سینیٹ کے انتخابات کیلئے ملک کے آئین میں خفیہ رائے دہی کا طریق کار مقرر ہے تاہم ماہِ رواں کے اوائل میں صدر مملکت نے وزیراعظم کی تجویز پر سپریم کورٹ میں یہ ریفرنس دائر کیا کہ کیا اِس کی رائے میں قانون میں تبدیلی کرکے سینیٹ کے انتخابات خفیہ بیلٹ کے بجائے شو آف ہینڈز کے طریق کار کے مطابق کرائے جا سکتے ہیں؟ ریفرنس میں اِس ضرورت کے محسوس کیے جانے کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ خفیہ بیلٹ میں ووٹوں کی خرید و فروخت کی راہ ہموار ہوتی ہے جبکہ شو آف ہینڈز کی صورت میں یہ مشکل ہوگا۔ سپریم کورٹ میں اِس ریفرنس کی ابتدائی سماعت میں جج صاحبان کے ریمارکس ہی سے یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ سینیٹ کے الیکشن کا طریق کار آئین میں مقرر ہے جسے محض قانون کی تبدیلی سے بدلا نہیں جا سکتا لیکن عدالت نے بوجوہ اِس معاملے پر الیکشن کمیشن، صوبائی حکومتوں اور سیاسی جماعتوں سے بھی رائے طلب کرنا مناسب سمجھا۔ الیکشن کمیشن نے گزشتہ روز اپنا جواب سپریم کورٹ میں جمع کرادیا ہے جس میں قطعی غیرمبہم طور پر صراحت کی گئی ہے کہ سینیٹ کے الیکشن کیلئے اوپن بیلٹ کا طریق کار آئین کے منافی ہوگا۔ کمیشن کے جواب میں کہا گیا ہے کہ اِس ضمن میں آئین کا آرٹیکل 226بالکل واضح ہے۔ صرف وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کا انتخاب شو آف ہینڈز سے ہوتا ہے۔ سینیٹ کا الیکشن خفیہ ووٹنگ ہی سے ہوتا ہے۔ آئین میں کل 15انتخابات کا ذکر ہے اور اِس میں صرف وزیراعلیٰ اور وزیراعظم کے انتخابات ہی کو اوپن کیا گیا ہے۔ 12صفحات پر مشتمل الیکشن کمیشن کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب کی رو سے سینیٹ انتخابات صدر اور وزیراعظم کے انتخابات کی مانند آئین کے تحت ہیں لہٰذا خفیہ بیلٹ ختم کرنے کیلئے آئینی ترمیم کرنا ہوگی۔ دوسری جانب سندھ حکومت نے آئین اور اظہار رائے کی آزادی سے متصادم ہونے کی بنا پر سینیٹ الیکشن کے طریقہ کار میں تبدیلی کی مخالفت کا فیصلہ کیا ہے اور اِس کی جانب سے آئندہ ہفتے جواب سپریم کورٹ میں جمع کرایا جائے گا جبکہ پنجاب اور خیبر پختون خوا کی حکومتیں اوپن بیلٹ کے حق میں اپنے جوابات جمع کرا چکی ہیں۔ جماعت اسلامی نے بھی سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس کی مخالفت کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے صدارتی ریفرنس کا جواب دینے کے بجائے اسے واپس بھیجنے کی استدعا کی ہے۔ جماعت اسلامی نے اپنے تحریری موقف میں کہا ہے کہ اوپن بیلٹ کیلئے صرف قانون نہیں، آئین میں بھی ترمیم کرنا ہوگی۔ اِس لئے سینیٹ انتخابات کیسے کرانے ہیں، یہ فیصلہ پارلیمنٹ کو کرنے دیا جائے، سینیٹ انتخابات پر آئین کے آرٹیکل 226کا اطلاق ہوتا ہے۔ جواب میں کہا گیا ہے کہ سینیٹ امیدواروں کو صادق اور امین ہونا چاہئے، ووٹ خریدنے والا امیدوار صادق اور امین نہیں ہو سکتا، اراکینِ اسمبلی کی صوابدید ہے وہ ووٹ کس کو دیں۔ فی الحقیقت سینیٹ کے انتخابات کے طریق کار میں تبدیلی کے ضمن میں یہ جوابات قطعی دوٹوک اور مدلل ہیں۔ اِن کی روشنی میں یہ امر پوری طرح واضح ہے کہ طریق کار میں تبدیلی کے لئے آئینی ترمیم ضروری ہوگی اور یہ کام پارلیمان کی دوتہائی اکثریت ہی کر سکتی ہے۔ موجودہ خفیہ رائے دہی کا طریقہ آئین میں اِس لئے رکھا گیا ہے تاکہ رائے دہندگان دباؤ سے آزاد ہوکر اپنے ضمیر کے مطابق بہتر امیدوار کو ووٹ دے سکیں لیکن گزشتہ تجربات گواہ ہیں کہ خفیہ رائے دہی کی وجہ سے ووٹروں کی خرید و فروخت کا چلن عام ہو گیا ہے جبکہ اوپن بیلٹ میں خرید و فروخت تو یقیناً آسان نہیں لیکن ووٹر اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ دینے کی خاطر جماعتی فیصلے سے انحراف کی جرأت بمشکل ہی کر سکیں گے۔ لہٰذا دیانت دارانہ انتخاب کے لئے ووٹروں کی خرید و فروخت پر مؤثر پابندیوں کا عائد کیا جانا ضروری ہے اور پارلیمنٹ کو اس کے لئے تمام مطلوبہ اقدامات عمل میں لانا چاہئیں۔