• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے نوجوان دوست نے تنہائی کو غنیمت جانا تو مجھ سے پوچھا ’’ہر وقت لوگ آپ کے گرد، عورتیں مرد، دونوں فریفتہ ہیں، آپ کی گفتگو سنتے ہیں، محفل اِس کے حصار میں رہتی ہے، یہ کیا چکر ہے؟ آپ کو تو تنہائی نصیب ہی نہیں ہوتی، نہ آپ کتابیں پڑھتے ہیں، نہ ہی ٹی وی دیکھتے ہیں اور تو اور آپ کو اخبار پڑھتے بھی نہیں دیکھا، دوستی کی وجہ سے میں آپ کے گھر سے بھی واقف ہوں، میں نے آپ کے گھر کے افراد اور ملازمین سے بھی یہی سنا کہ کتابیں لوگ بھیجتے ہیں مگر کبھی پڑھتے نہیں دیکھا، یہ گورکھ دھندہ کیا ہے؟‘‘ ہلکی سی مسکراہٹ، پھر میں نے نوجوان دوست سے کہا کہ اِن میں سے ایک بات تو میری اہلیہ ماریہ گِل بھی کہتی ہیں کہ ’’لوگ آپ کے گرد رہتے ہیں، چھٹی کا دن بھی مصروف، لوگوں سے فراغت نہیں پھر فون بےشمار آتے ہیں، جیسے شہد کے گرد مکھیاں، ایسے ہی آپ کے گرد انسان، نیند پوری نہیں ہوتی، آپ کی زندگی کا دوسرا نام مصروفیت ہے مگر میں خوش ہوں کہ آپ انسانوں کی خدمت کو ہمیشہ اولیت دیتے ہیں، آپ انسانوں کے دل نہیں توڑتے‘‘۔

میں نے نوجوان دوست کو جواباً اپنی خدمت گزار اور نیک سیرت اہلیہ کا جواب سنایا تو وہ کہنے لگا ’’آج میں یہ سارا چکر پوچھ کے رہوں گا، آج آپ کو یہ سب کچھ بتانا پڑے گا‘‘۔

خواتین و حضرات! میں نوجوان دوست کی ضد کے سامنے ہار گیا حالانکہ میں خواتین کو اکثر محسن نقویؔ کا یہ شعر سناتا ہوں:

یہ کہہ کر آج اُس سے بھی تعلق توڑ آیا ہوں

مری جاں، مجھ کو ضدی لڑکیاں اچھی نہیں لگتیں

زندگی کئی برس پار کر آئی ہے، ہر ایک برس دریا کی مانند تھا، جب بھی ایک دریا پار کرتا تو ایک اور دریا میرے سامنے ہوتا۔ میں ایک دیہاتی آدمی ہوں، میٹرک تک اپنے علاقے میں پڑھا، بچپن میں صحت کے مسائل نے کئی مرتبہ سر اٹھایا مگر شافی کا سایہ رہا۔ بہت شرارتی تھا، سارا دن کھیلتا رہتا، بہت باتونی تھا، میرے مرحوم ماموں مجھے تمام شرارتی بچوں کا استاد قرار دیتے تھے۔ میٹرک کے بعد میں گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہو گیا، ایسا داخل ہوا کہ اس کی محبت سے ابھی تک نہیں نکلا۔ میری نیند ہمیشہ ہی کم رہی۔ میٹرک تک یہ عالم تھا کہ سارا دن کھیلتا رہتا، میری ماں اکثر مجھے پنجابی میں کہتی تھیں ’’پتر کدی کتاباں نوں ہتھ وی لا لیا کر، سارا دن تیریاں کھیڈاں نئیں مکدیاں‘‘ (بیٹا کبھی کتابوں کو ہاتھ لگا لیا کرو، سارا دن تمہارے کھیل ہی ختم نہیں ہوتے)۔ مگر ایک بات عجیب تھی کہ میری والدہ مجھے تہجد کے لئے جگا دیا کرتی تھیں، میں عبادات سے فارغ ہو کر تھوڑی سی دیر کے لئے کورس کی کتابیں دیکھ لیتا، ملازمین کا انتظار کئے بغیر صبح سویرے خود چائے بنا کر والدہ کی خدمت میں پیش کرتا، یہ عمل کئی برس جاری رہا، اللہ تعالیٰ کا ہمیشہ کرم رہا، ہمارا دستر خوان کھلا تھا، ہم خوش قسمت تھے کہ لوگ ہمارے دستر خوان پر آتے، ہمارا کچن ہر وقت آباد رہتا تھا۔ وہ جو سحری کے وقت تھوڑا سا پڑھتا تھا، اُسی سے اسکول کا کام چل جاتا۔ یہ تو بہت بعد میں کرشن نگر لاہور میں علی محمد خواجہ کے گھر علامہ طالب جوہری نے مجھے بڑی شفقت سے بتایا کہ ’’جو لوگ اس پاک وقت میں مطالعہ کرتے ہیں، وہ بھولتے نہیں‘‘۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں ادبی، صحافتی اور سیاسی سرگرمیاں عروج پر رہیں، دوستیاں بھی زیادہ تھیں، مصروفیات نیند کھا گئیں تو میں ایک صاحبِ حال کے پاس گیا، ان سے کہا کہ یہ لڑکے لڑکیاں میری جان کیوں نہیں چھوڑتے؟ مجھے تنہائی نصیب نہیں ہوتی۔ اُس صاحبِ کمال نے میری نیند اور کم کر دی، اس نے کہا ’’تم رات علی ہجویریؒ کے مزار پر جایا کرو، معین الدین چشتیؒ کی چلہ گاہ کے پاس ساری رات درود پاک پڑھا کرو‘‘۔ میں نے اِس پر عمل کیا، ہر شام بن سنور کر نیو ہوسٹل سے نکلتا اور رات جاگ کر صبح سویرے آ کر سو جاتا، نیو ہوسٹل میں میرے قریبی دوست یہ سمجھتے تھے کہ میں کہیں عیاشی کرنے جاتا ہوں، میں نے بھی یہ راز، راز ہی رہنے دیا۔ کالج میں بھی لوگ سمجھتے تھے کہ جہاں دس پندرہ لڑکیاں بیٹھی ہوں، وہاں برلاس بیٹھا ہو گا۔ وقت گزر گیا، دورانِ تعلیم ہی ریڈیو پر پروگرام کرتا تھا، سیاست شوق تھا مگر نوابزادہ نصراللہ نے رخ صحافت کی طرف موڑ دیا۔ آج میں صحافی ضرور ہوں مگر سیاستدانوں کو سیاسی چالیں سمجھاتا ہوں۔ کم از کم تین وزرائے اعظم کو سیاسی چالیں سمجھائیں، تینوں کا دور دور تک امکان نہیں تھا کہ وہ کبھی وزیراعظم بن سکیں گے۔

جوانی آئی تو حادثات آ گئے، والدین نہ رہے، ایک بھائی بھی چلا گیا، بس پھر باقیوں کی پرورش کی، اُن کی شادیاں کیں، اب سب خوش ہیں۔ نذیر ناجی صاحب میرے محسن ہیں، انہوں نے مشکل ترین وقتوں میں میرا ساتھ دیا۔ میں نے ساری جوانی بیس بیس گھنٹے کام کیا۔ اب کبھی مدتوں بعد پانچ گھنٹے سونے کو مل جائیں تو شکر کرتا ہوں ورنہ نیند کے لئے تو صرف ڈھائی تین گھنٹے ہی ملتے ہیں۔ ہمارے شعبے میں بےروزگاری کے ایام بھی آ جاتے ہیں۔ ایک مرتبہ بےروزگاری تھی تو میری بہن فرحانہ برلاس کہنے لگیں ’’بھائی! ہم نماز بھی پڑھتے ہیں، روزے بھی رکھتے ہیں، مجھے حالات سے خوف آتا ہے مگر آپ کبھی ڈولتے ہی نہیں‘‘ میں نے ان سے کہا، آپ مجھ سے چھوٹی ہیں، میں نے ڈولنا سیکھا نہیں، اگر میں ہار مان گیا تو پھر تمام بہن بھائیوں میں مایوسی پھیلے گی۔ میرا یقین ہے کہ رزق، عزت اور سب کچھ عطا کرنے والا خدا ہے۔ اس عطا میں غم اور آزمائش بھی شامل ہے، اس میں فاقہ کشی بھی آتی ہے مگر حوصلہ رکھو کہ گندم چاول تو ہمارے گھر کے ہوتے ہیں۔

میں نے نوجوان دوست سے کہا، بس اب زیادہ باتیں رہنے دو۔ آپ کو پتہ ہے کہ میں پانچ طرح کے لوگوں سے دوستی نہیں کرتا، دولت اور جاگیروں سے محبت نہیں رکھتا، سونے چاندی سے کوئی لگن نہیں، وطن سے محبت کو ایمان کا حصہ سمجھتا ہوں اور دھرتی کو لُوٹنے والوں کو برا سمجھتا ہوں۔ رہی بات گفتگو کی تو جو تین دروازے شمس تبریزؒ نے مولانا روم کو بتائے تھے ان میں سے گزر کر آتا ہوں۔ جہاں تک کتابوں کی بات ہے، وقت نہیں ملتا، ویسے بھی میں علم کے دروازے پر دستک دے کر بہت کچھ پا چکا ہوں۔ مرشد نے بہت کچھ سمجھایا ہے۔ مسافت کی زندگی مٹی سے بنے انسان سمجھ جائیں تو دولت کے انبار نہ لگائیں، ظلم کریں اور نہ ہی کسی کا حق کھائیں۔ پچھلے ایک ہزار سال میں اقبالؒ سے بڑا فلاسفر نہیں آیا مگر ہمارے لوگ سمجھ ہی نہیں پائے۔ آخری کتاب کے بعد مذہب اور نظام پر بات ختم ہو جانی چاہئے تھی جب انسانوں کے بنانے والے نے مکمل ضابطۂ حیات دے دیا تو اب پھر انسان کس کے متلاشی ہیں؟ اپنے اشعار آپ کی خدمت میں کم ہی پیش کرتا ہوں مگر پھر آج اس خاکسار کا شعر ہی سن لیجئے کہ ؎

یہ الگ بات کہ کچھ بھی نہیں لکھا میں نے

لفظ لکھوں تو زمانہ مرے درشن مانگے

تازہ ترین