• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 گزشتہ دنوں سپریم کورٹ آف پاکستان کے معزز جج جسٹس قاضی فائز عیسی کا موبائل فون نامعلوم افراد کی جانب سے ہیک کیے جانے کی خبر آئی تھی۔ بعد ازاں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے اس معاملے کی تحقیق کی تو پتا چلا کہ یہ مسئلہ فون میں انسٹال ایک ایپ کی وجہ سے پیش آ رہا ہے۔ ایف آئی اے کی فارنزک ٹیم نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے ملاقات کی اور ان کے موبائل فون کا معائنہ کیا جس کے بعد ایک ایپلی کیشن کی وجہ سے پیش آنے والے معاملے پرقابو پالیا گیا تھا ۔ 

یاد رہے کہ یہ خبر آنے کے فوری بعد سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا موبائل فون ہیک کرلیا گیا ہے اوراس سےگم راہ کن پیغام رسانی ہو سکتی ہے۔ اعلامیے میں واضح کیا گیا تھا کہ معزز جج کے موبائل فون نمبر سے کسی بھی قسم کی پیغام رسانی جعلی اور غلط تصوّرکی جائے۔ 

ان کے موبائل نمبر سے بھیجا گیا پیغام جسٹس قاضی فائزعیسیٰ سے منسوب نہ کیا جائے۔اعلامیے میں یہ خدشہ ظاہر کیا گیا تھاکہ ہیکرزجسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا موبائل نمبر مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرسکتے ہیں ۔ جس کے بعد ایف آئی اے کی فارنزک ٹیم نے تحقیقات کیں اور معزز جج کو اس صورت حال سے نکالنے میں مدد کی۔

ہیکنگ جدید دنیا کی تلخ حقیقت ہے جس سے کسی کا بھی کسی بھی وقت واسطہ پڑ سکتا ہے۔چناں چہ دنیا بھر میں روزانہ کمپیوٹر اور موبائل فون کی ہیکنگ کے ہزاروں واقعات ہوتے ہیں۔ایک پاکستانی ہیکر کے مطابق صرف ساڑھے چار منٹ میں کسی کا بھی موبائل فون ہیک کرکے کسی دوسرے شخص کو کوئی بھی پیغام ،وڈیو یا ڈیٹابھیجا جاسکتا ہے ۔ 

آج ہیکرز کے لیےکسی کا بھی موبائل فون ہیک کرنا بہت آسان ہے۔ کسی کا بھی موبائل فون ہیک کرکے اس میں ایسی ایپلی کیشن انسٹال کی جاسکتی ہے جس کی مدد سے اس ہیک کیے ہوئے موبائل فون سے نہ صرف کسی نمبر پر پیغامات بھیجے جاسکتے ہیں بلکہ فون لاک ہونے کے باوجود مالک کی مرضی کے بغیر اس سے وڈیو بنائی جاسکتی ہے اور آواز بھی ریکارڈ کی جاسکتی ہے۔اس ہیکر کے مطابق پیغام سو برس پرانی تاریخ کا بھی بھیجا جاسکتا ہے۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ جس شخص کے موبائل فون سے وہ پیغامات بھیجے جاتے ہیں اسے یہ معلوم ہی نہیں ہوپاتا اور بعد میں آوٹ باکس سے پیغام مٹابھی دیا جاتا ہے۔ اس ہیکر کے مطابق جو شخص اس ضمن میں تھوڑی سی بھی مہارت رکھتاہے وہ باآسانی یہ سارے کام کرسکتا ہے اورصرف اینڈ رائیڈ فون سے ہی نہیں بلکہ تھوڑی سی کوشش کے بعد آئی فون کے ذریعے بھی ایسے پیغامات یا وڈیوز بھیجی جاسکتی ہیں۔

الیکٹرانی دور اور نئی شناخت

فطرت نے ہر انسان کو ایک شناخت عطا کی ہے، جو ہر دوسرے انسان سے مختلف ہوتی ہے۔ یہ شناخت مہد سے لحد تک اس کے ساتھ ہوتی ہے، خواہ وہ مغرب میں رہے، مشرق میں، شمال میں یا جنوب میں۔ ماہرینِ سماجیات، فلسفہ، طب اور سائنس، ذاتی شناخت کے بارے میں بہت زیادہ تحقیق اور گفتگو کرچکے ہیں، لیکن آج بھی اس موضوع میں ان ماہرین کی دل چسپی کم نہیں ہوئی ہے۔ فلسفیوں کے نزدیک ہر شئے اپنے آپ سے جو تعلق رکھتی ہے، اسے شناخت کہا جاتا ہے۔ 

اسی شناخت نے فلسفیوں کے لیے کئی فلسفیانہ مسائل بھی کھڑے کیے ہیں، مثلاً یہ کہ اگر الف اور ب ایک دوسرے کی تمام خصوصیات میں اشتراک کرتے ہیں تو کیا وہ دونوں ایک ہیں اور بالکل ایک جیسے ہیں؟ اسی طرح انسان میں وقت کے ساتھ آنے والی تبدیلیاں اور اس کی شناخت کا تعلق ہے۔ دراصل یہ ہی سوال آج سماج میں بہت زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے، کیوں کہ وقت گزرنے کے ساتھ انسان اور سماج میں بہت سی تبدیلیاں آگئی ہیں اور الیکٹرانی دور میں یہ مسئلہ مزید شدت اختیار کرگیا ہے۔ کیوں کہ ہم انٹرنیٹ، کیبل ٹی وی، موبائل فون، سیٹلائٹ فون، وائی فائی اور بلیو ٹوتھ کے عہد میں سانس لے رہے ہیں، جس میں کِی بورڈ،مائوس،سیل فون اور ریموٹ کنٹرول کی صورت میں جیسے پوری دنیا انسان کے ہاتھوں میں آچکی ہے۔ 

محض سائن اِن کرنے، ایس ایم ایس، ای میل ،وٹس ایپ میسج وغیرہ کے ذریعے ایک دوسرے کے خیالات اور حالات سے لمحوں میں مطلع ہوجاتے ہیں۔ اطلاعاتی اور مواصلاتی ٹیکنالوجی نے دو تین دہائیوں میں جس تیزی سے ترقی کی ہے، وہ حیران کن ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہماری زندگی میں دیگر سائنسی ایجادات نے بھی بڑی تبدیلیاں پیدا کی ہیں۔آج ہم شناختی کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس، ڈیبٹ کارڈ، دفتری کارڈ، ای میل ایڈریس، فیس بک اور ٹوئٹر کی آئی ڈی اور سیل فون نمبر رکھتے ہیں۔ یہ سب جدید دور کے انسان کی شناخت کے نئے حوالے ہیں۔

نئے دور کے نئے مسائل

ہم ان نئی شناختوں کے اتنے عادی (بلکہ بعض افراد کے بہ قول ان کے قیدی) ہوگئے ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی شناخت گم ہوجائے یا چوری کرلی جائے تو ہم سخت مشکل میں پڑ جاتے ہیں، ایسے میں اگر کسی دوست یا عزیز کی نئی آئی ڈی یا نئے فون نمبر سے کوئی پیغام موصول ہو تو ہم چونک جاتے ہیں۔ ہمارے سیل فون کی سِم گُم یا چوری ہوجائے، ای میل، فیس بک ،ٹوئٹر اکائونٹ یا موبائل فون ہیک ہوجائے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم اپنی شناخت کھو بیٹھے ہیں۔ 

جدید دور کے انسان کو یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں کوئی ہمارے سیل فون کی سِم، ای میل یا سماجی رابطے کی ویب سائٹس کے اکائونٹ کے ذریعے ہماری شناخت کو منفی مقاصد کے لیے استعمال نہ کرلے۔ ایسے میں آج دنیا بھر میں یہ سوال کیا جاتا ہے کہ جدید دور کا انسان کئی شناختوں میں تقسیم ہوگیا ہے اور جدید ذرایع استعمال کرکے ہم نئی شناخت بنا رہے ہیں یا اصل شناخت کھورہے ہیں؟

آج ہمارا یہ حال ہے کہ اگر کمپیوٹر خراب ہوجائے اور لیپ ٹاپ یا سیل فون کی بیٹری ڈائون ہوجائے تو ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ نہ جانے کب کسی کی ای میل یا سماجی رابطے کی ویب سائٹس کے پیغامات، فون کال یا ایس ایم ایس سے محروم رہ جائیں اور نہ جانے کون سی اہم خبر یا پیغام سے بروقت آگاہ نہ ہوسکیں۔ لہٰذا آج دنیا بھر میں اس سوال پر بھی گرما گرم بحثیں ہوتی ہیں کہ اس طرح ہماری نئی شناختیں ہمیں سہولت فراہم کر رہی ہیں یا ہر وقت نئے قسم کے تنائو میں مبتلا رکھتی ہیں؟ 

اگرچہ اس ضمن میں ترقی پذیر دنیا کی مشکلات ابھی ترقی یافتہ دنیا کے مقابلے میں کم ہیں، لیکن یہاں بھی وقت گزرنے کے ساتھ ان میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ ترقی یافتہ دنیا میں فنگر پرنٹ، آنکھوں کی پتلی کی شناخت، بایو میٹرک طریقۂ شناخت، مقناطیسی شناختی کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس، چپ والے پاسپورٹ، دفتری کارڈ، ڈیبٹ کارڈ اور نہ جانے کیا کیا رائج ہوچکا ہے۔ 

ان میں سے کوئی بھی شئے گم یا چوری ہوجانے کی صورت میں ترقی یافتہ دنیا کے باسی بدحواس ہوجاتے ہیں، کیوں کہ سائنس کی ترقی نے جرائم پیشہ افراد کو بھی بہت سی سہولتیں اور تیکنیک فراہم کردی ہیں، لہٰذا وہ کمپیوٹر کے کِی بورڈ یا مائوس کی ایک کلک سے اس دنیا کے کسی باسی کو بہت زیادہ نقصان پہنچا سکتے ہیں اور پہنچا رہے ہیں۔ ترقی یافتہ دنیا میں روزانہ ایسے واقعات ذرایع ابلاغ کی زینت بنتے رہتے ہیں۔

آسانیاں اورمشکلات ساتھ ساتھ

چمڑے کی مصنوعات کے کاروبار سے وابستہ نعیم احمد کی تجارت کا دائرہ سترہ ممالک تک پھیلا ہوا ہے۔ ان کے بہ قول، جدید ٹیکنالوجی نے ان کے لیے کاروبار کرنا نہ صرف بہت آسان بنا دیا ہے، بلکہ اسے ان کی توقع سے کہیں زیادہ وسعت بھی عطا کی ہے۔ پہلے جو کام وہ دو تین ہفتے میں کرتے تھے، آج وہ چند گھنٹوں یا منٹوں میں ہوجاتا ہے۔ خصوصاً کاروباری معاملات کی تفصیلات طے کرنے اور رقوم کی منتقلی کے مراحل۔ اسی طرح نمونوں کی ترسیل، ان کی تصریحات اور تصاویر کے تبادلے کے مراحل بھی بہت آسان ہوگئے ہیں۔ حتیٰ کہ یہ بھی ممکن ہوگیا ہے کہ بیرون ملک سے کسی مصنوع کی فراہمی کا آرڈر دینے والا شخص اس کی تیاری کے کسی بھی مرحلے پر یہ دیکھ سکتا ہے کہ اسے کس طرح اور کون لوگ کس مشین یا ٹیکنالوجی کے ذریعے تیار کررہے ہیں۔ 

نعیم احمد کے بہ قول، انٹرنیٹ کے ذریعے وہ بیرونی ممالک کے تاجروںکو اپنی پوری فیکٹری کا دورہ کرا دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ ای میل، اسکائپ، فیس بک، ٹوئٹر،وٹس ایپ وغیرہ کی آئی ڈی، بینک اکائونٹ آئی ڈی، پِن کوڈ اور سیل فون نمبر کے ذریعے ہی ممکن ہوپاتا۔ لیکن اس جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے وہ اکثر پریشانیوں کا شکار بھی رہتے ہیں۔ ان کے مطابق وہ کئی مرتبہ اپنے سیل فون سے جبراً محروم کردیے گئے، جس کی وجہ سے انہیں بیرونی ممالک کے خریداروں کے کئی آرڈرز بروقت نہیں مل سکے اور وہ ان سودوں سے محروم رہے۔ 

ان کے مطابق،آج کی دنیا میں کاروبار میں بہت زیادہ مسابقت ہے اور بعض سودے فی سینٹ منافعےکے حساب سے ہوتے ہیں۔ ایسے میں آرڈر دینے والے کئی سپلائرز سے بہ یک وقت رابطہ کرتے ہیں اور جو سپلائر انہیں بروقت اچھے نرخ پر مال فراہم کرنے کی ہامی بھر لیتا ہے، وہ فوراً اس سے سودا طے کرلیتے ہیں۔

شفیق احمد کسٹم کے محکمے میں اچھے عہدے پر فائز ہیں۔ وہ عمر کی پچپن بہاریں دیکھ چکے ہیں۔ ان کے مطابق، جب سے پاکستان میں انٹرنیٹ اور موبائل فون کا استعمال بڑھا ہے، لوگ طرح طرح کے منفی اور مثبت تجربات سے گزرنے لگے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک کلیئرنگ فارورڈنگ ایجنٹ نے انہیں ایسے ہی ایک تجربے کے بارے میں بتایا۔ وہ شخص مختلف ممالک سے ہمہ اقسام کی اشیاء درآمد اور برآمد کرنے والے ایک بڑے ادارے کے لیے کام کرتا ہے اور ہر وقت انٹرنیٹ اور سیل فون کے ذریعے اندرون اور بیرونِ ملک بہت سے افراد سے رابطے میں رہتا ہے۔ ایسا کرنا اس کی ضرورت ہے، کیوں کہ اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس کے کاروبار کو کسی بھی وقت بہت زیادہ نقصان ہوسکتا ہے۔ گزشتہ ماہ اس نے اندرون ملک ایک شخص سے اس کا سامان کسٹم سے کلیئر کرانے کا معاہدہ کیا۔ 

اس معاہدے کے تحت سامان کسٹم سے کلیئر ہونے کے بعد اس کے اکائونٹ میں معاوضہ خود بہ خود منتقل ہوجانا تھا۔ یہ لاکھوں کا معاملہ تھا۔ اس نے معاہدے کے مطابق کام کرا دیا اور اگلے دن ای میل باکس کھولا تو اس میں موجود ای میل دیکھ کر چونک گیا۔ وہ ای میل اس بینک نے بھیجی تھی، جس میں اس کا اکائونٹ ہے۔ بینک نے اسے مطلع کیا تھا کہ اس کے اکائونٹ سے اس کی ہدایت کے مطابق دو لاکھ روپے فلاں اکائونٹ میں منتقل کردیے گئے ہیں۔ 

وہ ای میل پڑھ کر فوراً بینک کی متعلقہ شاخ پہنچا، تو وہاں اسے مطلع کیا گیا کہ اس بارے میں بینک کو اکائونٹ کی ڈیجیٹل آئی ڈی اور پن کوڈ کے ساتھ ای میل بھیجی گئی تھی۔ بعد میں تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ اس نے جس شخص کا سامان کسٹم سے کلیئر کرایا تھا، اس شخص کے دفتر میں کام کرنے والے ایک نوجوان نے انٹرنیٹ کے ذریعے اس کے اکائونٹ تک رسائی حاصل کی تھی اور اس کا ای میل اکائونٹ ہیک کرکے یہ کام کیا تھا۔

جامعہ کراچی میں زیرِ تعلیم شعیب احمد، انتظار مرزا، نوید خاں اور اکرم اعجاز کے مطابق جدید دور میں ایک جانب ڈیجیٹل آئی ڈیز ہماری ضرورت بن گئی ہیں تودوسری جانب ان کی وجہ سے آئے روز کوئی مشکل سامنے آتی رہتی ہے۔ شعیب احمد کے مطابق گزشتہ دنوں اسی طرح کا ایک افسوس ناک واقعہ ان کے ساتھ پیش آیا اور جامعہ میں ان کے ساتھ پڑھنے والی ایک طالبہ نے کئی طلبا کے سامنے ان کی بے عزتی کردی۔ 

اگرچہ بعد میں حقیقت سامنے آنے کے بعد اس طالبہ نے ان سے معذرت کی، لیکن اس دن کے بعد سے ان کے درمیان کوئی گفتگو نہیں ہوتی ہے۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ اس طالبہ کو ایک روز ان کی ای میل آئی ڈی سے ایک مخربِ اخلاق ای میل موصول ہوئی تھی، جو کسی بھی شریف انسان کو شدید طیش دلاسکتی تھی۔ لیکن اس طالبہ نے شعیب احمد سے اس بارے میں کوئی بات نہیں کی تھی، تاہم وہ ای میل موصول ہونے کے بعد شعیب احمد سے بات کرنے اور تعلیمی نوٹس فراہم کرنے سے کترانے لگی تھی۔ لیکن تین روز بعد اس طالبہ کو اسی طرح کی ایک اور مخربِ اخلاق ای میل موصول ہوئی تو اس نے کلاس ختم ہونے کے بعد کئی طلبا کے سامنے شعیب احمد کو آڑے ہاتھوں لیااور انہیں مذکورہ ای میلز بھیجنے پر بہت برا بھلا کہا۔ 

تاہم بعد میں پتا چلاکہ کسی نے ان کا ای میل اکائونٹ ہیک کرکے یہ کام کیا تھا۔ شعیب احمد کے بہ قول، اس دن کے بعد سے انٹرنیٹ کی دنیا سے ان کا دل بری طرح کھٹّا ہوگیا ہے اور اب وہ صرف شدید ضرورت کے تحت انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ ہمارے معاشرے میں اب تک لوگ ایسے ممکنہ واقعات کے بارے میں پوری طرح آگاہ نہیں ہیں، لہٰذا وہ مذکورہ حالات میں بہت شدّت کے ساتھ اپنے جذبات کا اظہار کردیتے ہیں۔ ترقی یافتہ دنیا میں یہ باتیں روزمرہ کے معمولات کا حصہ بن چکی ہیں، لہٰذا وہاں ایسی صورت حال میں لوگ ایک دوسرے سے رابطہ کرکے حقائق جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

انتظار مرزا اور نوید خاں نامی طلبا کے مطابق ایک برس میں دو تین مرتبہ ان کے فیس بک اور ٹوئٹر کے اکائونٹ ہیک ہوچکے ہیں۔ ایک مرتبہ ان کے اکائونٹ ہیک کرنے والے نے ان کے ساتھی طلبا کو بہت خطرناک پیغام دے دیا تھا۔اس پیغام میں انہیں مطلع کیا گیا تھا کہ کل ہونے والا سیمسٹر کاامتحان ملتوی کردیا گیا ہے۔ اسی طرح ایک مرتبہ ان کے ساتھ پڑھنے والے ایک طالب علم کی سڑک کے حادثے میں ہلاک ہونے کی جھوٹی اطلاع کئی دوستوں تک پہنچا دی گئی تھی۔ اکرم اعجاز نامی طالب علم کے مطابق، چھ ماہ قبل ان کے والد کا آن لائن بینک اکائونٹ فراڈ کا شکار ہوگیا تھا۔ بعد میں پتا چلا کہ یہ حرکت بینک کی متعلقہ شاخ میں کام کرنے والے ایک شخص کی ملی بھگت سے ہوئی تھی۔ 

اس واردات میں ان کے والد کے آن لائن بینک اکائونٹ کا پن کوڈ چوری کرکے غیر قانونی طریقے سے استعمال کیا گیا تھا اور 90 ہزار روپے دوسرے اکائونٹ میں منتقل کردیے گئے تھے۔ جس اکائونٹ میں یہ رقم منتقل کی گئی تھی، وہ گوجرانوالہ میں واقع ایک نجی بینک کی شاخ سے تعلق رکھتا تھا۔ جس بینک میں ان کے والد اکائونٹ کا تھا، اس کا منیجر ان کا قریبی دوست تھا اور وہ ان کے والد کے کاروبار کے بارے میں کافی حد تک آگاہ تھا۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ اس کے والد عموماً کن کن مقامات پر لوگوں سے کاروبار کرتے ہیں اور زیادہ تر کن تاریخوں میں اور کن کن اکائونٹس میں رقم منتقل کرتے ہیں۔ 

مذکورہ واقعے کے روز حسبِ معمول بینک کے منیجر نے کام کے اوقات ختم ہونے کے بعد بینک سے ہونے والی بڑی رقوم کی ٹرانزیکشن پر نظر ڈالی تو اتفاق سے اس کی نظر ان کے والد کے اکائونٹ سے ہونے والی ٹرانزیکشن پر پڑ گئی۔ گوجرانوالہ کا نام پڑھ کر منیجر چونک گیا، کیوں کہ پانچ برسوں میں ان کے والد نے کبھی وہاں کسی اکائونٹ میں رقم منتقل نہیں کی تھی۔ معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے اس نے ان کے والد کو ٹیلی فون کیا تو معاملہ کھلا اور تحقیق کے بعد ملوث لوگوں کو پکڑا گیا۔

خلیق الہ آبادی گلشن اقبال میں رہتے ہیں۔ وہ دو برس سے ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں۔ تاہم آج بھی وہ کافی فعال ہیں اور سماجی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔کچھ عرصہ قبل ایک سیمینار میں ان سے ملاقات ہوئی۔ اس سیمینار میں انہوں نے وقفۂ سوالات کے دوران ایک مقرر سے سماجی بگاڑ کے بارے میں سوال کیا تھا، جس کا ایک نکتہ جدید ٹیکنالوجی کا بڑھتا ہوا استعمال اور ملک کے نوجوانوں پر اس کے اثرات سے متعلق تھا۔ سیمینار کے بعد ان سےگفتگو کا موقع ملا تو وہ جیسے پھٹ پڑے۔ ان کے بہ قول، دنیا بھر میں جدید ٹیکنالوجیز مثبت مقاصد کے لیے استعمال ہو رہی ہیں،لیکن پاکستان میں ہر نئی ٹیکنالوجی دن بہ دن معاشرے میں مزید خرابیوں کا اضافہ کررہی ہے۔ نوجوان کمپیوٹر اور سیل فون کے قیدی بن کر رہ گئے ہیں۔ 

بڑی تعداد میں نوجوانوں کے پاس کئی کمپنیز کی سیل فون سمز ہیں۔ نت نئے سیل فونز رکھنے اور انہیں طرح طرح سے استعمال کرنے کا جنون بڑھتا جارہا ہے۔ خود ان کے جوان لڑکے کے پاس دو سیل فون ہیں اور وہ ہر تھوڑی دیر بعد ان کے ساتھ مصروف نظر آتا ہے۔ ان کے مطابق، آج کے نوجوان دنیا بھرمیں تعلقات بنا رہے ہیں، مگر اپنے ارد گرد کے لوگوں کے لیے اجنبی بنتے جارہے ہیں۔ انہیں ہر وقت سیل فون اور لیپ ٹاپ کی بیٹری، انٹرنیٹ کے کنکشن کا لنک ڈائون ہوجانے، فیس بک، ٹوئٹر،وٹس ایپ، فون کال یا ایس ایم ایس وغیرہ کی فکر لاحق رہتی ہے۔ لیکن معاشرے کے مسائل سے وہ بے بہرہ نظر آتے ہیں۔ ان کے مطابق، اگر ہم نے اس جانب فوری توجہ نہ دی تو من حیث القوم ہم بہت نقصان اٹھائیں گے۔

کہا جاتا ہے کہ ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ الیکٹرانی دور کے بھی اپنے تقاضے ہیں۔ اس دور میں ڈیجیٹل شناخت بنانا اور اس شناخت کو استعمال کرنا دوعلیحدہ باتیں ہیں۔ آج دنیا بھر میں شناخت کے یہ نئے حوالے رائج ہیں۔ مگر ساتھ ہی شناخت کے بحران کا مسئلہ بھی زیرِ بحث ہے۔ ترقی یافتہ دنیا متعلقہ مسائل پر بروقت بحث مباحثہ اور تحقیق کرکے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ ہمیں بھی یہ ہی طرزِ عمل اختیار کرنا ہوگا، بہ صورتِ دیگر، ہم میں سے بہت سے لوگ ڈیجیٹل دنیا میں اپنی اصل شناخت کھوکر خلائوں میں گھور رہے ہوں گے۔

شناخت کا بحران

علمِ نفسیات میں شناخت کے بحران (Identity Crisis) کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ یہ ایک طرح کا نفسیاتی عارضہ ہوتا ہے، جس کی تعریف یوں کی جاتی ہے: ایک نفسیاتی ۔سماجی کیفیت یا حالت جس میں مبتلا فرد کے رویّے تبدیل ہوجاتے ہیں اور وہ مخمصوں کا شکار رہنے لگتا ہے۔ عموماً یہ کیفیت لڑکپن میں ظاہر ہوتی ہے اور اس کی وجوہ، اندرونی اور بیرونی تجربات کے تضادات، تنائو اور توقعات ہوتی ہیں اور اکثر اس کیفیت کے نتیجے میں شدید اضطراب پیدا ہوتا ہے۔ اس کی دوسری تعریف کے مطابق، یہ کسی سماجی ڈھانچے میں ظاہر ہونے والی مخمصے کی ایسی کیفیت ہے، جس میں اختلافات کے درمیان کچھ مشابہتیں بھی ہوتی ہیں۔ 

یہاں سماجی ڈھانچے سے مراد کوئی ادارہ بھی ہوسکتا ہے۔ تیسری تعریف کے مطابق، یہ ذاتی نفسیاتی۔ سماجی تضادات کا نام ہے، جو خصوصاً لڑکپن میں ظاہر ہوتا ہے اور اس میں مبتلا فرد اپنے سماجی کردار کے بارے میں مخمصے کا شکار ہوجاتا ہے اور اسے اکثر اپنی ذاتی شناخت کے تسلسل میں نقصان کا احساس ہوتا ہے۔ ان تمام تعریفوں کو اگر آج کے دور کے انسان کی جدید شناختوں پر منطبق کیا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم میں سے بہت سے افراد شناخت کے بحران کا شکار ہیں۔

موبائل فون کو ہیکنگ سےکیسے بچائیں؟

محفوظ طریقے سے پاس ورڈ کا انتخاب کریں۔ وٹس ایپ سے ملنے والے نامعلوم پیغامات کھولنے سے احتراز کیجیے ، خاص طور پر لنکس پر بغیر سوچے سمجھے یا لالچ میں کبھی بھی کلک نہ کیجیے۔ آج کل مختلف موبائل فون کمپنیوں کا نام استعمال کرتے ہوئے ہیکرز اس طریقے سے آپ کا ڈیٹا چورری کرتے ہیں اورپھر اسے اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔

خاص کر خواتین کی نجی وڈیوز کے لیے یہ ہیکنگ بہت زیادہ استعمال کی جارہی ہے۔تھوڑے سے استعمال پر ہی فون بہت زیادہ گرم ہورہا ہو،ایپس خود بہ خود ڈاون لوڈ ہونے لگیں،کال لاگ یا فون بُک میں اجنبی نمبر نظر آئیں، میسج ہسٹری میں بھی اجنبی نمبر پر میسج بھیجے ہوئےنظرآئیں تو فورا توجہ دیں۔

ہیکنگ سے محفوظ رہنے کے لیے ایپس اپ ڈیٹ کرتے رہیں۔اپ ڈیٹس خامیوں کو دور کرتی ہیں اور آپ کے فون کا حفاظتی نظام مستحکم کرتی ہیں۔ یہ فون کی کیشے بھی صاف کرتی ہیں اور فون کی کارکردگی سے متعلق معلومات کمپنی کو بھی ارسال کرتی ہیں جس کی وجہ سے آپ انجانے میں کسی ہیکر کا نشانہ بننے سے محفوظ رہتے ہیں ۔ اس قسم کی اپ ڈیٹس بالخصوص مستند کمپنیز کی طرف سے ہوں تو انہیں نظر انداز نہ کیجیے۔ اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اپنے فون کو آٹو اپ ڈیٹ پر لگا کر رکھیں ۔صرف ایک اینٹی وائرس پروگرام انسٹال کریں۔ہر ایرے غیرے لنک سے اینٹی وائرس ڈائون لوڈ نہ کریں بلکہ کسی مستند کمپنی کا اچھا سا سافٹ وئیرخرید لیں تو بہت بہتر ہے۔ 

اس کے لیے بھی پہلے معتبر ذرایع سے صارفین کے جائزے پڑھیں۔ ممکن ہو تو اینٹی وائرس پروگرام کو پاس ورڈ سے لاک کریں،اس تک رسائی کے لیے کوڈمخصوص کرلیں۔ وہ پے پے چیدہ تو ہو مگر ساتھ ہی ایسا ہو کہ آپ اسے فراموشنہ کرسکیں۔ مثلا سال گرہ کی تاریخ ، پالتو جانوروں کے نام ، بینک کوڈ یا اپنے فون نمبر کے کچھ حصے سے پرہیز کریں۔ غیر محفوظ وائی فائی کنکشن سے بچیں۔ 

غیر محفوظ کنکشن میں ان کے نام پر پیڈ لاک آئیکن نہیں ہوتا۔ اپنے محفوظ موبائل ڈیٹا کنکشن سے مطمئن رہیں۔ اگر نہیں تو ، وی پی این انسٹال کریں (ورچوئل پرسنل نیٹ ورک) جو آپ کے ٹریفک کو پوشیدہ رکھے گئے کنکشن پر بھیج دے گا۔ اگر آپ وی پی این استعمال کرتے ہیں تو آپ کو کبھی بھی غیر محفوظ کنکشن کے ساتھ اپنے بینک اکاؤنٹ یا اہم معلومات کو چیک نہیں کرنا چاہیے۔

تازہ ترین