مومنہ حنیف
زندگی میں منزل اور مقاصد کا حصول، اپنے خوابوں کو حقیقت کا رنگ دینا تو ہر نوجوان کی خواہش ہوتی ہے، مگر اس میں کامیابی ہر ایک کا مقدر نہیں ہوتی۔ کبھی ہم نے سوچا ایسا کیوں ہے؟ دراصل، کامیاب افراد کی زندگی بہت منظم ہوتی ہے اور وہ بہترین منصوبہ بندی کے سبب راہ میں آنے والے مسائل اور رکاوٹوں کو عبور کرکے اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب ہوجاتے ہیں، جبکہ ناکام لوگ اپنے مقصد کو پانے کے لیے اُس حدتک لگن اور جوش وجذبے کا مظاہرہ نہیں کرتے جس کی ضرورت ہوتی ہے۔
ان کی عموماً خواہشات اس قسم کی ہوتی ہے کہ پیسہ کمانا ہے، نیا گھر بنانا ہے، گاڑی لینی ہے، کاروبار کو اتنا پھیلانا ہے، فلاں عہدے پر پہنچنا ہے وغیرہ وغیرہ، لیکن عزم وحوصلے کی کمزوری کے باعث ان کو چھوٹی چھوٹی رکاوٹیں بھی بہت بڑی معلوم ہونے لگتی ہیں۔ ایسی صورت میں ضروری ہے کہ چشم تصور سے خود کو اس منزل کا حامل دیکھے اور کامیابی کے ذائقہ کو محسوس کرے۔ یہی وہ لمحہ ہے جو آپ کے اندر لگن پیدا کرتا ہے۔ پھر آپ اپنے مقصد حیات کو پانے کی سعی کرتے اور بالآخر اس میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
ہمارے نوجوانوں میں سب سے بڑا خوف ’ناکام‘ ہوجانے کا خوف ہوتا ہے۔ اس کی مثال کچھ اس طرح ہےاس کہ ہرن کےدوڑنے کی رفتار شیر کی رفتار سے زیادہ ہے، اس کے باوجود ہرن اکثر شیر کا شکار بن جاتا ہے۔ خوف کی وجہ سے بار بار پیچھے مڑ کر دیکھتا ہے کہ کہیں شیرقریب تو نہیں آیا، یہی خوف اور ڈر ہرن کی رفتار پر اثرانداز ہوتاہے اور بالآخر شیر اس تک پہنچ جاتا ہے-آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر نوجوان ایسے ہی مسائل کاشکار ہیں، ناکامی کا خوف اور اپنی خداد صلاحیت پر عدم اعتمادکی وجہ سے اکثر کوشش کے باوجود بھی اپنے ارادوں اور مقاصد میں ناکام رہ جاتے ہیں- کسی بھی کام اور کسی بھی مہم کو شروع کرنے سے پہلے انتہائی ضروری ہے کہ ناکامی کا خوف دل سے نکال دیاجائے۔
مستقل مزاجی کے ساتھ اللہ تعالی کی دی ہوئی صلاحیتوں پر بھرپور اعتماد کریں، اور ان صلاحیتوں کو کام میں لائیں اور پورا یقین ہو کہ میں یہ کام احسن اور بہترین طریقے سے انجام دے سکتا ہوں- آپ ناکامی کا خوف دل سے نکال دیں ، اعتماد کے ساتھ کسی بھی کام کو شروع کریں ، جہد مسلسل کے ساتھ اپنے کام میں مگن رہیںتو ایک نہ ایک دن آپ ضرور کامیاب ہوجائیں گے۔ ہوسکتاہے ایک کوشش ہی آپ کو کامیاب بنادے، جبکہ یہ بھی ممکن ہے کہ کئی بار کی کوشش کے بعد اپنی منزل تک پہنچیں۔ ’انسان وہی مضبوط ہوتا ہے جو سو بار گر کر بھی سو بار اٹھے۔‘ معروف فلسفی اور چین کی امیر ترین شخصیت ’جیک ما‘ تین بار کالج میں فیل ہوا۔ 30 مرتبہ نوکری حاصل کرنے میں ناکامی ہوئی۔
ہزاروں کو نوکری ملی لیکن وہ تب بھی ناکام رہا۔ ہاروردڈ جانے کے لیے دس بار درخواست جمع کروائی۔ پولیس ڈیپارٹمنٹ نے بھی مسترد کیا لیکن ہمت نہ ہاری۔ آخر میں جیک ما نے ’علی بابا ڈاٹ کام ویب سائٹ‘ بنائی اور آج وہ دنیا کے 20 امیر ترین انسانوں میں ایک ہے۔ بل گیٹس کو ہی لے لیجیے۔ آج پوری دنیا کی توجہ کا مرکز یہ امیر ترین شخص 1955ء میں امریکہ کے شہر واشنگٹن کے نواحی علاقہ نیسل کے ایک عام گھرانہ میں پیدا ہوا۔ بچپن میں ہی اس کی دوستی کمپیوٹر سے ہوگئی اور وہ کمپیوٹر کی دنیا میں مگن ہوگیا۔
بل گیٹس کی زندگی میں ٹرننگ پوائنٹ اس وقت آیا جب وہ ہاروڈ یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم تھا اسےکمپیوٹر سے عشق تھا اوروہ ہر وقت کمپیوٹر کی دنیا میں مگن رہتا اور اسی لگاؤ کی وجہ سے وہ تعلیمی میدان میں بہت پیچھے رہ گیا تھا، اسے یونیورسٹی سے خارج کردیا گیا تھا یونیورسٹی سے نکال دئیے جانے کے بعد اپنے ایک ہم جماعت پال ایلن کے ساتھ مل کر اپنے خواب کو پورا کرنے کا عزم وارادہ کیا۔۔اس نے اپنے دوست کے ساتھ مل کرایک خاص پروجیکٹ پر کام شروع کردیا۔ وہ ایک ایسی خاص زبان ترتیب دینا چاہتے تھا، جس سے کمپیوٹر چلانا آسان ہو۔
دونوں دوستوں نے اپنے اس مقصد کے حصول کی خاطر دن رات ایک کردیا اور بالآخر اپنی کوشش میں کامیاب ہوگئے اور انہوں نے ایک ایسی زبان تیار کر ڈالی جس کی بدولت کمپیوٹر کی مانگ میں بے تحاشہ اضافہ دیکھنے کو ملا، جس سے دونوں دوستوں کا حوصلہ بھی بڑھ گیا۔انہوںنے اس میدان میں اک نیا افق تخلیق کرنے کا پروگرام ترتیب دے ڈالا اور اپنے اس پروگرام کو حتمی شکل دینے کے لیے وہ میکسیکو چلے گئے۔ میکسیکو پہنچ کر انہوں نے مائیکرو سافٹ کارپوریشن کی بنیاد رکھی جس کی چھتری تلے انہوں نے ایک ایسا سافٹ ویر تیار کیا، جس کے چرچے دنیا کے طول وعرض میں ہونے لگے اور اسے دنیا کے کونے کونے میں خریدا جانے لگا اور پھر ایک دن ایسا آیا کہ وہ دنیا کا امیر ترین شخص بن گیا۔
مشہور موجد تھامس ایلوا ایڈیسن کے لیے کہتے ہیں کہ اس پر بجلی کے بلب کو تجارتی پیماے پر بنانے کی دھن سوار تھی۔ اس نے کام کے لیے سیکڑوں نہیں، ہزاروں طریقے اپنائے۔ ہر بار ناکام ہونے پر وہ خود کو سمجھاتا تھا کہ ابھی میں وہ طریقہ تلاش نہیں کرپایا جو مجھے کامیابی کی جانب لے جائے۔ اس دھن میں وہ دس ہزار مرتبہ ناکام ہوا ،مگر ایک بار بھی مایوس یا دل شکستہ نہیں ہوا۔ بالآخر دس ہزار ناکامیوں کے بعد کامیابی اسی کے حصے میں آئی اور آج انسان ذات تاریکی سے نکل کر روشنی میں آچکی ہے۔ بجلی کے بلب نے صرف رات کا اندھیرا ہی دور نہیں کیا بلکہ اسی کے کے ساتھ لاکھوں قسم کی دیگر ایجادات چل رہی ہیں۔
ایڈیسن جیسے دھن کے پکے ہزاروں انسانوں کی کامیابیاں، دراصل ان کی اوّلین ناکامیوں کی مرہونِ منّت ہیں۔کامیاب لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ان کا مستقبل ان کے اپنے ہاتھوں میں ہے۔ وہ دوسروں کو الزام دینے کے بجائے اپنی کوشش پر بھروسہ کرتے ہیں اور کامیاب ٹھہرتے ہیں، لہٰذا، یاد رکھیں! کوئی لاکھ سمجھائے اپنے خواب پر سمجھوتہ نہیں کریں۔ ناکامی، ایک استاد کی طرح ہےجوآگے بڑھنے کا راستہ بتاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر آپ کو کامیاب ہونا ہے ۔
تو سب سے پہلے اپنے اندر سے ناکامی کے خوف کو نکال باہر کرنا ہو گا، کیوں کہ خوف آپ کی صلاحیت کو غفلت کے پَردوں میں مخفی کر دیتا ہے، جس سے آپ کی کارکردگی محدود ہو جاتی ہے۔ اور محدود کارکردگی سے لا محدود نتائج حاصل کرنا ناممکن ہے۔آپ تعلیمی میدا ن میںہیں، نوکری کر رہے یا کاروبار ، ہر صورت کامیابی ہی کا سوچیں اور یقین رکھیں کہ آپ کامیاب ہی ہوں گے تو دل خود محنت پر بھی آمادہ ہوتا ہے اور کامیابی آپ کو صرف چھوتی ہی نہیں ہے بلکہ گلے سے لگا لیتی ہے۔یاد رکھیں کہ مثبت سوچ سورج کی کرنوں کی طرح زندگی میں اُجالا کر دیتی ہے۔
کامیابی اپنے ہی خواب کے تعاقب میں رہتی ہے۔ ایک بات یہ بھی یاد رکھیے، ہر ناکامی، کامیابی کی جانب ایک قدم بڑھا دیتی ہے۔ ایک بات ذہن نشین کرلیں۔دنیا میں جو بھی کام کریں گے اس میں نفع اور نقصان کا امکان باقی رہے گا۔کامیابی اور ناکامی دونوں اندیشہ اپنی جگہ رہے گا۔انسان کو حقیقت پسند ہوناچاہیے۔ناکامی سے گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ یہ کامیابی کا زینہ ہے، بس ذرا سی ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمت کریں تو کیا ہو نہیں سکتا۔