• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت اسپاٹ فکسنگ کا ملبہ پاکستان پر نہ ڈالے

بھارت میں انڈین پریمئر لیگ (IPL) کے اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کے منظر عام پر آنے کے بعد کرکٹ کا مقبول کھیل آج کل تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔ گزشتہ دنوں بھارت کے معروف سابق ٹیسٹ فاسٹ بولر سری سانت سمیت 3 کھلاڑیوں کی اسپاٹ فکسنگ کے الزام میں گرفتاری نے کرکٹ حلقوں میں تہلکہ مچادیا ہے جبکہ اس واقعہ نے بھارت میں کرکٹ شائقین کو مایوسی سے دوچار کیا ہے۔ گرفتار ہونے والے کھلاڑیوں جن کا تعلق بھارتی اداکارہ شلپا شیٹھی کی راجستھان رائلز ٹیم سے ہے پر الزام ہے کہ انہوں نے بھاری رقوم کے عوض آئی پی ایل کے جاری میچوں میں اسپاٹ فکسنگ کی جس کے ثبوت پولیس کو ملے اور ان کھلاڑیوں کے علاوہ 11 بک میکروں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ وہ اپریل سے کھلاڑیوں کی نگرانی اور ان کے ٹیلیفون کالز ٹیپ کررہی تھی کیونکہ انہیں شک تھا کہ ان کھلاڑیوں کے تعلقات انڈر ورلڈ کے لوگوں سے ہیں مگر دوران تفتیش اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل سامنے آیا۔ سابق فاسٹ بولر سری سانت نے اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اُسے ایک بکی نے اکسایا تھا اور اس نے لالچ میں آکر یہ سب کیا۔ واضح ہو کہ سری سانت کا شمار بھارت کے بہترین باؤلر میں ہوتا ہے اور بھارت میں کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ سری سانت جیسا قومی کھلاڑی پیسوں کے لالچ میں آکر اپنے تماشائیوں اور کھیل کے ساتھ کبھی دغا کرسکتا ہے۔ سری سانت جو اب تک 27 ٹیسٹ میچز کھیل چکا ہے کو مبینہ طور پر بکیوں کی جانب سے 40 لاکھ روپے کی رقم ادا کی گئی تھی اور اس سے کہا گیا تھا کہ وہ مخالف ٹیم کو 14 رنز دلوائے گا نیز راجستھان رائلز ٹیم کے گرفتار ہونیوالے دیگر 2کھلاڑیوں انکت چاون اور اجیت چندیلا جوکہ اتنے معروف نہیں کو بھی بھاری رقم دے کر اسی قسم کا کام کرنے کو کہا گیا تھا۔ سٹہ بازوں اور کھلاڑیوں کے درمیان یہ طے ہوتا تھا کہ انہیں ایک اوور میں کم از کم کتنے رنز دینے ہیں جبکہ بولر کو اشارہ کرنا ہوتا تھا کہ وہ رنز دینے کیلئے تیار ہے اور یہ اشارے پینٹ میں تولیہ گھمانا، لاکٹ شرٹ سے باہر نکالنا یا شرٹ اتارنا وغیرہ ہوتے تھے۔ 9 مئی کے میچ میں سری سانت نے اپنے اسپیل کے دوسرے اوور میں 13 رنز دینا قبول کئے تھے اور سگنل تھا کہ وہ دوسرے اوور کے دوران ٹراؤزر میں چھوٹا تولیہ رکھے گا۔ اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کے منظر عام پر آنے کے بعد بھارتی کرکٹ بورڈ نے دباؤ میں ان کھلاڑیوں کو معطل کر دیا ہے۔ایک وقت تھا جب کرکٹ میچز صرف دو ملکوں کے درمیان ہوا کرتے تھے اور ہر ملک کی ایک کرکٹ ٹیم ہوا کرتی تھی لیکن آئی پی ایل نے کرکٹ کو دولت اور مقبولیت کی انتہا پر پہنچا دیا ہے۔ فلم اسٹارز اور بڑے بڑے صنعت کار کھلاڑیوں کے مالک بن گئے ہیں اور دولت کیساتھ ساتھ اس میں گلیمر بھی شامل ہوگیا ہے جسکے باعث کم عمر کھلاڑی اچانک کروڑوں میں کھیلنے لگے ہیں اور کرکٹ کروڑوں روپے کا گیم بن گیا ہے۔ اچانک بے پناہ دولت نے ہوس کو جنم دیا اور دولت کے لالچ میں کئی کھلاڑی ملکی و غیر ملکی سٹے بازوں کے دام میں پھنس گئے۔ آئی پی ایل میں سٹے باز محض ایک اوور میں خراب باؤلنگ کرانے پر کھلاڑی کو60 لاکھ روپے تک دیتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 2009ء میں انڈیا میں کرکٹ میچز کے دوران 427 ملین ڈالر کی سٹے بازی کی گئی۔ مدھیہ پردیش کے وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان نے آئی پی ایل میچز کو کھیل نہیں بلکہ ایک تماشہ قرار دیتے ہوئے اسے بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کے بقول آئی پی ایل میں انسانوں یعنی کھلاڑیوں کو نیلام کیا جاتا ہے اور آئی پی ایل کا مقصد محض پیسہ کمانا ہے نہ کہ کھیل کا فروغ۔ اس کے علاوہ آئی پی ایل میچز رکوانے کیلئے بھارتی سپریم کورٹ میں بھی درخواست دائر کی گئی ہے۔ درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ آئی پی ایل میں کھلاڑیوں کی نیلامی میں کئی بے قاعدگیاں ہو رہی ہیں اور اس میں کالا دھن استعمال کرکے اس سے مزید پیسہ بنایا جارہا ہے۔بھارت کی موجودہ کرکٹ ٹیم کے کئی کھلاڑیوں پر سٹے بازی کے الزامات لگتے رہے ہیں لیکن بھارتی کرکٹ بورڈ ان الزامات کی ہمیشہ تردید کرتا رہا ہے جبکہ ماضی میں جب بھی بھارتی کھلاڑیوں پر سٹے بازی کے الزامات لگے اس پر آئی سی سی کی طرف سے کوئی سخت ردعمل سامنے نہیں آیا جس کی مثال بھارتی کرکٹرز اظہر الدین، اجے جدیجا اور ونود کامبلے پر سٹے بازی کے لگنے والے الزامات تھے جس پر آئی سی سی نے کوئی سخت کارروائی نہیں کی۔ اسکے برعکس پاکستانی کھلاڑیوں محمد آصف، سلمان بٹ اور محمد حفیظ پر محض ایک غیر ملکی جریدے کی جانب سے الزامات لگائے گئے تو آئی سی سی نے تاخیر کئے بغیر ان کھلاڑیوں پر میچ کھیلنے پر پابندی عائد کر دی۔ کھلاڑیوں پر لگنے والے الزامات برطانوی پولیس یا کسی انٹیلی جنس ادارے کی تحقیقات کا نتیجہ نہیں تھے بلکہ اس کا ذریعہ ”نیوز آف دی ورلڈ“ کے رپورٹر کی تیار کردہ محض ایک وڈیو تھی جسے ٹھوس ثبوت سمجھتے ہوئے پاکستانی کھلاڑیوں کو نہ صرف قید کی سزا سنائی گئی بلکہ آئی سی سی نے ان پر کئی میچ کھیلنے پر پابندی عائد کرکے ان کا مستقبل تاریک کر دیا۔ اسی طرح جب ہمارے امپائرز کا معاملہ سامنے آیا تو آئی سی سی نے تحقیقات کرنے کا کہا جس کے بعد کمیٹی نے تمام ثبوت سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کیا۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان عامر سہیل کا یہ کہنا درست ہے کہ بھارتی اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل نے آئی سی سی اینٹی کرپشن یونٹ کی قلعی کھول دی ہے۔
یہاں یہ بات انتہائی قابل افسوس ہے کہ بھارتی اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کے منظر عام پر آنے اور بھارتی کھلاڑیوں کی جگ ہنسائی کے بعد بھارت اپنا ملبہ پاکستان پر گرانے کی کوششوں میں مصروف ہے جس کی واضح مثال بھارتی پولیس کا حالیہ بیان ہے جسے کئی دنوں سے بھارتی میڈیا شہ سرخیوں کے ساتھ پیش کررہا ہے۔ بھارتی پولیس کے بقول بھارت میں سٹے بازی کی کڑیاں پاکستان سے جا ملتی ہیں اور اسپاٹ فکسنگ ریکٹ پاکستان سے کنٹرول ہوتا ہے جس میں انڈر ورلڈ کے بعض لوگ ملوث ہیں جو پاکستان سے اسے آپریٹ کر رہے ہیں۔ اس طرح بھارتی حکومت اور میڈیا ایک طرف تو دنیا کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ بھارت کو مطلوب اندر ورلڈ کے یہ لوگ اور ان کے ساتھی پاکستان میں رہائش پذیر ہیں اور انڈر ورلڈ اور سٹے بازی کی سرگرمیوں میں بھی ملوث ہیں جس کا مقصد پاکستان کو بدنام کرنا اور دنیا کے سامنے اپنے آپ کو معصوم ظاہر کرنا ہے۔ بھارت کو چاہئے کہ وہ اسپاٹ فکسنگ کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کے بجائے اس کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرائے اور ملوث کھلاڑیوں کو سزا دے تاکہ دوسرے کھلاڑی عبرت حاصل کرسکیں اور کرکٹ اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرسکے کیونکہ یہی کرکٹ کے وسیع ترین مفاد میں ہے۔
تازہ ترین