• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سہیل وڑائچ

ماجد نظامی

فیض سیفی، وجیہہ اسلم

عبد اللہ لیاقت، حافظ شیراز قریشی

سینیٹ الیکشن کا میدان سجنے کوہے مگر اسکی اہمیت امیدواروں اور نشستوں کے علاوہ اس کے طریقہ کار نے مرکزی اہمیت اختیار کرلی ہے۔حکومت چاہتی ہے کہ رائج طریقہ کار یعنی خفیہ رائے شماری کو ختم کرکے آرڈیننس کے ذریعے شو آف ہینڈ کو نافذ العمل قرار دیاجائے جبکہ عدالت نے اس پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔حکومت کا موقف ہے کہ طریقہ کار بدلنے کی یہ شق آئین میں کہیں نہیں لکھی لہذا سینیٹ الیکشن کے طریقہ کار میں آرڈیننس کے ذریعے ترمیم کی جا سکتی ہے ۔

سپریم کورٹ کے ججز کا کہنا ہے کہ یہ اتنا آسان عمل نہیں ہے آرڈیننس کے ذریعے سینیٹ الیکشن میں ترمیم ہو جائے۔ اس طریقہ کار سے ترمیم کرنے کا مقصدہے کہ آئندہ آنے والی ہر حکومت آرڈیننس کے ذریعے ہر بار سینیٹ الیکشن کے طریقہ کو تبدیل کرتی رہے گی۔ہمیں آئین کو مد نظر رکھتے ہوئے اس عمل کو باریک بینی سے دیکھنا ہو گا۔ اس بار سینیٹ کی 48 نشستوں پر انتخابات پر انتخابی دنگل سجے گا ۔ فاٹا کی چار نشستوں پر انتخابات نہیں ہوں گے جس کے باعث اس بار سینیٹ کی نشستیں 104 سے کم ہو کر 100 رہ جائیں گی۔

ممکنہ طور پر فاٹا کی باقی چار نشستوں پر سینیٹرز 2024ء میں ریٹائر ہوجائیں گے جس کے بعد فاٹا کی آٹھ نشستوں کافیصلہ ہوگا کہ آیا یہ سیٹیں خیبرپختونخوا کو دی جائیں گی یا صوبوں میں برابر تقسیم ہوں گی ۔ فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے بعد اس کی نشستوں کی تقسیم کا آئینی سوال حل طلب ہے۔اس سال سینیٹ سے 52سینیٹرز ریٹائر ہوجائیں گے جن میں مسلم لیگ ن کے 15، پیپلزپارٹی کے 7، تحریک انصاف7 اور 5 آزاد سینیٹرز شامل ہیں۔جنرل نشستوں پر 33، ٹیکنو کریٹ کی نشست پر 8،خواتین کی 9 اورغیر مسلم کی دو نشستیں خالی ہو رہی ہیں۔

سینیٹ انتخابات 2021 کے ممکنہ نتائج کے مطابق تحریک انصاف 28 نشستوں کے ساتھ سینیٹ کی اکثریتی جماعت بن جائے گی ۔پیپلز پارٹی 19 سینیٹرز کے ساتھ دوسری، مسلم لیگ ن 18 نشستوں کے ساتھ تیسری اور بلوچستان عوامی پارٹی 12 نشستوں کے ساتھ چوتھی بڑی جماعت بن کر سامنے آئے گی۔

اعدادوشمار کا یہ کھیل ہر اسمبلی میں اپنی اپنی طرز پر جاری جبکہ حتمی امیدواروں کے نام سامنے آنے پر یہ الٹ پلٹ اور تیز ہوجائے گی۔ سینیٹ الیکشن کی آمد کے ساتھ ہی ہر سیاسی جماعت سیاسی شطرنج کا احاطہ کرتے ہوئے اپنے اپنے مخالفین کی چال کو ناکام بنانے کیلئے حکمت عملی بنارہی ہے۔اس تحقیقاتی رپورٹ میں قارئین کو ہر صوبے کی اسمبلی کے بارے میں ہونے والی ممکنہ سیاسی چالوں کے بارے میں آگاہی فراہم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

پنجاب اسمبلی میں کیا صورتحال ہوسکتی ہے؟

سینیٹ میں پنجاب کی 11 نشستوں پر انتخابات ہونے جارہے ہیں جن میں 7 جنرل نشستیں،2 ٹیکنو کریٹ اور دو خواتین کی نشستیں شامل ہیں۔سینیٹ میں ریٹائر ہونے کے بعد پارٹی پوزیشن کے مطابق باقی 13 سینیٹرز میں سے 10 کا تعلق مسلم لیگ نواز جبکہ 3 کا تعلق تحریک انصاف سے ہے۔سینیٹ الیکشن 2021 میں ہونے والی ممکنہ سیاسی اعدادوشمار کے مطابق 371 کی اسمبلی میں ہر ایم پی اے اپنا حق رائے دہی استعمال کرے گا۔صوبائی اسمبلی پنجاب کی پارٹی پوزیشن کے مطابق تحریک انصاف 181،مسلم لیگ نواز 164،مسلم لیگ ق 10،پیپلزپارٹی 7 نشستیں جبکہ 4آزاد ایم پی ایزاور ایک نشست پر راہ حق پارٹی کے رکن اسمبلی موجود ہیں۔

سینیٹ میں پنجاب کی سات جنرل نشستوں کی بات کی جائے تو ایک سینیٹر منتخب کرنے کیلئے کم از کم 52 ایم پی اے کے ووٹر درکار ہوں گے ۔ اس تناسب سے اگر تحریک انصاف کی کنفرم سیٹوں کی بات کی جائے تو اسے تین سینیٹ کی نشستیں ملیں گی ۔اسی طرح اسمبلی میں دو سری اکثریتی جماعت مسلم لیگ ن کی بات کی جائے توتعداد کے حساب سے اسے بھی تین مکمل نشستیں مل سکتی ہیں۔اگر حکومت اتحاد کیساتھ میدان میں اترتی ہے تو حکومتی اتحاد کو چار نشستیں ملنے کا امکان ہے ۔ 

ایک ممکنہ آپشن میں دو ٹیکنو کریٹ اور دو خواتین کی مخصوص نشستوں پر حکومتی جماعت تحریک انصاف ممکنہ طور پرباآسانی کامیابی حاصل کرسکتی ہے کیونکہ ایک ٹیکنوکریٹ یا ایک خواتین کی نشست کیلئے 184 ووٹ درکار ہوں گے۔ حکومت چاہے گی کہ اپوزیشن کو الائنس کے بغیر میدان میں اتارا جائے تاکہ ٹیکنوکریٹ اور خواتین کی تمام نشستوں پر کامیابی حاصل کرسکے۔

مگر اپوزیشن کی یہ سٹریٹجی ہوگی کہ دو ٹیکنوکریٹ اور دو خواتین کی نشستوں میں سے ایک ایک پر مقابلہ کیاجائے تاکہ دو نشستیں یقینی طور پر حاصل کی جائیں۔ یوں ممکنہ نتیجہ کے مطابق تحریک انصاف چھ یعنی چار جنرل ، ایک ٹیکنوکریٹ اور ایک خواتین نشست حاصل کرسکے گی۔مسلم لیگ نواز پانچ یعنی تین جنرل ،ایک ٹیکنوکریٹ اور ایک خاتون سینیٹر منتخب کرواسکے گی۔اپوزیشن اگر چار وں نشستوں پر مقابلہ کرتی ہے تو چاروں سے ہی ہاتھ دھو بیٹھنے کے امکانات زیادہ ہیں۔

ممکنات میں سے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تحریک انصاف مسلم لیگ ق اتحاد کیساتھ ایک نشست ق لیگ کو دیدے۔ ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ مسلم لیگ ن میں سے کوئی فارورڈ بلاک بنے اور مسلم لیگ نواز اوپر دی گئی آپشن میں سے ایک کھودے۔اس صورت میں ممکنہ لائحہ عمل میں تحریک انصاف چھ نشستوں پر براجمان ہوسکے گی اور ق لیگ کو ایک نشست مل سکے گی جبکہ مسلم لیگ نواز کل چار نشستوں پر کامیاب ہوگی۔ اسلام آباد کی دو نشستوں کی بات کی جائے دونوں نشستوں پر تحریک انصاف کامیاب ہوگی۔

سندھ اسمبلی میں کیا صورتحال ہوسکتی ہے؟

سینیٹ میں صوبہ سندھ کی نشستوں کی بات کی جائے تو سینیٹ کی 11 نشستوں 7 جنرل ،2 ٹیکنو کریٹ اور دو خواتین نشستوں پر الیکشن کا انعقاد ہوگا۔ سینیٹ میں پارٹی پوزیشن کے مطابق 17 سینیٹرز کا تعلق پیپلزپارٹی سے،پانچ ایم کیو ایم اور ایک کا تعلق فنکشنل لیگ سے ہے ۔ریٹائر ہونے والے سینیٹرز کے بعد سینیٹ میں پیپلزپارٹی کی 10 ،ایم کیوایم اور فنکشنل لیگ کی ایک ،ایک نشست رہ جائے گی۔

سینیٹ الیکشن 2021ء میں ہونے والی ممکنہ سیاسی اعدادوشمار کے مطابق 165 اراکین اسمبلی اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے ۔صوبائی اسمبلی سندھ کی پارٹی پوزیشن کو دیکھیں توپیپلزپارٹی 96 نشستوں کیساتھ سر فہرست ہے ۔تحریک انصاف 30 نشستوں کیساتھ دوسرے جبکہ ایم کیوایم 21 نشستوں کیساتھ اسمبلی کی تیسری اکثریتی جماعت ہے ۔گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے پاس 14،تحریک لبیک پاکستان 3 جبکہ ایم ایم اے ایک نشست پر براجمان ہے ۔

اگر سات جنرل نشستوں کی بات کی جائے تو 23 ایم پی ایز کے ووٹ ایک سینیٹر منتخب کرسکیں گے۔ووٹوں کے اعدادوشمار کے مطابق پیپلزپارٹی ممکنہ طور پر چار نشستیں اپنے نام کرے گی۔تحریک انصاف ایک اور ایک ہی نشست متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ ہوگی ۔جی ڈی اے اتحاد کیساتھ ایک نشست حاصل کرسکتی ہے۔ اگر اپوزیشن اتحاد کی بات کی جائے تو یقینی طور پر تین نشستیں اپوزیشن کی جھولی میں گریں گی۔اگر اپوزیشن کی کوئی بھی جماعت اتحاد سے باہر ہوئی تو کم از کم ایک نشست پیپلزپارٹی میں جاگرے گی۔

اسی طرح خواتین اور ٹیکنوکریٹ کی دو ،دو مخصوص نشستوں پر سخت مقابلے کی توقع ہے اور 82 ایم پی ایز کے ووٹ کیساتھ ایک سینیٹر منتخب ہوگا۔ووٹوں کی چال کے مطابق ٹیکنوکریٹ کی دو مخصوص نشستوں پر پیپلزپارٹی ایک اور ایک نشست اپوزیشن اتحاد یعنی تحریک انصاف ،ایم کیوایم اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس لے سکیں گے جو کہ صرف اتحاد میں الیکشن لڑنے کی صورت میں ہوسکتاہے ۔

دوسری ممکنہ آپشن یہ ہوسکتی ہے کہ پیپلزپارٹی اپوزیشن اتحاد کو سیاسی چال کے ذریعے نقصان پہنچائے اور تحریک انصاف کی ایک نشست کم کردے۔یوں تحریک انصاف جو اوپر دی گئی آپشن میں دو میں سے ایک نشست کھوسکتی ہے کیونکہ سینیٹ کی دو مکمل نشستیں حاصل کرنے کیلئے اس کے پاس 46 ایم پی ایز کی سادہ اکثریت نہیں ہے۔

اب ممکنہ نتیجے کے مطابق اپوزیشن کل ملاکر تین جبکہ آٹھ نشستیں پیپلزپارٹی حاصل کرسکے گی۔اگر اپوزیشن کی تینوں جماعتیں ایک ساتھ ملکر الیکشن نہیں لڑتیں تو پیپلزپارٹی ممکنہ طور پر چاروں مخصوص نشستیں اور چار جنرل لینے میں کامیاب رہے گی۔  

خیبر پختوخوا اسمبلی میں کیا صورتحال ہوسکتی ہے؟

سینیٹ میںخیبر پختونخوا کی نشستوں کی بات کی جائے تو سینیٹ کی 12 نشستوں 7 جنرل ،2 ٹیکنو کریٹ ، دو خواتین اور ایک اقلیتی نشست پر الیکشن کا انعقادہوگا۔ سینیٹ میں پارٹی پوزیشن کے مطابق 12سینیٹرز کا تعلق تحریک انصاف ،جمعیت علماء اسلام ف ،پیپلزپارٹی ،مسلم لیگ نواز ،جماعت اسلامی اور آزاد سینیٹرز دو ،دو نشستیں رکھتے ہیں ۔ایک کا تعلق اے این پی سے ہے۔

سینیٹ الیکشن میں ہونے والی ممکنہ اعدادوشمار کے مطابق 144 اراکین اسمبلی اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے ۔ خیبر پختونخوا اسمبلی کی پارٹی پوزیشن کا جائزہ لیاجائے تو تحریک انصاف 94 نشستوں کیساتھ سر فہرست ہے ۔جے یو آئی ایف 14 سولہ نشستوں کیساتھ دوسرے جبکہ عوامی نیشنل پارٹی 12 نشستوں کیساتھ اسمبلی کی تیسری اکثریتی جماعت ہے ۔

مسلم لیگ نواز کے پاس 6،پیپلزپارٹی 5 جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی 4 نشستوں پر براجمان ہے ۔جے یو آئی ایف تین ،مسلم لیگ ق اور جماعت اسلامی ایک ،ایک نشست پر جبکہ آزاد ایم پی ایز کی تعداد چار ہے۔ اگر سات جنرل نشستوں کی بات کی جائے تو 21 ایم پی ایز کے ووٹ ایک سینیٹر منتخب کرسکیں گے۔ووٹوں کے اعدادوشمار کے مطابق تحریک انصاف ممکنہ طور پر پانچ نشستیں اپنے نام کرے گی۔ اپوزیشن کی کوئی بھی سیاسی جماعت ممکنہ طور پر ایک مکمل نشست حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگی جس کی وجہ سے اتحاد کرنا ناگزیر ہوگا۔

دو نشستوں ٹیکنوکریٹ پر 6 اپوزیشن جماعتوں کے سیاسی اتحاد میں ایم ایم اے اور اے این پی ووٹوں کے اعتبار سے سر فہرست ہیں مگر کیاتمام اپوزیشن جماعتیں اس پر راضی ہوں گی کہ دو بڑی سیاسی جماعتوں کو سینیٹ میں نشستیں دے دی جائیں ۔ اپوزیشن کی کل ملاکر 46 نشستیں بنتی ہیں جو دو جنرل نشستیں اپنے نام کرنے کیلئے کافی ہیں ۔اگر اپوزیشن سیاسی اتحاد کو پس پشت ڈال انفرادی جماعت کی حیثیت سے الیکشن لڑے تو فائدہ براہ راست تحریک انصاف کو ہوگا۔اسی طرح دو خواتین نشستوں کی بات کی جائے تو ایک سینیٹر کو اسمبلی کے 72 ووٹوں کی ضرورت ہے اپوزیشن کل ملا کر بھی کوئی نشست حاصل نہیں کرسکے گا۔

تحریک انصاف کے پاس 94 ووٹ ہیں جبکہ ممکنہ طور پر چار آزاد امیدوار بھی حکومت کا ساتھ دے سکتے ہیں ۔یوں حکومتی جماعت تحریک انصاف کی ممکنہ پالیسی ہوگی کہ کل 98 ووٹوں کو دونوں نشستوں میں تقسیم کرے اور 49 ووٹ فی نشست کے حساب سے دونوں نشستوں کو اپنے نام کرلے گی۔یہی آزاد ایم پی ایز اگر اپوزیشن اتحاد کے ساتھ آجائیں تو اپوزیشن کی 50 نشستیں ہوجائیں گی جس کے بعد خواتین کی ایک نشست اپوزیشن حاصل کرسکے گی۔

یوں ایک ممکنہ نتیجہ یہ ہوگا کہ تحریک انصاف پانچ جنرل،دو خواتین ،دو ٹیکنوکریٹ اور ایک اقلیتی سینیٹر کیساتھ اکثریتی جماعت ہوگی۔باقی دو نشستوں میں سے ایک جمعیت علماء اسلام اور ایک پر اے این پی کامیاب ہوسکتی ہے۔ دوسرا ممکنہ نتیجہ یہ ہوسکتا ہے کہ 12میں سے 8 نشستیں تحریک انصاف ،دو جے یو آئی ایف اور ایک ایک پیپلزپارٹی اور اے این پی اپنے نام کر سکتی ہیں۔اپوزیشن کا ایک ساتھ رہنا اورآزاد اراکین کو ساتھ ملانا ممکن نظر نہیں آتا۔

بلوچستان اسمبلی میں کیا صورتحال ہوسکتی ہے؟

  سینیٹ میں صوبہ بلوچستان کی نشستوں کی بات کی جائے تو سینیٹ کی 12 نشستوں 7 جنرل ،2 ٹیکنو کریٹ،دو خواتین اور ایک اقلیتی نشست پر الیکشن کا انعقادہوگا۔ سینیٹ میں پارٹی پوزیشن کے مطابق 8آزادسینیٹرز ،بلوچستان عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی چار، چار نشستوں پر براجمان ہیں ۔پی کے میپ تین ،دو نشستیں جمعیت علماء پاکستان اور ایک نشست پر مسلم نواز کے سینیٹر موجود ہیں۔ 

سینیٹ الیکشن 2021ء میں ہونے والی ممکنہ اعدادوشمار کے مطابق 65 اراکین اسمبلی اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے ۔اسمبلی کی پارٹی پوزیشن میںبی اے پی 24 نشستوں کیساتھ پہلے،ایم ایم اے 11 نشستوں کیساتھ دوسرے جبکہ بی این پی 10 نشستوں کیساتھ تیسری اکثریتی جماعت ہے۔پی ٹی آئی 7،اے این پی4 جبکہ بی این پی عوامی 3،ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی 2 نشستوں پر براجمان ہے ۔ایک نشست والی جماعتوں میں ن لیگ ،جمہوری وطن پارٹی ،پی کے میپ اور ایک آزاد ایم پی اے بھی اسمبلی میں موجود ہے۔ سات جنرل نشستوں کی بات کی جائے تو 9 ایم پی ایز ایک سینیٹر منتخب کرسکیں گے۔ووٹوں کے اعدادوشمار کے مطابق بی اے پی اکثریتی پارٹی اور ممکنہ طور پر تین نشستیں لےسکے گی۔ایم ایم اے اوربی این پی مینگل ایک ایک سینیٹر منتخب کرواسکیں گی۔بلوچستان حکومت اتحاد کیساتھ الیکشن کا حصہ بنے تو اس کے پاس آزاد امیدوار ملاکر 42ایم پی ایزکی اکثریت ہے۔

اس حساب سے ممکن ہے کہ حکومتی اتحاد سات میں سے پانچ نشستیں اپنے نام کرسکے گی جس میں سے ایک نشست تحریک انصاف کو مل سکتی ہے ۔اسی طرح اپوزیشن کی چار جماعتیں23 ایم پی ایز سات میں سے دو نشستوں پر کامیابی حاصل کرلے گی۔اب دیکھنایہ ہوگاکہ اپوزیشن اتحاد اور حکومتی اتحاد اگر ہوتاہے تو نشستوں کی تقسیم کس طرح ہوگی۔اسی طرح ٹیکنوکریٹ کی دو نشستوں کیلئے 65 کی حکومتی اتحاد کے پاس 42 نشستیں ہیں جبکہ ایک نشست کیلئے 32 ایم پی ایز کے ووٹ درکار ہوں گے۔ ممکنہ صوتحال یہ ہوگی کہ اپوزیشن ان دونوں نشستوں کیلئے حکومت کے کم از دو ایم پی ایزکو اپنی طرف راغب کرے جس کے بعد اس کی مجموعی تعداد 44 ہوجائے گی اور اپوزیشن اتحاد کی تعداد 21 رہ جائے گی ۔ حکومت چاہےگی کہ 22 ووٹ فی نشست کے حساب سے دونوں نشستیں اپنے نام کرلے۔اپوزیشن اتحاد چاہے گا کہ اتحاد برقرار رہے تاکہ وہ حکومت کے مقابلے مطلوبہ تعداد 22کوپورا کرکے کم از کم ایک نشست حاصل کرے۔

یہی صورتحال خواتین کی دو نشستوں پر بھی ممکنہ طور پرہوگی۔اقلیتی ایک نشست پر حکومت کامیاب ہوگی۔موجودہ صورتحال میںایک آپشن یہ ہوسکتاہے کہ حکومت اتحاد کیساتھ ایک پی ٹی آئی اور نو نشستیں بی اے پی اپنے نام کرے ۔اپوزیشن جماعتوں میں اکثریتی اعتبار سے ایک نشست جمعیت علماء اسلام ف اور ایک سینیٹر بی این پی مینگل اپنے نام کرے۔دوسرا یہ ہوسکتاہے کہ باپ سات جنرل نشستوں میں سے پانچ ،ٹیکنوکریٹ اور وومن کی ایک ایک جبکہ ایک اقلیتی سینیٹر اپنے نام کرے گی،پی ٹی آئی بھی حکومتی اتحاد کیساتھ ایک نشست حاصل کرسکتی ہے ۔ 

اپوزیشن جماعتوں میں بی این پی مینگل ایک اور ایک اے این پی جبکہ ایک آزاد سینیٹر منتخب ہوسکتاہے۔ بلوچستان اسمبلی کی دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ یہاں سیٹوں کی تقسیم مشکل مرحلہ ہوگا کیونکہ یہاں سے کم ایم پی ایز کے ووٹ سے ایک سینیٹر منتخب ہوتاہے جو ممکنہ طورپر سیاسی جماعتوں کیلئے بارگین کرنے کیلئے آئیڈیل صورتحال ہو سکتی ہے۔

تازہ ترین