• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نگرانوں کے بارے میں ایک تروتازہ خبر نہ آتی تو میں آج کا کالم ”یوم تکبیر“ کی نذر کردیتا۔ کوئی پندرہ برس قبل مئی 1998ء کے پہلے ہفتے میں بھارت نے پانچ ایٹمی دھماکے کرکے جوہری قوت ہونے کا باضابطہ اعلان کردیا۔ اس کے ساتھ ہی بھارتی رہنماؤں کے آتش فشانی بیانات نے پاکستان کو نشانے پر دھر لیا۔ کہا گیا کہ اب اپنی اصل اوقات پہچانتے ہوئے پاکستان، چپ چاپ اپنے حصے کا کشمیر بھی بھارت کے حوالے کردے اور ایک فدوی کی سی زندگی کرنے کا چلن اپنالے۔ میں تب ایوان صدر میں جناب رفیق تارڑ کے پریس سیکرٹری کے طور پر تعینات تھا۔ ایک آدھ دن بعد ہی وزیر اعظم نواز شریف، صدر تارڑ سے ملنے آئے۔ اس ملاقات میں طے پاگیا کہ بھارت کو اس کے سکہ رائج الوقت میں ہی جواب دیا جائے گا۔ باقی سب کہانیاں ہیں کہ کس نے کیا کہا۔ ہمارے دوستوں سمیت امریکہ اور یورپی ممالک کا شدید دباؤ آیا۔ اس سے کئی گنا شدید جس کے سامنے ”میں کسی سے ڈرتا ورتا نہیں“ نے دو منٹ میں گھٹنے ٹیک دیئے تھے۔ پھر رال ٹپکانے والا لالچ بھی۔ اہل دانش بھی تقسیم ہوگئے۔ مسلح افواج کے تین سربراہوں میں سے ایک نے کھل کر ساتھ دیا۔ ایک نے مخالفت کی اور ایک گومگو میں رہے۔ بلاشبہ یہ ایک کٹھن فیصلہ تھا۔ کوئی بھلے خراج وصول کرتا رہے لیکن یہ اول و آخر وزیر اعظم کا اپنا فیصلہ تھا جو بھارتی دھماکوں کے بعد چند گھنٹوں کے اندر اندر ہوگیا تھا۔ میرے دوست مشاہد حسین سید بھی اس کی گواہی دے سکتے ہیں۔
نواز شریف پندرہ برس بعد پھر وزیر اعظم ہاؤس کی دہلیز پہ کھڑے ہیں۔ یہ عوامی جلسوں میں کہتے رہے ہیں کہ اب کے وہ ”معاشی دھماکہ“ کریں گے۔ ایٹمی دھماکے کے پیچھے برس ہا برس کی لگن تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاء الحق، غلام اسحاق خان، بے نظیر بھٹو، نواز شریف ہر ایک نے اپنا حصہ ڈالا۔ پوری قوم کا عزم، دفاع وطن کے اس مشن کی پشت پر تھا لیکن ”معاشی دھماکہ“ شاید آسان نہ ہو۔ گزشتہ چودہ برس کے دوران ملک اقتصادی طور پر تاراج ہوچکا ہے۔ پیپلزپارٹی کی نااہل، بے حس، بدعنوان اور انتہائی غیرذمہ دار حکومت نے پاکستان کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے، صف اول کے ایک ماہر معیشت کا کہنا ہے کہ ”پاکستان اقتصادی حوالے سے اس وقت آکسیجن ٹینٹ میں پڑا ہے“۔ نواز شریف کو تنکا تنکا جوڑ کر آشیاں بندی کرنا ہوگی جس کی شرط اول ہے کرپشن سے پاک ایک ذمہ دار، اہل اور قومی درد رکھنے والی پرعزم انتظامیہ۔ میاں صاحب یہ دے پائے تو قوم ان کی پشت پہ ہوگی اور ہنسی خوشی مشکل فیصلے بھی برداشت کرلے گی، ایسا نہ ہوسکا تو یہ بہت بڑا قومی المیہ ہوگا۔
اور بلاشبہ پیپلزپارٹی کے بعد وجود میں آنے والا نگران بندوبست بھی ہماری المیوں بھری تاریخ کا ایک اور المناک باب بن چکا ہے۔ اتوار کو ایک بڑے قومی اخبار کے صفحہ اول پر شائع ہونے والی یہ چھوٹی سی خبر ملاحظہ فرمائیے۔
”نگراں حکومت کے آخری ایام میں بعض ڈیلز کو حتمی شکل دلوانے کے لئے متعلقہ سرکاری حلقوں پر دباؤ ڈالا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں دو مثالیں سامنے آئی ہیں جن میں بااثر افراد سرکاری افسروں کو انتقال اقتدار سے قبل ڈیلز کو مکمل کرکے ادائیگی کے لئے دباؤ ڈال رہے ہیں اور دھمکیاں بھی دی جارہی ہیں۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ پی ٹی وی کی انتظامیہ پر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ ایک نجی ادارے کے تیارکردہ ڈرامہ جس کو مسترد کردیا گیا تھا کو خریدا جائے اور کروڑوں روپے کی یکمشت ادائیگی کی جائے۔ اسی طرح وزارت محنت کے تحت ایک اہم ادارے کی انتظامیہ پر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ چالیس کروڑ روپے کے ایک گیسٹ ہاؤس کو خریدا جائے اور انتقال اقتدار سے قبل تمام ادائیگی پارٹی کو کردی جائے۔ خدشہ ہے کہ ان دونوں اداروں کی انتظامیہ نے دباؤ کے سامنے ہار مان لی تو قومی خزانہ کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوجائے گا“۔
اس سے قبل ایک وفاقی سیکرٹری، شفقت نغمی سپریم کورٹ کی زنجیر عدل ہلا چکے ہیں جنہیں راتوں رات اس لئے ہٹا دیاگیا کہ وہ یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن کے لئے ایک ارب ستر کروڑ روپے کی عمارت خریدنے کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے۔ ایسی درجنوں اور کہانیاں بھی گردش میں ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ صاف ستھرے انتخابات کے لئے تشکیل دی گئی نگران حکومت نے کس طرح کرپشن اور اقربا پروری کا ایسا سرکس لگایا کہ عوام کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ صرف ڈیڑھ ماہ کے دوران بیالیس سیکرٹریوں اور اعلیٰ سرکاری افسروں کو ادھر ادھر کردیا گیا۔ کئی مشکوک سودے اور معاہدے کرلئے گئے۔ ایسے عہدوں پر بھی تقرریاں کردی گئیں جو آئینی عرصہ کار رکھتے ہیں اور یوں داغ دار افسر کئی سالوں کے لئے آنے والی حکومت کے سر تھونپ دیئے گئے۔ سفارشی اور چہیتے اہلکاروں کو اپ گریڈ کردیا گیا۔ آج ہی کی خبر ہے کہ پنجاب میں چار سو سے زائد افسران لایعنی تبادلوں کی نذر ہوگئے۔ بیٹھے بٹھائے اکیس لا افسران کو فارغ کرکے ایک مخصوص شناخت کے وکلاء تعینات کردیئے گئے۔ وہ تو شکر ہے کہ عدالت عالیہ آڑے آگئی۔
کسی پرائیویٹ پروڈکشن سے ڈرامے کی خریداری کی خبر یقیناً نگران وزیر اطلاعات جناب عارف نظامی کی نظر سے گزری ہوگی۔ انہیں تحقیق کرنی چاہئے کہ اب جبکہ نگران حکومت آخری سانسیں لے رہی ہے، یہ کون سا خودسر طفلِ خود معاملہ اس طرح کے مشکوک سودوں میں لگا ہے؟ پرائیویٹ پروڈکشنز کی خریداری ہمیشہ ہی بدعنوانی کا دروازہ رہی ہے۔ یہ کون ہے جسے وزیر محترم کی اجازت اور منظوری کے بغیر اس مشکوک ڈیل کا حوصلہ ہوا؟ معلوم نہیں وہ کم نصیب ادارہ کون سا ہے جسے ایک نگران وزیر صاحب مجبور کررہے ہیں کہ چالیس کروڑ روپے کا ایک گیسٹ ہاؤس خرید لیا جائے اور اس خوش نصیب کا نام کیا ہے جو اس مکان کا مالک ہے؟
معاملات اس قدر بگڑے کہ سپریم کورٹ کو متحرک کرنا پڑا۔ ستم یہ کہ عدالت عظمیٰ کے واضح احکامات بھی صحرا کی صدا ثابت ہوئے۔ میر ہزار خان کھوسو اپنے بیشتر وزراء سمیت ایوان صدر کے چوبدار بنے رہے۔ وزیر قانون بلال احمر صوفی نے تحریری طور پر دہائی دی کہ خدا کے لئے حلوائی کی دکان پر نانا جی کی فاتحہ سے باز آجاؤ لیکن کسی نے نہ سنی۔ بلاشبہ پہلی نگران حکومت کا تجربہ بری طرح ناکام رہا ہے۔ یہ پانچ سالوں پہ محیط ایک بدعنوان عہد کا تسلسل ثابت ہوا۔ پارلیمینٹ کو نئے سرے سے جائزہ لینا چاہئے کہ ایک اچھی نگران حکومت کے لئے کون سی پیش بندیاں ضروری ہیں؟ اور نئے وزیر اعظم پہ بھی لازم ہے کہ نگران دور کے تمام احکامات، تقرریوں، تبادلوں، ترقیوں، سودوں اور معاہدوں کا جائزہ لینے کے لئے ایک معتبر کمیٹی قائم کریں۔ ان نگرانوں کو کڑے احتساب کی بھٹی سے نہ گزارا گیا تو آنے والے نگران بھی سرکس کے مسخرے ثابت ہوں گے۔
گزشتہ روز برادرم اعجاز الحق نے بتایا کہ کسی نے فیس بک پر میرا جعلی اکاؤنٹ بنا رکھا ہے۔ میں انٹرنیٹ کی دنیا سے بس واجبی سا تعلق رکھتا ہوں۔ صرف اتنا کہ اخبار پڑھ لیتا یا ضروری معلومات تک رسائی حاصل کرلیتا ہوں۔ میرا کوئی فیس بک اکاؤنٹ نہیں ہے۔ اور جو کچھ اس جعلی اکاؤنٹ میں کہا جارہا ہے، میرا اس سے کچھ تعلق واسطہ نہیں۔
تازہ ترین