یوں تو ملک کےمختلف شہروں میں بے شمار دارالمطالعہ ہیں لیکن سکھر کےجنرل دارالمطالعہ کو ملک کی قدیم ترین لائبری ہونے کا اعراز حاصل ہے ۔ اس کتب خانے نے اپنے قیام کے186سال مکمل کر لئے ہیں، یہ طویل العمری کے لحاظ سے سکھر میونسپل کارپوریشن سے بھی زیادہ قدیم ہے۔اسےملک کی پہلی جہاز راں کمپنی ’’انڈس فلوٹیلا‘‘ نے 1835ء میں اپنے ملازمین کے لئےاسٹیشن لائبریری کے نام سے قائم کیا،اُسی سال اس کا ایک سنگل اسٹیشن دریائے سندھ کے دائیں کنارے کی اس پہاڑی پر تعمیر کیا گیا جہاں آج کل سکھر میونسپل کارپوریشن کے دفاتر ہیں۔
اسی میں دارالمطالعہ بھی بنایا گیا تھا۔ اس دور میں سندھ پر تالپور خاندان کی حکم رانی تھی۔ 1843ء میں جب میانی کی جنگ کے بعد سندھ پوری طرح انگریزوں کے زیر نگین آگیا اور کیپٹن پوپ کوسکھر کاپہلا ضلعی حاکم مقرر کیا گیا تو اس لائبریری کی حیثیت بھی متاثر ہونے لگی ۔
1849ء میں سندھ پر مکمل قبضے کے بعد برطانوی سرکار نےکوٹری اور ملتان کے درمیان ریلوے لائن بچھا دی ، جس کی وجہ سے آبی راستے سے تجارت پربھی اثر پڑا۔کچھ عرصے بعد انڈس فلوٹیلا جہاز راں کمپنی ختم کردی گئی لیکن دارالمطالعہ برقرار رکھا گیا۔البتہ اس کا نام تبدیل کرکے’’ جنرل لائبریری‘‘ رکھ دیاگیا ۔ 1893ء میںسرکاری دستاویزات میں یہ ’’جنرل لائبریری سکھر ‘‘کے نام سے رجسٹرڈ ہوئی۔ابتدائی دور میں اس کا ذخیرہ کتب زیادہ تر انگریزی کتابوں پر مشتمل تھا۔
قیام پاکستان کے بعددیگر اداروں کی طرح اسے بھی نقصان پہنچا، نادر قلمی نسخے اور مالی فنڈز خورد برد کرلیےگئے ، اس کی وجہ سے یہ خستہ حالی کا شکار ہوگئی۔اس کی بحالی کے لیے کئی علم دوست شخصیات آگے بڑھیں، ان میں سابق ڈپٹی کمشنر سکھر آفتاب احمد خان، مہر الہی شمسی مرحوم، نصرت حسین سابق ڈپٹی کمشنر سکھر، نجم الاسلام صدیقی (شعبہ اردو سندھ یونیورسٹی)، اعظم الدین خان، الیاس یوسفانی سابق ڈپٹی کمشنر سکھر سید رحمان علی نقوی ایڈوکیٹ، مرزا افضل حسین، ڈاکٹر سید علی حیدر سرفہرست ہیں۔ ان کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میںانہیں لائبریری کا تاحیات اعزازی رکن منتخب کیا گیا۔
یہ لائبریری اب ایک ایسے علمی ، ادبی ، تہذیبی و ثقافتی مرکزکی حیثیت اختیار کر چکی ہے جو مطالعہ کتب اور اخبارات و جرائد کے مطالعہ کا ذوق و شوق بڑھانے کے علاوہ علم و ادب کے متعدد شعبوں میں تحقیق کرنے والوں کو بھی سازگار ماحول فراہم کرتی ہے۔ ادب و ثقافت کے حوالے سے تقاریب کے علاوہ قدیم وجدید علوم کی کتابوں کی نمائش کے سلسلے میں بھی لائبریری کوخاص اہمیت حاصل ہے۔ یہاں نایاب کتب کے قلمی نسخے اوربیش قیمت کتب بھی ہیں۔ ان میں ایشیا فائونڈیشن سے موصولہ نصابی اور جدیدعلوم کی کتب بھی شامل ہیں۔ دنیا کی تمام متمدن اقوام کتاب اور کتاب گھروں کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں۔تاریخ میں وہ اقوام نہایت بلند مقام پر دکھائی دیتی ہیں جن کے ارباب و اختیار نے کتب خانوں کے قیام اور ان کی ترویج پر خصوصی توجہ دی ہے۔
جنرل لائبریری بیرون شہرسے آنے والے طالب علموں کی علمی معاونت میں ایک نمایاں مقام رکھتی ہے۔ اس کا اپنا ایک دستور ہے۔رجسٹرڈ باڈ ی کے تحت انتظام چلایا جاتاہے۔ اس میں مختلف علوم و فنون کے علاوہ نصابی ضرورت کے تحت بھی کتابیں ہیں۔ ریڈنگ روم میں مطالعے کے ساتھ کتابوں کے اجراء کا بھی انتظام ہے جس کی وجہ سے لوگ اس سے بھرپور استفادہ حاصل کررہے ہیں۔
ایک برطانوی جریدے ’’سندھ گزیٹر‘‘نے اس لائبریری کو برطانوی عہدمیںقائم کی جانے والی قدیم لائبریری لکھا ہے، لیکن سندھی مفکرین اس دعوے کی تردید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لائبریری کا قیام تالپوردور حکومت میں عمل میں آیا تھا،جب کہ اس علاقے پر انگریزوں کا اثر نفوذ اس کے قیام کے 14 سال بعد ہوا تھا،صرف نام کی تبدیلی ان کے دور میں ہوئی تھی ۔
دارالمطالعے میں کتب کی تعداد تقریباً20000ہے۔شعبہ جات کتب 30عدد، شعبہ جات برائے استفادہ، عام پبلک، اطفال، طالب علم، تحقیق 5عدد،خواتین بذریعہ ہوم سروس 5عدد،تعداد انگریزی، اردو، سندھی (روزنامہ) 20عدد، تعداد رسائل ، اردو، سندھی، انگریزی، (ماہوار سہ ماہی ہفتہ روزہ) 25عدد، تعداد اجراء کتب 7سال کا اوسط 35ہزار 290 ہے۔جنرل لائبریری میں روزانہ درجنوں افراد کتب کا مطالعہ کرنے کیلئے آتے ہیں، جن میں زیادہ تعداد طلبہ و طالبات کی ہوتی ہے، تاہم وکیل، ڈاکٹرز، صحافی، عام شہری بھی یہاں پہنچ کر تاریخی کتب سمیت اپنی مطلوبہ معلومات کے حصول کے لئے مختلف کتابوں سے استفادہ کرتے ہیں۔