کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام’’نیا پاکستان طلعت حسین کے ساتھ‘‘ میں تجزیہ کرتے ہوئے میزبان طلعت حسین نے کہا کہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے جمعہ کو وزیر اعظم کی جانب سے تقریر کے دوران جس کمیشن کے لئے خط لکھنے کی ہدیت کی تھی اسے مسترد کریا ،ا ن کا کہنا تھا کہ جس ضابطہ کار کے تحت یہ کمیشن کام کرے گا ہمیں وہ قبول نہیں ہے اور ضابطہ کار جب تک اپوزیشن کی inputکے ساتھ طے نہیں ہو گا ہم اسے نہیں مانیں گے۔دوسری جانب حکومت کا کہنا ہے کہ اس طرح آپ کمیشن سے بھاگ نہیں سکتے ہم کمیشن ایسے ہی بنائیں گے ۔اس پر ہم بات کریں گے کہ پاکستان میں معاملہ طول کیوں پکڑ جاتا ہے اور آنے والے دنوں میں کمیشن پر اتفاق ہو پائے گا یا نہیں ، اس کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف کے بطور بڑی جماعت ابھرنے پر بھی بات کی جائے گی ،لیکن کراچی میں ان کے ایک دو اراکین کی دوسری پارٹیوں پر بھی بات کی جائے گی ۔اس کے علاوہ ایڈٹوریل کمنٹ میں چیف منسٹر کے پی کے کے ایڈوازر کے مارے جانے کے حوالے سے بات کی جائے گی ۔طلعت حسین : سپریم کورٹ کو خط جانے سے آپ کی ایک ڈیمانڈ پوری ہو گئی ہے اور چیف جسٹس کی سربراہی میں ہو کمیشن بن جائے گا ، اب اعتراض ٹی او آر ز پر ہے ، وہ نامکمل ہیں ؟ بہت بڑے ہیں ؟اس پر اعتراض کیا ہے آپ کو ؟سوال کے جواب میں تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر نے کہا کہ ٹی او آر 1956 ء کے ایکٹ کے تحت بنایا جا رہا ہے جس سے ایک کمزور کمیشن بنے گا اس کے پاس صرف سول کورٹ کے اختیارات ہیں اور ثبوت حاصل کرنے کا اختیار نہیں ہے اور نہ ہی فرانزک آڈیٹرز کا ذکر ہے ۔طلعت حسین : لیکن کسی بھی ماہر کی مدد لی جا سکتی ہے اور Contempet میں ان کے پاس ہائی کورٹ کے اختیارات بھی ہیں ۔اس پر اسد عمر نے کہا کہ یہ کیا جا سکتا ہے لیکن اگر ٹیکس حکام انہیں معلومات فراہم نہ کریں تو وہ کچھ نہیں کر سکتے ۔اگر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کہے کہ ہپ پرائیویٹ انفارمیشن ہوتی ہے تو وہ کچھ نہیں کر سکتے ،شواہد اکٹھا کرنے میں کمزوریاں ہیں اور ان کے پاس بین الاقوامی ثبوت اکٹھا کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے ۔طلعت حسین : تو یہ کس قانون کے تحت بننا چاہئے؟اس پر اسد عمر نے کہا کہ اس کے لئے آپ کو ایک اسپیشل قانون بنانا پڑے گا ۔طلعت حسین : تو قانون سازی پہلے کریںاور پھر کمیشن سازی کریں ؟اسد عمر :بالکل ایسا ہی کرنا پڑے گا اور یہ کوئی لمبا چوڑا کام نہیں ہے ۔طلعت حسین: یہ ڈیمانڈ آپ کی قانون کے حوالے سے نہیں آئی ؟آپ کی ڈیمانڈ تھی کہ چیف جسٹس کے تحت کمیشن بننا چاہئے۔اسد عمر : کمیشن بننا چاہئے۔طلعت حسین: کرپشن کا جتناپھیلائو ہو اگر اس کے مطابق کمیشن کو کام نہیں کرنا چاہئے ؟اسد عمر : ایک کمیشن میں تمام باتیں انھوں نے ڈال دی ہیں وہ نہیں کر پائے گا یہ کمیشن ٹاپ لیول کی تفتیش کے لئے ہونا چاہئے، سرفہرست اس میں وزیر اعظم اور ان کی فیملی کا نام ہے ۔طلعت حسین :وزیر اعظم کی فیملی کا نام ہے؟ وزیر اعظم کا نام نہیں ہے؟اسد عمر :میرا خیال میں نام ہے ،1993-94 کی کے اثاثے ہیں جن کی بات ہو رہی ہے جو کمپنیاں بنائی گئیں ہیں ، پاناما لیکس میں جن کمپنیوں کا نام ہے ، وہ کمپنی 1993-94 میں بنی ہیں ، بیٹوں کے بیٹی کے نام پر وہ کمپنیاں ہیں جو اس وقت سترہ اٹھا رہ یا انیس بیس سال کے تھے تو ظاہر ہے اگر اس وقت یہ کمپنیاں بنیں تو وزیر اظم نے بنائیں ۔طلعت حسین : طارق صاحب اگر یہ معاملات آپ پہلے ہی ان کے ساتھ اور پیپلز پارٹی کے ساتھ طے کر لیتے اور ٹی او آر بنانے سے پہلے ان کی Inputلے لیتے تو آج ہم پروگرام کسی اور موضوع پر کر رہے ہوتے ۔ تو کیوں نہیں لی آپ نے Input؟طارق فضل چوہدری : پاناما لیکس کے بعد جب ہم نے کہا کہ ہم انکوائری کمیش بنانے جا رہے ہیں جس کی سربراہی ایک ریٹائرڈ جج کریں گے؟ اس وقت حزب اختلاف کا اصرار تھا کہ کمیشن کسی ریٹائرڈ جج نہیں چیف جسٹس کی سربراہی میں ہونا چاہئے۔طلعت حسین :ا نھوں نے شعیب سڈل کا نام لیا تھا ۔طارق فضل:شعیب سڈل صاحب کا نام عمران خان صاحب نے خود لیا تھا ۔اپوزیشن کا مطالبہ تھا کہ چیف جسٹس صاحب کی سربراہی میں کمیشن بنے وہ ہم نے بنا دیا ہے ، ہم نے اپنے ہاتھ کاٹ کر ان کے ہاتھ میں دے دیا اب ساری تحقیقات انھوں نے کرنی ہیں۔چیف جسٹس کسی ادارے کو بھی بلائیں گے حکومت ان سے تعاون کرے گی۔طلعت حسین : آپ نے کہا یہ کہ ہمارے اوپر الزام لگا تو ہم اگر ڈوبیں گے ناں تو صنم آپ کو بھی ڈبو دیں گے۔آپ نے اتنا بڑا معاملہ پھیلا دیا ۔طارق فضل :جو پبلک ہولڈر اس وقت ہے اور جو پہلے پبلک آفس ہولڈر تھے ، اب تحریک انصاف کا ایک ایجنڈا واضح ہے کہ نہ کھیلیں گے او رنہ کھیلنے دیں گے ۔ایک چھوڑ کر دس عمران خان بھی ہوں تو دھونس اور دبا کر اپنی مرضی کا فیصلہ نہیں لے سکتے ۔جنرل مشرف گن پوائنٹ پر استتعفٰی نہیں لے سکا وزیر اعظم سے ۔طلعت حسین: فیکٹ کیا درست کرنے والے ہیں آپ؟اسد عمر:انھوں نے کہا کہ مطالبہ پورا ہو گیا انھیں پتہ ہے یا نہیں ، حکومت ہم سے او ر دیگر سیاسی جماعتوں سے رابطے میں تھی ان کو پتہ تھا کہ وہ اگر خود سے ٹی آر اوز معاہدے کے بغیر خط لکھ کر بھجوائیں گے ہم نہیں مانیں گے۔تو انھوں نے یہ جانتے بوجھتے کیاہے؟طلعت حسین :اس کا حل کیا ہے کیا کریں ؟احمد نورانی:میں کل اور آج دیکھتا رہا کہ ٹی او آرز کے حوالے سے ان کی ڈیمانڈز کیاں تھیں؟اصل جو ڈیمانڈ تھی کہ کمیشن بن جائے وہ کمیشن بن گیا اور ٹی او آرز کی ساری بنیادی باتیں اس میں آگئیں ۔اب نیا موقف بڑا معنی خیز ہے ۔طلعت حسین :ا یک یہ بات بھی سامنے آرہی ہے کہ اس کمیشن کو بھلے چیف جسٹس سربراہی کر رہے ہیں لیکن جس قانون او ر ضابطے کے تحت وہ کمیشن کام کرے گا وہ truthless ہو گا ؟احمد نورانی : ایسی کوئی بات نہیں ہے 1956 کے قانو ن کے تحت جن مسائل پر قانون بنتے رہے وہ مسائل الگ نوعیت کے تھے ۔طلعت حسین: پی ٹی آئی کے خدشات کی بنیاد کیا ہے؟اسد عمر :جس قانو ن کے تحت وہ کمیشن بنے گا چیف جسٹس نے اسی قانون کے تحت کام کرنا ہے۔قانون میں لکھا ہوا ہے کہ اس کے پاس کیا اختیارات ہیں اور کیا نہیں ہیں ؟ٹی پروگرام میں بیٹھ کر ٹی او آر نہیں لکھے جاتے ۔طلعت حسین: اس میں کون سی چیز آپ چاہیں گے کہ نکالی جائے؟rejection is easyکونسی چیز نکالی جائے؟اسد عمر :اس میں کچھ نکالنے کی ضرورت نہین بلکہ وزیر اعظم جن کے حوالے سے انکشافات سامنے آئے ہیں ان کی تفتیش can not be make subject کہ جی وہ سارا کام مکمل ہو گا تو پھر ہو گا ۔اس پر طارق فضل نے کہا کہ کیا ہم چیف جسٹس کو ہدایت دے سکتے ہیں کہ وزیراعظم کی انکوائری سب سے آخر میں ہو؟جواب میں اسد عمر نے کہا کہ آپ نے جو رپورٹ مانگی ہے جب تک یہ تمام کام پورے نہیں ہو جاتے رپورٹ مکمل ہی نہیں ہوتی ۔طلعت حسین: آپ نے کرپشن کو پکڑنا ہے یا نواز شریف کو ؟اسد عمر: دونوں کو !جب تک ایک نظام کے اوپر بیٹھا ہوا آدمی اگر وہ کرپٹ ہے تو آپ اس سسٹم کو کیسے ٹھیک کر سکتے ہیں؟ہم چاہتے یہ ہیں کہ اگر اسد اعمر کرپٹ ہے تو پکڑو حکومت کا کام ہی یہی ہوتا ہے۔اس پر بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے طارق فضل نے کہا کہ بنیادی طور پر اس وقت مسئلہ ہی ٹی او آر اور نہ یہ مسئلہ ہے کہ کمیشن کتنا طاقتور ہے یا نہیں ہے یہ پی ٹی آئی کا مخصوص طرز سیاست اور رویہ بن گیا ہے یہ سارا اس کا مسئلہ ہے۔طلعت حسین : پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ پارلیمان کے سامنے سر جھکانا چاہئے تھے وزیر اعظم کو ، ان کے سامنے پارلیمانی کمیٹی یا کمیشن کی وہ بات کرتے ہیں ان کے سامنے پارلیمانی کمیٹی یا کمیشن کی وہ بات کرتے ہیں، میں یہ جاننا چاہوں گا کہ آنے والے دنوں میں آپ کا پھر mechanism کیاہو گا پھر تمام پارٹیوں پر مشتمل ایک پارٹی بنائی جائے وہ بیٹھ کر تجاویز دے ٹی او آرز طے ہوں is that wahtʼs yours purposalطارق فضل:یہ جو آپ نے پارلیمانی کمیشن کی بات کی ہے ، تمام پارلیمانی جماعتوں سے ہماری جماعت فرداً فرداً رابطے میں تھی رابطے کئے ہیں اور پارلیمانی کمیشن ہم نے ان کے سامنے رکھا ہے کہ آپ اپنی اپنی جماعتوں کی نمائندگی دیں اس کو بھی یہ مسترد کر چکے ہیں میں اس طرز سیاست کی بات کر رہا ہوں ۔طلعت حسین : ٹی او آرز کے input کی میں بات کر رہا ہوں کس طرح طے ہوں گے؟اسد عمر :پارلیمنٹ کے لیڈر کی تفتیش پارلیمنٹ کرے یہ منطق نہیں بنتی، ا س وقت تمام جماعتیں وزیر اعظم کے خط اور ٹی او آر کو مسترد کر چکی ہیں ۔اگلا قدم یہ ہے کہ مشاورت ہو ۔طلعت حسین :کیا امکانات ہیں یہ جو ڈیمانڈ کر رہے ہیں اس کے اوپر آپ لچک کا مظاہرہ کریں اورحقیقتا ایک ڈائیلاگ کا آغاز کر دیں کیا امکانات ہیں؟طارق فضل :یہ کہہ رہے ہیں کہ قانون موجود نہیں ہے اب بھارت کے قانون کے تحت تو کمیشن نہیں بن سکتا ۔ پاک سرزمین پارٹی کے رہنما سید حفیظ الدین سے میزبان طلعت حسین نے سوال کیا کہ آپ کو پارٹی چھوڑنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی کیونکہ اگر اسلام آباد سے دیکھیں تو پاکستان تحریک انصاف کی اڑان کافی اونچی ہے تو آپ نے پارٹی کو کیوں چھوڑا ؟جس پر ان کا کہنا تھا کہ میں پی ٹی آئی سندھ کا جنرل سیکرٹری اور کور کمیٹی کا مستقل ممبررہ چکا ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ میں نے پارٹی کی بھر پور طریقے سے خدمت بھی کی ہے، انہوں جواب دیا کہ 2013کے الیکشن میں میرا واضح کردار تھا ، عمران خان نے اخبار میں اشتہار کی بنیادپر 4درخواستیں آئی تھیں کراچی اور پورے سندھ میں الیکشن میں مقابلوں کے لیے ، میں نے اور نادر لغاری صاحب نے بنی گالہ جاکر اجازت طلب کی لیکن ان کا خیال تھا کہ سندھ میں الیکشن لڑنا نہیں چاہیے ، پورے سندھ میں 100سے زائد امیدواروں کے مقابلے کروائے ۔ طلعت حسین نے پوچھا کہ عمران خان کیوں کہہ رہے تھے کہ سندھ میں الیکشن نہیں لڑنے چاہئیں؟انہوں نے کہا کہ کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی تھیں اور نہ کوئی الیکشن لڑنے کو تیار تھا ، طلعت حسین نے پوچھا کہ جب آپ نے اتنی محنت کرلی تھی تو دو سال کے اندر نئے انتخابات کا سلسلہ جاری ہے اس توسط سے بہت جلدی نہیں جج کررہے آپ عران خان کواور آپ دوسری جماعت میں چلے گئے ؟ حفیظ الدین کا کہنا تھا کہ کراچی NA-245کے الیکشن میں تقریبا54000کے قریب ووٹ تھے اورپی ٹی آئی صرف 1400ووٹ حاصل کیئے ، اسی طریقے سے PS-11الیکشن میں بھی یہی حال ہوا،حفیظ الدین نے کہا کہ ہار نے اور جیتنے کا کوئی مسئلہ نہیں جدوجہد چلتی ہے اور پولیٹکل ورکر کی معاشرے میں اہمیت ہے ، انہوں نے کہا کہ عمران اسماعیل الیکشن لڑنے کے لیے تیار نہیں تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ میں ڈیفالٹر ہوں اور عمران خان اپنے دوستوں کے گھیرے میں ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ترقی کا راستہ کراچی سے شروع ہوتا ہے ۔ طلعت حسین نے پاک سرزمین پارٹی کے لیڈر کے حوالے سے سوال کیا کہ آپ کو مصطفٰی کمال صاحب بہت خوش گفتار نظر آتے ہیں ؟جس پر انکا کہنا تھا کہ مصطفٰی کمال ایک جوان آدمی ہیں انہوں نے کراچی شہر میں کارکردگی دکھائی ہے ان کی بات پر پروگرام کے میزبان طلعت حسین نے کراس سوال کرتے ہوئے کہا کہ مصطفٰی کمال نے جتنی بھی پرفارمنس دکھائی ہے وہ ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم سے دکھائی ہے تو آپ کو یہ کوٹ نہیں کرنی چاہیے، حفیظ الدین نے کہا کہ ایسا ہی ہوتا ہے۔