اسلام آباد (انصار عباسی) براڈشیٹ تنازع کے معاملے پر حکومت کے رد عمل میں کوئی عجیب بات حتیٰ کہ اسکینڈل سا محسوس ہوتا ہے۔
6؍ جنوری 2021ء کو وزارت خارجہ میں بین الوزارتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں دفتر خارجہ،نیب، وزارت خزانہ، اٹارنی جنرل آفس اور وزارت قانون کے عہدیداروں نے شرکت کی۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ یو بی ایل برطانیہ کو ’’غیر مجاز انداز سے رقم‘‘ لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن کو مطلع کیے بغیر براڈشیٹ کو ادا کرنے پر قانونی نوٹس بھیجا جائے۔
14؍ ستمبر 2020ء کو دی نیوز نے لندن میں اپنے نمائندے مرتضیٰ علی شاہ کی خصوصی خبر شائع کی تھی جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ پاکستانی حکومت نے یو بی ایل لندن آفس کو ہدایات جاری کی ہیں کہ براڈشیٹ کو 27؍ ملین ڈالرز ادا کیے جائیں۔
اس سے قبل براڈشیٹ نے لندن میں ہائیکورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا اور لندن میں حکومت پاکستان کے بینک اکائونٹس کو منجمد کرنے کا حکم حاصل کر لیا تھا۔
قابل بھروسہ ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے مرتضیٰ علی شاہ نے لکھا تھا کہ ’’ہدایات حال ہی میں جاری کی گئی ہیں تاکہ لندن ہائیکورٹ کے تھرڈ پارٹی ڈیٹ کے حوالے سے احکامات کی تعمیل کی جا سکے جس کے تحت یونائیٹڈ نیشنل بینک کو گزشتہ ماہ ہدایات کی گئی تھی کہ ریاست پاکستان کے اکائونٹس میں 27؍ ملین ڈالرز کی رقم منجمد کرلی جائے۔‘‘
اس خبر کی تردید کی گئی اور نہ ہی تصدیق۔ خبر میں مزید لکھا تھا کہ ’’ذریعے کا کہنا تھا کہ حکومت نے لندن میں بینک کو ہدایت کی ہے کہ لندن ہائیکورٹ کے فیصلے کے مطابق ادائیگی کیلئے رقم تیار کی جائے۔‘‘
مرتضیٰ علی شاہ کی خبر میں لکھا تھا کہ ’’جون 2020ء میں نیب نے خزانہ ڈویژن سے 4.41؍ ارب روپے مانگے تھے تاکہ براڈشیٹ کی بقایہ جات کی ادائیگی کی جا سکے۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب براڈشیٹ نے نیب کیخلاف چارٹرڈ انسٹی ٹیوٹ آف آربیٹریشن لندن میں ثالثی کا مقدمہ جیت لیا تھا۔ مقدمہ میں سود کے ساتھ دو کروڑ 15؍ لاکھ 89؍ ہزار 460؍ ڈالرز کی ادائیگی کا فیصلہ سنایا گیا۔ چارٹرڈ انسٹی ٹیوٹ نے نیب کے ذریعے حکومت پاکستان پر بھی جرمانہ کیا جو 56؍ لاکھ 37؍ ہزار 130؍ ڈالرز تھا۔
اس طرح ادائیگی کی مجموعی رقم دو کروڑ 72؍ لاکھ 26؍ ہزار 590؍ ڈالرز ہوگئی۔ گزشتہ سال ستمبر میں جو کچھ بھی ہوا، اسے دیکھتے ہوئے اور سرکاری دستاویز دیکھتے ہوئے جو فیصلے 6؍ جنوری 2021ء کو بین الوزارتی اجلاس کے دوران کیے گئے وہ انتہائی عجیب ہیں۔
اجلاس کے نتیجے میں سامنے آنے والی دستاویز پر ’’خفیہ‘‘ درج ہے اور اس کا عنوان ’’بین الوزارتی اجلاس جس میں براڈ شیٹ ایل ایل سی بنام نیب کیس میں ہونے والی پیشرفت کا جائزہ لیا گیا‘‘ ہے۔
اس دستاویز میں لکھا ہے کہ براڈشیٹ کے نیب کیخلاف لندن ہائیکورٹ کے فیصلے کے نتیجے اور اس کے بعد غیر مجاز انداز سے یو بی ایل برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کے اکائونٹس سے رقم نکلوائے جانے کے معاملے پر وزارت خارجہ میں 6؍ جنوری 2021ء کو اسپیشل سیکریٹری (یورپ) کی سربراہی میں بین الوزارتی کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ اجلاس کے اہم نکات (منٹس) یہ تھے۔
’’2-اجلاس میں مندرجہ ذیل فیصلے کیے گئے: ۱) اپنے کلائنٹ یعنی لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن کو مطلع کیے بغیر غیر مجاز انداز سے رقم جاری کرکے تیسرا فریق بن کر اعتماد کو ٹھیس پہنچانے پر یو بی ایل برطانیہ کو قانونی نوٹس بھیجا جائے۔
اٹارنی جنرل آف پاکستان آفس اس ضمن میں قانونی معاونت فراہم کرے گا۔ ۲) نیب باقی ماندہ رقم (تقریباً 0.235؍ ملین ڈالرز) جلد از جلد پاکستانی ہائی کمیشن کو بھیجے گا۔ ۳) پاکستانی ہائی کمیشن کے بینک اکائونٹس یو بی ایل برطانیہ سے کسی اور بینک منتقل کیے جائیں گے۔ وزارت خزانہ اس ضمن میں جلد از جلد منظوری دے۔ ۴) عدالتی کارروائی، بشمول مفصل عدالتی فیصلوں، سے وزارت خارجہ کو آگاہ کیا جائے گا۔
3- معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے، متعلقہ وزارتوں اور محکموں سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ بلاتاخیر اس اجلاس میں کیے جانے والے فیصلوں پر عمل کریں اور اس وزارت کے ساتھ پیشرفت کا تبادلہ کریں۔‘‘
اس دستاویز پر ڈائریکٹر (یورپ اول) محمد مبشر خان نے دستخط کیے اور اسے اجلاس میں شریک نیب کے ڈی جی آپریشنز ظاہر شاہ، اٹارنی جنرل کے دفتر میں قائم ہیڈ آف انٹرنیشنل ڈسپیوٹ یونٹ کے سربراہ احمد اسلم، وزارت قانون کے کنسلٹنٹ خرم شہزاد اور ڈپٹی سیکریٹری فنانس جان بہادر کو فراہم کیا گیا۔