سڑکوں کی تعمیر کے ذمہ دار قومی ادارے، ہائی ویز انگلینڈ کے سروے میں عوام نے رائے دی کہ عالمی ورثہ کی اصلیت کو برقرار رکھنے کے لیے اس منصوبے پر1ارب 40کروڑ ڈالر اضافی خرچ کرنا زیادہ بہتر ہے۔ 

اسی طرح، ہانگ کانگ میں کیے جانے والے ایک مطالعے میں شہریوں نے عمارتوں کو ’سبز‘ بنانے کی حمایت کی، چاہے اس کے لیے وہاں کے عوام کو اضافی ادائیگی کرنا پڑے۔ تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کا خیال تھا کہ اگر اضافی پیسہ، شور کی آلودگی پر قابو پانے، توانائی کی کھپت کو کم کرنے، پانی کے ضیاع میں کمی اور ہوا کے معیار کو بہتر بنانے پر خرچ کیا جاتاہے تو یہ ایک اچھی سرمایہ کاری ہے۔

ذمہ دار نمو کے لیے معیارات کی پابندی

ESG معیارات کا پابند ہونے کے بعد ہمیں عملی فریم ورک کی ضرورت ہے۔ یہاں، ریگولیٹری اشاریے اور پیمانے اہم ہوں گے۔ تعمیراتی ماحول میں بامعنی اور قابل پیمانہ بنانے میں بین الاقوامی معیار ات کا ایک اہم کردار ہے۔

اس کی ایک مثال پائیدار سرمایہ کاری سے متعلق یورپی یونین کے درجہ بندی کے اصول ہیں، جن کے تحت پراپرٹی کی پیمائش کے بین الاقوامی معیارات (آئی پی ایم ایس) کے ذریعے ایک ایسی مشترکہ زبان تشکیل دی گئی ہے، جو سبز منصوبوں میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔

تعمیرشدہ عمارتوں کا متنوع استعمال

تعمیرشدہ عمارتوں سے متعلق موجودہ ماحولیاتی چیلنجز کی نوعیت چاہے کچھ بھی ہو، ان کا حل تکنیکی مہارت سے زیادہ عوام کے اعتماد میں پنہاں ہے۔اس سلسلے میں صرف بلڈنگ لائف سائیکل میں، عمارت کا ڈیزائن اور قبل از تعمیرات کا مرحلہ ہی اہم نہیں ہوتا بلکہ استعمال کے دوران اس کی کارکردگی بھی اہم ہے۔

موجودہ کورونا وائرس بحران کے دوران، فیسلٹی مینجمنٹ پروفیشنلز کا کردار بھی اہم رہا ہے۔ ہم اس سے پہلے تجارتی اور رہائشی عمارتوں کے ساتھ جس طرح برتاؤ کرتے رہے ہیں، وَبا کے بعد اس میں ایک بڑی تبدیلی آرہی ہے۔ ان تبدیلیوں کی حرکیات اور اثرات کو ریکارڈ کرنے کی ہماری صلاحیتیں ہی وہ بنیاد بنیں گی، جس پر ہم مستقبل میں پائیدار تعمیر شدہ ماحول پیدا کریں گے۔

ٹیکنالوجی اور ڈیٹا کی انقلابی طاقت کا ادراک

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ لاک ڈاؤن کے دوران ٹیکنالوجی نے پیداواری صلاحیت بڑھانے میں مدد کی ہے اور اس حوالے سے ہم سب نے اپنے اپنے تجربات حاصل کیے ہیں۔ RICSکا حالیہ سروے اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ حالیہ وبائی مرض نے تعمیراتی شعبے میں کام کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے چلنے والے نئے طریقوں کو اپنانے میں کس حد تک تیز رفتاری پیدا کردی ہے۔ 

تاہم، کارکردگی کو بہتر بنانے اور صارف تجربے کو بڑھانے کے لیے ٹیکنالوجی اور ڈیٹا کی پوری قیمت کو سمجھنے کے لیے ہمیں بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔ اس کے لیے صرف ٹیکنالوجی کافی نہیں ہوگی بلکہ اس جدید ٹیکنالوجی کے عہد میں ہنرمند، پراعتماد اور مستند پیشہ ور افراد کی بھی ضرورت ہوگی۔

کووِڈ 19-نے شہر کاری کی طرف طویل مدتی رجحان کو تبدیل نہیں کیا ہے۔ شہر عالمی خوشحالی، مشترکہ و انفرادی تجربے اور جدت کی تجربہ گاہ کا مرکز رہے ہیں۔ پھیلتے ہوئے شہری منظرنامے کو منظم رکھنے میں ناکامی کے اثرات، آبادی کی ایک بڑی تعداد میں محسوس کیے جائیں گے۔ ایسے میں یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ تعمیرشدہ ماحول کو متذکرہ بالا اصولوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے ترقی دی جائے۔

تازہ ترین