• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

پچھلے کالم میں خطبہ حجۃالوداع آپ کی خدمت میں پیش کیا تھا، اس کا کچھ حصّہ رہ گیا تھا وہ پیش کرونگا۔ اس کو شائع کرنے کا مقصد ہمارے نااہل سیاست دانوں اور حکمرانوں کو یہ احساس دلانا ہے کہ اس موقع اور اس خطبہ سے بڑھ کر کوئی تقریر اہم نہیں ہوسکتی۔ آئیے آپ کو پہلے اس خطبہ کا بقیہ حصّہ بتاتا ہوں پھر دوسری باتیں کرینگے۔

’’لوگو! اب شیطان اس بات سے مایوس ہوگیا ہے کہ اس سرزمین (عرب) پر اس کی پرستش کی جائےلیکن عبادات کے علاوہ دوسرے معاملات میں اپنے پست افعال کے ذریعے اس کی فرمانبرداری کی گئی تو وہ اس پر بھی راضی رہے گا۔ تم اپنے دین کو اس کے (شر) سے بچا کر رکھنا۔

خبردار! اپنے رب کی عبادت کرتے رہو۔ پانچ وقت کی نماز کی پابندی کرو۔ ماہ رمضان کے روزے رکھو۔ اپنے اموال کی خوش دلی کے ساتھ زکوٰۃ ادا کرتے رہو۔اپنے رب کے گھر (بیت ﷲ) کا طواف کرتے رہو۔ اپنے امراء کے حکم کی پیروی کرو تو اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجائو گے۔

اے لوگو! نسٔی زمانہ کفر کی زیادتی کا سبب ہے۔ اس کے ذریعے کفار گمراہ ہوتے ہیں۔ وہ ایک سال حرام مہینوں کو حلال کرلیتے اور دوسرے سال انہیں کو حرام قرار دے لیتے تھے۔ تاکہ اس طرح حرام مہینوں کی گنتی پوری کریں۔ لیکن اب زمانہ اپنی ابتدائی حالت پر لوٹ آیا ہے۔ جس دن ﷲ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا فرمایا تھا۔ ﷲ تعالیٰ کے نزدیک سال کے بارہ مہینے ہیں۔ جن میں چار مہینے حرمت والے ہیں۔ تین مہینے مسلسل ہیں (ذی قعدہ، ذی الحجہ اور محرم) اور ایک ماہ رجب ہے جو جمادی الثانی اور شعبان کے درمیان واقع ہے۔

خبردار! جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ میری باتوں کو ان لوگوں تک پہنچادیں جو یہاں موجود نہیں ہیں۔کیونکہ بہت سے لوگ جن کو میرا پیغام پہنچا وہ ان لوگوں سے زیادہ اسے محفوظ رکھنے والے ہوں گے جو اس وقت سننے والے ہیں۔ تم لوگوں سے میرے متعلق بھی پوچھا جائے گا۔ بتائو تم میرے بارے میں کیا کہو گے؟ حاضرین نے (بیک زبان ہوکر) عرض کیا۔ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے امانت کو (پوری طرح) ادا کردیا۔ ﷲ کا پیغام (ہم تک اور لوگوں تک) پہنچادیا اور نصیحت کردی۔

پھر رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا۔ ’’اللھم اشھد‘‘ اے اللہ تو گواہ رہنا… اے ﷲ تو گواہ رہنا… اے ﷲ تو گواہ رہنا۔ آپ نے اپنی انگلی کو آسمان کی طرف اٹھایا اور پھر لوگوں کی طرف جھکا کر فرمایا۔’’ اے ﷲ تو گواہ رہنا …اے ﷲ تو گواہ رہنا۔‘‘

اے مومنو، یہ خطبۂ مبارک، ہدایت 632 ویں صدی عیسوی میں دی گی تھی اور اس میں ہر شخص کے لئے مکمل ضابطۂ حیات ہے اس کے ہوتے ہوئے نا ہمیں قوانین، دستور، بڑے رتبے والے جج چاہئیں۔ اسی خطبۂ مبارک پر عمل کرکے مسلمانوں نے دنیا پر حکومت کی تھی۔ انصاف کا بول بالا تھا، امن و امان تھا۔ چوری، رشوت ستانی، قتل و غارتگری نہ تھی۔ بعد میں حکمرانوں نے ہوس دولت، زمین کی خاطر ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کردیا ان کے لئے ﷲ تعالیٰ نے بہت ہی سخت تکلیف دہ عذاب و عتاب رکھا ہے جس کا ذکر اس نے قرآن میں باربار کیا ہے۔ مغربی ممالک اس مکمل ضابطۂ حیات کو نظرانداز کرکے میگنا کارٹا کا گیت گاتے رہتے ہیں جو تقریباً خطبہ مبارک کے 600 برس بعد یعنی 1215 میں نافذ کیا گیا تھا۔ دراصل زمینداروں، سرداروں اور پادریوں نے اپنے مال و جان کی حفاظت کے لئے انگلستان کے بادشاہ جون (King John) کو ڈرا دھمکا کر یہ قانون پاس کرایا تھا کہ عوام کے لئے بادشاہ بھی قانون کی گرفت سے محفوظ نہیں رہے گا۔ یہ دستاویز 15 جون 1215ء میں نافذ ہوگئی تھی۔ اس میں 63 کلازز تھے مگر صرف 3 پر عمل جاری رہا۔ کئی سو برس بعد ایک اور شق اس میںڈال دی گئی کہ آزادی خیال پر پابندی نہیں ہوگی۔ یہ انگلستان اور دوسرے مغربی ممالک کے مقابلہ میں مسلمانوں، ان کے عقائد اور رسول ﷲ کے خلاف (نعوذ باللہ) استعمال ہوتے ہیں۔

دیکھئے کہنا یہ چاہ رہا تھا کہ رحمت للعالمین، خاتم النبییّن کا پوری اُمت، پوری دنیا کے نام پیغام بمشکل دو صفحات پر مشتمل ہے اور 5 منٹ میں پڑھا جاسکتا ہے مگر نام نہاد عقل کُل سیاست دان اور حکمران جھوٹ و غیبت میں گزارتے ہیں اور ایک لفظ بھی اس خطبۂ مُبارک کا بیان نہیں کرتے۔ اور نا ہی ان ہدایات میں سے ایک ہدایت پر عمل کرتے ہیں۔ حکمرانوں کے لئے قرآن میں بیان کردہ واقعات نصیحت کے لئے ہیں۔ اگر عمل نہ کرو گے تو پھر پچھلی قوموں اور پچھلے لیڈروں جیسا حال ہوگا۔

(2)آپ کی خدمت میں ایک اعلیٰ کتاب پیش کرنا چاہتا ہوں جو آج ہی موصول ہوئی اور میں نے جب مطالعہ کیا تو ضروری سمجھا کہ آپ کی خدمت میں اس کے بارےمیں عرض کروں۔ اس کتاب کا نام ہے، ’’دو پاکستان۔ ہر پاکستانی گھرانے تک خوشحالی‘‘ اس کے مصنف امریکہ سے اعلیٰ تعلیمیافتہ اور لاتعداد بین الاقوامی اداروں میں اہم عہدوں پر کام کرنے والے جناب کاظم سعید صاحب ہیں۔ اس ضخیم کتاب (619 صفحات) کو نہایت اچھی طباعت کے ساتھ کراچی سے شائع کیا گیا ہے۔ اس کتاب کا مقصدپاکستان کی حالت بہتر بنانا ہے۔ مصیبت یہ ہے کہ اعلیٰ تجاویز دینے والے نایاب ہیں مگر مل جاتے ہیں لیکن ان پر عمل کرنے والے عنقا ہیں۔

کتاب میں لاتعداد نہایت اہم موضوعات (معاشی، سماجی) پر اعلیٰ مشورے موجود ہیں اور یہ کتاب خاص طور پر ڈویلپمنٹ ایکسپرٹ کے لئے خزینۂ معلومات ہے، تمام ہدایات ذاتی، قیمتی تجربے پر مبنی ہیں۔ یہ کتاب ہر یونیورسٹی،ہر تعلیمی ادارے اور ہر لائبریری میں موجود ہونے کے قابل ہے۔ مختصراً اس کتاب کا مقصد کاظم سعید صاحب کے الفاظ میں بیان کرتا ہوں۔ کاظم سعید صاحب نے کہا ہے، ’’ہر پاکستانی گھرانے تک خوشحالی پہنچانا ہماری دسترس میں ہے لیکن اس کے لئے تاریخ کا ادراک، ٹھوس تحقیق، معیشت کا جامع تجزیہ اور کامیاب ممالک کا تجربہ ہونا ضروری ہے۔ یہ کتاب ان سب عوامل کی بنیاد پر دیرپا معاشی طریقے کے ذریعے غربت سے نجات کی حکمت عملی پیش کرتی ہے ان مقاصد کے حصول کے راستے عمل کی دعوت دیتے ہیں۔‘‘ میں نے 15برس یورپ میں گزارے اور تین اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں (ٹیکنیکل یونیورسٹی برلن جرمنی، ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی ڈیلفٹ ہالینڈ اور لیوون یونیورسٹی بلجیم) سے تعلیم حاصل کی اور ان کے ممتاز اسکالرز کی لسٹ میں میرا نام ہے۔ میں نے ان 15برس میں تعلیم کے علاوہ ہمیشہ اس پر غور کیا اور توجہ دی کہ یہ ممالک کیوں ترقی یافتہ ہیں اور ہم کیوں پسماندہ ہیں۔ یہ تجربہ کہوٹہ کی کامیابی کی بنیا د تھی۔ کاظم سعید صاحب نے جو مشورے دیئے ہیں بےحد مفید ہیں مگر ان پر زبانی جمع خرچ و لغویات پر وقت ضائع کرنے والےعمل نہیں کریں گے۔ اس وقت ہمیں جرمن، چینی ماہرینِ معاشیات کی ضرورت ہے۔ فرق یہ ہے کہ وہاں کے لوگ منافق نہیں ہیں، جھوٹ نہیں بولتے، کام چور نہیں ہیں۔ متکبّر نہیں ہیں۔ غیبت نہیں کرتے اور کبھی پچھلی حکومت یا حکمراں کے بارے میں ایک بُرا لفظ نہیں بولتے۔ یہاں یہ چیزیں مفقود ہیں۔

تازہ ترین