• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت کی کامیابی ایک حکمت ہے جبکہ سیاست ایک فن ہے۔ اگر حکمران اس حکمت سے اور سیاستدان اس فن سے ناآشنا ہوں تو دونوں کی کامیابی ممکن نہیں ہے ۔ حکمرانی کی حکمت یہ ہے کہ اس میں ہر خاص وعام کے ساتھ انصاف کیا جائے۔

حکمرانوں کی ساری توجہ عوام کی طرف ہو اور وہ عوام کے مسائل کے حل کو اپنا نصب العین سمجھیں۔ حکمرانوں کا لب و لہجہ مدبرانہ ہو ۔ انداز گفتگو کا طریقہ نرم اور رحم والا ہو ۔ذاتی پسند ناپسند اور مفادات پر عوام کی خواہشات کو ترجیح دیں۔

حکمرانوں کے دل ودماغ ہر قسم کی نفرت اور انتقامی سوچ سے پاک ہوں۔ اقربا پروری کا شائبہ تک نہ ہو۔ ہر قدم اور ہر کوشش ملک وقوم کی بہتری اور بھلائی کے لئے ہو۔ اور ان کی رحمدلی عوام کو نظر آئے۔

اسی طرح اپوزیشن کی سیاست ملک وقوم کی ترقی اورخوشحالی کے لئے ہو۔ اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کے حصول کو بالائے طاق رکھیں اور حکومت وقت کے ساتھ بات چیت کے ذریعے عوام کی مشکلات ختم کرنے کے لئے کوششیں کریں۔

سیاست میں وقت کی بڑی اہمیت ہے۔ صحیح وقت پرصحیح اور مناسب بات کریں اور کوئی بھی قدم اٹھانے کے لئے صحیح اور درست وقت کا انتخاب کریں۔ سیاستدان کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ جو بھی بات کرے اس سے تدبر اور سنجیدگی ظاہر ہو ۔

سیاستدان جوقدم اٹھائے یا جوبھی بیان دے وہ آئین اور قانون کے دائرے کے اندر ہو ۔ اگر حکومت اس حکمت اور اپوزیشن اس فن سے واقف ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ ایک کامیاب ترین حکومت اور کامیاب ترین سیاستدان اور اپوزیشن ثابت نہ ہوجائیں اور اُنہیں تاریخ میں ’’ بہترین ‘‘ کے لفظ کے ساتھ ہمیشہ یاد نہ رکھا جائے۔

ہماری بدقسمتی ہے کہ حکومت ہو یا اپوزیشن اگر مکمل طور پر نہیں تو بعض معاملات میں برعکس ثابت ہوئی ہیں۔ خاص طور پر نفرت اور انتقام کی پالیسی پر سب گامزن ہی نظر آئے ہیں۔ اگرہم ماضی کو دیکھیں توسابق صدر ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو ، ضیاالحق اور نواز شریف سب ایک ہی قطار میں کھڑے نظر آئیں گے۔

البتہ شہید بے نظیر بھٹو اس حوالے سے الگ نظر آئیں گی۔ ماضی قریب میں دیکھیں تو احتساب کمیشن اور اس کی کارکردگی اور جنرل(ر) پرویز مشرف نے احتساب کو سیاسی مخالفین کے لئے بھرپور انداز میں استعمال کیا۔ احتساب کمیشن کے نام پر نواز شریف نے آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کے ساتھ کیا کچھ کیا ؟ سب اس سے واقف ہیں۔ پھر مشرف حکومت میں نواز شریف کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوا ۔

نواز شریف نے عمران خان اور ان کی اس وقت کی اہلیہ کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ بے نظیر بھٹو کی طرح آصف علی زرداری نے اپنے دور اقتدار میں کسی کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی نہیں کی۔

جب یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم تھے تو ایک دن کسی جگہ میڈیا سے بات چیت کے دوران ایک صحافی نے چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی کے بارے میں سوال کرتے ہوئے ان کے لئے چوہدری برادران کے الفاظ استعمال کیے تو یوسف رضا گیلانی نے ان الفاظ پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے صحافی سے کہا کہ آپ چوہدری صاحبان کے الفاظ استعمال کریں تو مناسب ہے وہ کوئی پبلک لمیٹڈ کمپنی نہیں کہ ان کے لئے ایسے الفاظ استعمال کئے جائیں۔

اسی طرح مشرف حکومت میں شامل رہتے ہوئے بھی نواز شریف کے خلاف اس ابتلا کے دور میں گجرات کے ان چوہدریوں نے نہ خود کچھ کیا اور نہ ہی پرویز مشرف کو شریف خاندان کے خلاف اکسایا۔

آج بھی شریف خاندان کے خلاف نہ وہ کسی کارروائی کے حمایتی ہیں نہ ہی کبھی ان کے لئے نازیبا الفاظ کہے ہیں۔ باتوں میں بات کہیں اور چلی گئی۔ آج ایک بار پھر شاید وہی تاریخ دہرائی جارہی ہے۔

اقتدار توبس چند دنوں کی بات ہوتی ہے۔ اور یہ وقت کے حکمران پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ حکمت کے ساتھ چل کر تاریخ میں اپنا نام اور دور حکومت کولفظ ’’ بہترین‘‘ کے ساتھ لکھوانا چاہتا ہے یا پھر کسی اور نام کے ساتھ۔وزیر اعظم عمران خان کے بارے میں یہ سوچنا غلط ہوگا کہ وہ اس ملک اور قوم کی ترقی اور خوشحالی نہیں چاہتے۔

یقیناً وہ دیگر محب وطن پاکستانیوں کی طرح یہ چاہتے ہیں تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ عملی طور پر اس میں متوقع کامیابی اب تک حاصل کیوں نہیں کرسکے۔ عوام کی مشکلات میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔

اس سوال کا جواب واضح ہے کہ ابھی تک حکومت کرنے کے بارے میں ان کی وہ حکمت نظر نہیں آئی یا اس حکمت کو بروئے کار نہیں لایا گیا جس کا تفصیلی ذکر اس کالم کی ابتدا میں عرض کرچکا ہوں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ حکمت وتدبیر کے بجائے بعض عاقبت نااندیشوں کے مشوروں پر عمل کرنے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔

اپوزیشن کا مسئلہ یہ ہے کہ حکومت پر عوام کے مسائل حل کرنے کے لئے دبائو ڈالنے کے بجائے سرے سے حکومت گراکر کر نئے انتخابات پر مصر ہے لیکن اس کے لئے بھی اس کی کوئی حکمت عملی ہے نہ درست وقت کا انتخاب ۔

اگر اب بھی پی ڈی ایم میں شامل سنجیدہ اور سیاسی باشعور اور تجربہ کار ساتھیوں کے ساتھ مخلصانہ مشوروں کے مطابق حکمت عملی طے کرکے چلا جائے تو موجودہ حکومت کا خاتمہ ممکن ہوجائے لیکن شاید اب کچھ اور ہوجائے۔ماضی میں نوستاروں کو یاد کریں تو ساری بات سمجھ آسکتی ہے۔ لیکن وہ وقت اور تھا اب اور ہے۔ سیاسی بے چینی اور معاشی استحکام کے لئے نظام کی تبدیلی ناگزیر ہے۔

ورنہ ملک اور قوم کا نقصان ہوتا رہے گا۔ کوئی مفادات کی پیاس بجھانے اور کوئی انتقام کی آخری حدوں تک پہنچنے کی کوششوں میں سر گرداں رہے گا، تو کیا اسی طرح خرابی برائے خرابی ہوتی رہے۔ نہیں شاید اب ایسا مزید نہ ہو۔ نظام بھی تبدیل ہوگا اور لوگ اور عہدے بھی تبدیل ہوں گے، تب بہتر ی ہوگی۔

تازہ ترین