• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’جب تک شیر لکھنا نہیں سیکھ لے گا۔ اس وقت تک ہر داستان شکاری کی شان و شوکت بڑھائے گی‘‘۔

فیس بک پر ایک صاحب مطالعہ نے یہ افریقی ضرب المثل رقم کی۔ جو میرے دل میں اُتر گئی۔ اس کے معانی پر غور کرتا گیا تو ایک جہانِ تعبیر و تشہیر کھلتا گیا۔ آج کل کورونا نے ویسے ہی محصور کر رکھا ہے۔ طبیعت پر کبھی کبھی تنہائی یکبارگی حملہ آور ہوجاتی ہے۔ بہت سے ہنگاموں بھرے زمانے ذہن کے پردے پر جلوہ گر ہوتے ہیں۔ کبھی ملک کے اندر محفلیں سجتی ہیں۔ کبھی امریکہ یورپ مشرق بعید کی۔ پھر اللہ کا شکر بجا لاتا ہوں کہ اس نے ایک بھرپور فعال زندگی گزارنے کا موقع عنایت کیا۔ ان دنوں کتابیں مستقل رفیق ہیں۔ پرانی کتابیں آواز دینے لگتی ہیں۔ ان کی گرد جھاڑ کر سرہانے رکھ لیتا ہوں ایک طرح تو یہ بات اچھی لگتی ہے کہ باہر کی بے مغز بیٹھکوں میں فضول، بے معنی گفتگو سننے کی بجائے وہ حرف، وہ سطور پڑھتا ہوں جو نہ جانے کتنے رتجگوں، کتنی ریاضتوں کے بعد قلمبند کی گئیں۔ اک اک لمحہ دانش و ادراک کی رفاقت میں گزرتا ہے۔

شکار صرف شیروں اور دوسرے جانوروں، پرندوں کا ہی نہیں ہوتا۔ بیسویںصدی میں انسانوں اور قوموں کا شکار امریکہ اور یورپی ملکوں کا محبوب مشغلہ رہا ہے۔ یہ اپنے بحری جہازوں میں لشکر لے کر نکلتے تھے۔ پھر ان یلغاروں اور فتوحات کی کہانیاں لکھی جاتی تھیں جو مغرب کی شان و شوکت کو ہمارے ذہنوں پر نقش کرتی تھیں۔انسانوں اور قوموں کے شکاری مغرب میں مقیم ہیں۔ شکار اب بھی جاری ہے۔ اس کی داستانیں قلمبند نہیں بلکہ نشر کی جارہی ہیں۔ دکھائی جارہی ہیں۔ ہم ان کی سازشوں کا شکار ہونے والے بھی ان کی ترقی کی مدح سرائی اور مرعوبیت میں مصروف رہتے ہیں۔ مغرب کا میڈیا شکاریوں کا مخلص مورخ ہے۔ پہلے اخباروں اور کتابوں کے ذریعے ہمارے ذہنوں پر راج کرتا تھا۔ پھر ٹی وی چینلوں۔ ویب سائٹوں کے ذریعے یہی خدمت انجام دینے لگا۔ اب سوشل میڈیا۔ انٹرنیٹ پر بھی چھایا ہوا ہے۔ ٹیکنالوجی میں نئے نئے آلات ایجاد کرکے یہ اپنے شکاروں کی تشہیر کرتا ہے۔ اب مچانیں جنگلوں میں نہیں کمپیوٹر میں، موبائل میں لگی ہوئی ہیں اور ہم ہنسی خوشی بقائمی ہوش و حواس شکار ہورہے ہیں۔

آپ کسی حقیقت کی تلاش میں انٹرنیٹ کی سیاحت شروع کرتے ہیں تو انٹر نیٹ امریکہ یورپ کے گن گانے لگتا ہے۔ غیر محسوس طریقے پر ان کی شان و شوکت کو مستند کرنے لگتا ہے۔ گزشتہ دنوں مجھے معلوم کرنا تھا کہ امریکی یلغار سے کتنے افغان، کتنے عراقی، کتنے شامی تۂ تیغ کیے گئے تو ہر سائٹ پر پہلے امریکی فوجیوں کی ہلاکت کے اعداد و شُمار بتائے جارہے تھے۔ ان کے نزدیک ایشیائیوں، افریقیوں کی بڑی تعداد میں ہلاکت کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ مشرق کی لاکھوں مائوں، بیٹیوں، بہنوں کی جانیں قابل ذکر نہیں ہیں۔ امریکی، جرمن، فرانسیسی، برطانوی، پولش، پرتگالی، اسپینی قومیت رکھنے والے اشرف المخلوقات ہیں۔ اس وقت چین ابھرتی ہوئی اقتصادی، سماجی، صنعتی طاقت ہے۔ چین کے بارے میں معلومات حاصل کرنا ہوں تو مغربی میڈیا بار بار حائل ہوجاتا ہے۔ چین کے خلاف معلومات فراہم کرکے گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ چین اپنی مصنوعات کو تو پوری دنیا میں مقبول کررہا ہے لیکن اس کا میڈیا کیوں مقبول نہیں ہورہا۔ یہ مغرب کے میڈیا کا اثر کیوں زائل نہیں کررہا ہے۔ کیا چین کے اقتصادی مفادات ایسا نہیں کرنے دیتے؟

سوال پیدا ہوتا ہے کہ اکیسویں صدی میں جب جدید ترین وسائلِ ابلاغ میسر ہیں تو شیر لکھنا کیوں نہیں سیکھ رہا ہے؟ شکار ہونے والی قومیں اپنے شکار ہونے کی حکایات کیوں قلمبند نہیں کررہی ہیں؟ یو ٹیوب پر چینل ہر شخص ہی شروع کررہا ہے لیکن وہ اپنی ہی قوموں کے خلاف ہیں۔ہماری کرپشن، بد عنوانی اتنی ہی اگر بری ہے تو مغرب ہمارے کرپٹ اور لٹیرے حاکموں کو ان کے اقتدار کے دنوں میں اتنا نوازتا کیوں ہے۔ برطرفی کے بعد ان کو پناہ کیوں دیتا ہے؟

مغرب اب عالمی وبا کی زد میں ہے۔ آپ نے کبھی غور کیا کہ جن ممالک میں روزانہ سینکڑوں انسان لقمۂ اجل ہورہے ہیں۔ یہ وہی سامراجی ریاستیں ہیں جو مختلف صدیوں میں افریقہ اور ایشیا کی قوموں پر غلامی مسلط کرتی رہی ہیں۔ کیا بھارت کا نیا سامراج، وہی نہیں ہے جو 73سال سے کشمیریوں کی آزادی غصب کیے ہوئے ہے۔ کورونا زیادہ وار انہی ملکوں پر کررہا ہے۔ امریکہ سر فہرست ہے۔ روس، اٹلی، برطانیہ، جرمنی، پولینڈ، فرانس، بیلجیم، نیدر لینڈ، پرتگال، اسپین چھوٹے چھوٹے یورپی ملکوں میں بھی کووڈ 19کے حملے جاری ہیں۔ ان کے صحت کے نظام زمیں بوس ہورہے ہیں۔ معالجین ناکام ہوچکے ہیں۔ سائنسدان حیرت زدہ ہیں۔ مظلوم غلام قوموں کی لوٹی ہوئی دولت سے تعمیر شدہ بازار ویران ہیں۔ شاپنگ مال اجڑے ہوئے ہیں لیکن ان کا میڈیا ان کی پسپائی، بے بسی اور ناکامیوں کو نشر نہیں کررہا۔ تیسری دنیا، غریب ممالک اور اسلامی دنیا کا اپنا کوئی عالمی میڈیا نہیں ہے۔ چین کا میڈیا مغربی میڈیا کا مقابلہ نہیں کرنا چاہتا۔

کیا یہ وقت نہیں ہے کہ مشرق بیدار ہو، مغرب کی ذہنی غلامی کے خاتمے کے لیے جنگ شروع کرے۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ مشرق کی تہذیب ،ثقافت، ادب امریکہ یورپ سے کہیں زیادہ قدیم ہے۔ ایشیا مغرب سے کہیں زیادہ قدرتی وسائل رکھتا ہے۔ ایشیا اور افریقہ کے لوگ مغربی انسانوں سے کہیں زیادہ جفاکش اور ذہین ہیں۔ سب سے زیادہ پیغمبر انہی علاقوں میں بھیجے گئے۔ سب سے زیادہ تربیت اور ہدایت ان خطّوں کو ہی نصیب ہوئی ہے۔ مغربی میڈیا مشرق کی قوموں کو گنوار، جاہل دکھاتا ہے۔ یہاں کے منفی مسائل کو اچھالتا ہے۔ یہاں پہلے سازشیں کرکے تباہی بربادی پھیلاتا ہے، قوموںکو آپس میں لڑواتا ہے پھر ملبے اور لاشوں پر کھڑے ہوکر ٹسوے بہاتا ہے۔ مغرب کی اپنی اس وقت جو تباہی ہے، بربادی ہے، بےبسی ہے۔ اسے مغربی میڈیا کیوں نہیں دکھاتا۔ نفسیاتی اور اقتصادی طور پر یہ قومیں اس وقت بہت مایوس ہیں۔

مشرق والو۔ آئو شیر بنیں۔ لکھنا شروع کردیں۔ شکار ہونا چھوڑ دیں۔ شکاریوں کو عظیم ، مدبر اور مصلح کہنا ترک کردیں۔

تازہ ترین