اسلام آباد(فاروق اقدس) پی پی رہنما یوسف رضا گیلانی جن کے بارے میں محض 24 گھنٹے قبل ایسی خبریں آ رہی تھیں کہ انھیں پارٹی کی جانب سے سینٹ کا الیکشن لڑنے کی پیشکش اصرار کیساتھ کی جاری ہے لیکن وہ اس حوالے سے عدم دلچسپی کا مظاہرہ کر رہے ہیں پھر ان کے صاحبزادے قاسم گیلانی نے بھی ان خبروں کی تصدیق کی کہ گیلانی صاحب سینٹ کے الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے لیکن ہفتے کی صبح اس حوالے سے پہلی خبر یہ تھی کہ یوسف رضا گیلانی کا ووٹ ملتان سے اسلام آباد ٹرانسفر ہو گیا ہے جہاں اسلام آباد کے سیکٹر ایف ایٹ میں ان کی ذاتی رہائش گاہ ہے،پھر راجہ پرویز اشرف ،شاہد خاقان عباسی اور یوسف رضا گیلانی کےدرمیان ملاقات ہوئی اور تینوں سابق وزرائے اعظم نے باہمی مشاورت کے بعد الیکشن کمیشن ایک ساتھ جانے کا فیصلہ کیا اور یہ بھی”کارزار سیاست“کا ایک بدلہ ہوا منظر تھا کہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت تینوں سابق وزرائے اعظم یکجا تھے، راجہ پرویز اشرف, یوسف رضا گیلانی کے کاغذات نامزدگی کے تجویز کنندہ تھے اور شاہد خاقان عباسی تائید کنندہ تھے اور یہ پاکستان کی حالیہ سیاسی تاریخ کا ایک منفرد واقعہ تھا کہ نہ صرف یہ بلکہ ماضی میں کم و بیش تین دہائیوں تک ایک دوسرے کے بدترین سیاسی حریف رہنے والے پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی سے وابستگی رکھنے والے سابق وزرائے اعظم جب کاغذات نامزدگی داخل کرانے کے لیے الیکشن کمیشن پہنچے تو داخلی دروازے پر یوسف رضا گیلانی نے اپنے سابقہ ہم منصب شاہد خاقان عباسی کے لیے داخلی دروازے پر راستہ بناتے ہوئے ”پہلے آپ“ کی دعوت دی جس کے جواب میں شاہد خاقان عباسی نے سیاسی وضعداری کا مظاہرہ کیا اور پہلے یوسف رضا گیلانی الیکشن کمیشن کی بلڈنگ میں داخل ہوئے اور کاغذات نامزدگی داخل کرانے کے بعد تینوں سابق وزرائےاعظم میڈیا سے گفتگو میں بھی یکجا تھے، یہ تمام مناظر اس بات کا علامتی اظہار تھا کہ بہر صورت سینیٹ کے انتخابات کے حوالے سے تو مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں ہم آہنگی ہو چکی ہے، البتہ اگر جمعیت علماء اسلام کا کوئی ر ہنما بھی اس موقع پر موجود ہوتا تو پھر واقعتاً یوسف رضا گیلانی کے پی ٹی ایم کے مشترکہ امیدوار کی باضابطہ انائوسمنٹ کی ضرورت باقی نہ رہتی اور اس حوالے سے قیاس آرائیاں بھی ختم ہو جاتیں،سینیٹ کے انتخابات میں ابھی ایک ماہ سے زائد کا عرصہ رہتا ہے گو کہ یوسف رضا گیلانی جو کہ طویل عرصے سے عملی سیاست میں غیر متحرک تھے ،ان کی بھرپور انٹری سے سیاسی فضا میں ایک ہلچل ضرور پیدا ہوئی ہے،وہ وزیراعظم کے منصب پر فائز رہنے کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی کے سپیکر کی حیثیت سے بھی پارلیمانی اسرارو رموز سے نہ صرف مکمل آگاہی بلکہ ان پر دسترس بھی رکھتے ہیں،پھر ان کی سیاسی دوستی اور تعلق بھی وسیع ہیں اس لیے اس عرصہ میں ان سے غیر معمولی سیاسی پیش رفت کی توقع کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔