• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ نہایت تشویشناک بات ہے کہ گزشتہ دو تین برسوں میں ملکی قرضوں کی سطح تو بلند ہوتی گئی لیکن اُس کے ملکی معیشت پر کسی بھی طرح کے مثبت اثرات نظر نہیں آ رہے ہیں۔ صرف ایک سال کے دوران سرکاری قرضے 3.7کھرب روپے سے بڑھ کر 35.8کھرب روپے کی سطح پر پہنچ گئے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق وفاقی حکومت کے قرضے جو نومبر 2019میں 32.1کھرب روپے تھے، نومبر 2020میں بڑھ کر 35.8کھرب روپے ہو گئے۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اِس رقم میں آئی ایم ایف سے لیا گیا قرضہ اور قرض کے اس حجم میں کریڈٹرز کے بالواسطہ طور پر حکومت کے ذمے واجبات بھی شامل نہیں ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مجموعی سرکاری قرضہ کتنا زیادہ ہو گا۔ واضح رہے کہ 2018میں وفاقی حکومت پر 24.2کھرب روپے کا قرضہ واجب الادا تھا جس میں یومیہ 13.2بلین روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ مرکزی بینک کے مطابق وفاقی حکومت کے طویل مدتی قرضوں میں زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیاہے جو 16.6کھرب سے بڑھ کر 19.1کھرب روپے ہو گئے جبکہ ایک سال کے دوران مقامی قرضے 7.2کھرب سے چوبیس اعشاریہ ایک کھرب ہو گیا۔ قرضوں میں ہونے والا یہ اضافہ کمزور ملکی معیشت کے لئے کسی بھی طرح سود مند نہیں کیونکہ ہمارے ہاں اِن قرضوں کا بیشتر حصہ پچھلے قرضوں کے صرف سود کی ادائیگی میں ہی خرچ ہو جاتا ہے جبکہ دنیا بھر میں حکومتیں قرض لیتی ہیں لیکن اس کے مصارف زیادہ تر ترقیاتی و عوامی فلاح سے متعلق ہوتے ہیں۔ اِس صورتحال پر ہمارے حکومتی معاشی ماہرین کو غور کرکے ایسی معاشی پالیسیاں بنانی چاہئیں جن میں کم سے کم قرضوں کے حصول اور ملکی وسائل پر زیادہ توجہ دیتے ہوئے ملکی صنعتوں کو فروغ دیا جائے تاکہ معیشت عارضی سہاروں پر نہیں بلکہ مضبوط بنیادوں پر استوار ہو۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں0092300464799

تازہ ترین