• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گرمی کی شدت اور لوڈ شیڈنگ میں لوگ ذرا گرم مزاج ہوجاتے ہیں لیکن اس ماحول میں بھی محظوظ ہونے کے طریقے اور ذرائع ڈھونڈے جاسکتے ہیں۔ مثلاً میرے اتوار والے کالم میں کتابت کی بہت سی غلطیاں تھیں لیکن میں دو غلطیوں سے ابھی تک محظوظ ہورہا ہوں۔ میں نے لکھا تھا بحربیکراں، کاتب نے اسے بنا دیا بھر بیکراں، میں نے لکھا تھا مشرفی جھٹکا، کاتب نے میری غلطی نکالتے ہوئے اسے مشرقی جھٹکا بنادیا۔ چھپا ہوا کالم پڑھتے ہوئے زیر لب مسکرارہا تھا بلکہ اپنے اس استاد کو یاد کررہا تھا جو مجھے اسکول میں خوشخطی کا انعام دیا کرتا تھا۔ وہ دن بھی خوب تھے کہ استاد ٹیوشنوں کے بہانے پیسے کمانے والی مشینیں بننے کی بجائے سارا وقت نہایت خلوص سے اپنے طلبہ کو دیا کرتے تھے۔ شاید آپ کو یہ بات سن کر صدمہ ہو کہ میں نے اپنے اسکول کے استادوں میں سے کبھی کسی کو غیر حاضر ہوتے نہیں پایا۔ وہ بیمار ہوتے تھے نہ انہیں کوئی ضروری کام پڑتا تھا۔ معمولی وسائل میں نہایت قناعت کی زندگی گزارتے اور ہر لمحہ شاگردوں پر نگاہ رکھتے تھے۔ ہمارے زمانے کے استاد سارے نظام تعلیم کی روح تھے جب سے استاد کمرشل ، ڈنگ ٹپاؤ اورپیشہ بیزار ہوئے ہیں نظام تعلیم کی روح کمزور ہوگئی ہے۔ ایک بار میاں شہباز شریف خادم اعلیٰ پنجاب کی دعوت پر میں ایک تعلیمی فنکشن میں چلا گیا۔ یہ تقریب اساتذہ کے اعزاز میں تھی ۔ سکون سے بیٹھا ہوا تھا کہ کانوں میں آواز سنائی دی۔ وزیر اعلیٰ صاحب کہہ رہے تھے اب ذی وقار ڈاکٹر صفدر محمود آپ سے خطاب کرینگے۔ مجھے جھٹکا سا لگا اور پہلی بار پتہ چلا کہ میں ذی وقار ہوں۔ حکم کی تعلیم لازمی تھی۔ اٹھا اور روسٹرم پر پہنچ کر تقریر شروع کردی۔اس تقریر میں ایک فقرے پر حاضرین نے بڑی داد دی کیونکہ حاضرین یعنی اساتذہ اس فقرے سے ”ذی وقار“ ہوگئے تھے۔ عرض کیا”زندگی میں ہر انسان کو بڑی یا چھوٹی کامیابیاں نصیب ہوتی ہیں مجھے زندگی میں جب بھی کوئی بڑی کامیابی ملی اور میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تومجھے اس کے پس پردہ ماں کی دعائیں اور استاد کا ہاتھ نظر آیا“۔ استاد کے ہاتھ کے ذکر پر وہاں موجود اساتذہ نے خوب تالیاں بجائیں حالانکہ میرے ذہن میں اپنے استاد تھے، آج کے استاد نہیں۔ چاہا وضاحت کردو لیکن سامعین کی تالیوں کا ایک اپنا نشہ ہوتا ہے۔ آخر مروت بھی کوئی شے ہوتی ہے۔ مارے مروت کے خاموشی سے نیچے اتر کر اپنی نشست پہ بیٹھ گیا۔ رہی ماں تو وہ روز اول سے ماں ہے۔ اسے رب نے کچھ اپنی خوبیاں دے کر بنایا ہے اسلئے زمانہ اس میں کوئی تبدیلی نہیں لاسکا۔ ماں کی دعا جنت کی ہوا اور جنت کی ہوا ماں کی دعا ہوتی ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ باپ سورج کی مانند ہوتا ہے، گرم ضرور ہوتا ہے لیکن اگر نہ ہو تو زندگی روشنی سے محروم رہتی ہے۔ زندگی میں روشنی اسی گرم سورج کے سبب ہی ہوتی ہے۔ یہاں تک لکھ چکا ہوں تو ا ٓج جنگ لاہور کے اندر والے صفحے پر چھپی ہوئی ایک خبر یاد آرہی ہے۔ آپ اس چھوٹی خبر کو بھی بڑی خبر سمجھیں ۔خبر کچھ یوں ہے ”بیٹوں کو میری دعاؤں سے مثالی کامیابی ملی، والدہ شریف برادران۔ نواز شریف اور شہباز شریف کو میری دعاؤں اور تسبیح پھیرنے کی وجہ سے بے مثال کامیابی ملی ہے۔ اس سے قبل بھی جب دونوں بھائیوں کو انتخابات میں کامیابی ملتی تھی تو ان کے والد میاں محمد شریف مرحوم کہا کرتے تھے کہ یہ تمہاری تسبیح اور دعاؤں نے کمال کردکھایا ہے۔ ان خیالات کا اظہار میاں محمد نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی والدہ نے رائیونڈ میں مبارک دینے کیلئے آنیوالے عزیز و اقارب اور رشتہ دار خواتین سے گفتگو کے دوران کیا۔ انہوں نے دونوں بیٹوں کو سعادت مند اولاد قرار دیا اور میاں نواز شریف کے بارے میں فخر سے بتایا کہ انہوں نے کبھی بھی میرے کسی حکم کو نہیں ٹالا“ …دیکھا آپ نے ماں کی دعاؤں کا کمال، صرف یہی نہیں بلکہ میرا ذاتی مشاہدہ بتاتا ہے کہ یہ مقدس ماں کی برکت ہے کہ دونوں بھائیوں میں آج تک مثالی اتفاق موجود ہے ”چھوٹا“ اپنے لئے نہیں بلکہ انتخابی مہم کے دوران بڑے بھائی کیلئے ووٹ مانگا کرتا تھا حالانکہ میاں شہباز شریف محنت لگن اور کارکردگی سے اپنا قد کاٹھ بھی بنا چکے ہیں۔
حیرت کی بات ہے کہ ان کی زاہدہ و عابد والدہ نے صرف میاں نواز شریف کے بارے میں کہا ہے کہ انہوں نے کبھی میری حکم عدولی نہیں کی۔ میاں شہباز کے بارے یہ دعویٰ نہیں کیا۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ دن پھیرتے رہتے ہیں۔ تاریکی اور روشنی ،خزاں اور بہار زندگی کا حصہ ہیں۔ میاں صاحبان پر مشکل وقت بھی آیا جب مشرف کی عدالت نے میاں نواز شریف کو سزا سنادی جو کچھ ہوا وہ سب کو معلوم ہے لیکن مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ماں کی دعا میاں نواز شریف کو موت کے منہ سے بہ حفاظت نکال کر لے گئی۔ انہوں نے قید و بند کی جو تکالیف دیکھیں وہ ان کی تربیت کیلئے ضروری تھیں۔ میری دعا ہے کہ وہ اپنے وعدوں کے مطابق ماضی کی غلطیاں نہ دہرائیں۔ غلطی کرنا انسان کی فطرت ہے اسلئے نئی غلطیاں کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ انہوں نے ماضی سے کیا سیکھا اور وہ اپنے وعدے پر کس حد تک قائم رہتے ہیں۔ اسکا اندازہ ان کے برسراقتدار آنے کے ایک ماہ کے اندر اندر ہوجائیگا اگر انہوں نے پھر انہی خوشامدیوں ،قصیدہ نگاروں اور حواریوں کو بڑے بڑے عہدوں پر بٹھایا، پھر انہیں ہی سفارتیں مشاورتیں دیں جو اکثر چینلوں پر ان کی مبالغہ آمیز تعریفیں کرتے اور بیچاری زبان سے الفاظ کے تاج محل تعمیر کرتے کرتے اپنا وقار کھو بیٹھے ہیں تو سمجھ لیجئے کہ میاں صاحب ابھی تک حواریوں کے دربار سے آزاد نہیں ہوئے یہ درباری والدہ ماجدہ کی دعاؤں کے باوجود ان کی کشتی میں بھاری پتھر ثابت ہوں گے۔مفادات کی مجبوری کے تحت لوگ مسلسل صبح و شام قصیدہ گوئی ،جھوٹی تعریف اور خوشامد میں مصروف رہتے ہیں اور ان کارناموں کے طفیل لوگوں کی نگاہوں میں اپنا اعتبار ،وقار اور اپنے الفاظ کا تقدس کھو بیٹھتے ہیں۔ ان کو جب بڑی کرسیوں پر بٹھا یا جائے تو وہ کرسیاں بھی اپنا وقار کھو بیٹھتی ہیں اور لوگوں کی نظروں میں ”مخول“ (مذاق) بن جاتی ہیں۔معذرت بات قدرے دور نکل گئی۔ ذکر ہورہا تھا ماں کی دعا جنت کی ہوا۔ ایک روحانی بزرگ کہا کرتے تھے کہ اگرچہ مقدر اٹل ہوتا ہے لیکن فقیر اور ماں کی دعا کبھی کبھی مقدر بھی بدل دیتی ہے۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ ماں کی فریاد سے متاثر ہو کر مقدر میں بھی تبدیلی کردیتے ہیں اور سچی بات ہے کہ میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے میاں برادران اور خاص طور پر میاں نواز شریف کا مقدر بدلتے دیکھا ہے۔ میاں نواز شریف والدہ کے سب سے زیادہ لاڈلے بیٹے ہیں، میاں صاحب کا روئے زمین پہ ا پنا کوئی گھر نہیں۔ وہ والدہ کے پاس والدہ ماجدہ کے گھر میں رہتے ہیں۔ذرا چھیڑ خانی کی خاطر یہ فقرہ لکھ دوں تو برا نہ منائیں کہ میرے اور میاں صاحب کے درمیان فقط ایک ہی قدر مشترک ہے کہ میرا بھی ان کی مانند کوئی گھر نہیں دوسری قدر مشترک گنجا پن تھا جو ا ب نہیں رہی، میں مستقل مزاج واقع ہوا ہوں چنانچہ اب تک گنجا ہوں بس میرا وہی گھر ہوگا جہاں محلے دار دفنا آئیں گے۔
خیال آتا ہے کہ میاں محمد شریف مرحوم و مغفور جو نہایت نیک اور مخیر شخصیت تھے، اپنے بیٹوں کی وطن واپسی کا خواب آنکھوں میں سجائے دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ظالم حکمران نے بیٹوں کو باپ کے جنازے میں شرکت کی بھی اجازت نہ دی۔ آج ان کی روح کس قدر آسودہ اور خوش ہوگی کہ ان کے تابع فرمان فرزندوں کو ایک بار پھر اقتدار مل رہا ہے۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ میاں نواز شریف اپنی عابد و زاہد ماں کے بڑے ہی لاڈلے ہیں۔ میں نے پرانے وقتوں میں اس کے چند ایک مناظر دیکھے ہیں جو میرے حافظے میں خوشبودار واقعات کی مانند محفوظ ہیں۔ جلا وطنی کے دوران میاں نواز شریف اکثر اپنی والدہ کو وہیل چیئر پر بیٹھا کر حرم نبوی میں لے جایا کرتے تھے جہاں وہ ہمہ وقت ان کے لئے دعاؤں میں مصروف رہتی تھیں۔ والدہ ماجدہ کی دعائیں انہیں اقتدار تک تو لے آئیں لیکن اس سے آگے اب وہ ایک نئی منزل میں قدم رکھ رہے ہیں ملک و قوم کی ذمہ داری سنبھال رہے ہیں تجربہ بتاتا ہے یہاں دعائیں کام نہیں آئیں گی۔ یہاں صرف اور صرف کارکردگی کام آئے گی۔ دعائیں مصیبتوں کے پہاڑوں کو تو ریزہ ریزہ کردیتی ہیں لیکن اقتدار میں کامیابی اپنی کارکردگی ، خلوص نیت، ذہنی استعداد، اعلیٰ کردار اور اعلیٰ بصیرت سے حاصل ہوتی ہے۔
تازہ ترین