• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ظالم نے صبح صبح اداس اور آبدیدہ کر دیا ۔ 60کی دہائی کے لائل پور ،مخصوص ماحول، کلچر اور گھنٹہ گھر کی بات ہو اور بیان ہو رائو منظر حیات کا تو دل سے ہوک نہ اٹھے گی، آنکھوں میں آنسو نہ آئیں گے تو اور کیا ہو گا۔ حبیب جالب نے کہا تھا ۔

’’لائل پور اک شہر ہے جس میں دل ہے مرا آباد ‘‘

قمر لدھیانوی نے لکھا

اجنبی شہر یہ نسبت تو رہے گی تجھ سے

تیری گلیوں میں ہے کھویا ہوا اپنا کوئی

میرا بچپن اور لڑکپن کا ابتدائی حصہ بھی انہی گلیوں میں کھویا ہوا ہے۔اسی شہر کی سڑکوں پر ’’مورس‘‘ پر گاڑی چلانا سیکھا تھا ۔پچھلے دنوں سنا کہ ’’مورس‘‘ پھر امپورٹ ہونے لگی ہے تو برسوں بعد کوئی شے خریدنے کو دل چاہا کیونکہ مورس، اوپل، فوکسی اور برلینا نامی گاڑیوں کے ساتھ بہت سی یادیں وابستہ ہیں اور ستم یہ کہ آج ان میں سے ایک بھی سڑکوں پر دکھائی نہیں دیتی ۔

’’ہم رہ گئے ہمارے زمانے چلے گئے ‘‘

آپ بیتی لکھنے کی کوشش میں ہوں جس کا عنوان ہے ’’لائل پور سے بیلی پور تک‘‘ رب جانے کب مکمل ہوتی ہے اور ہوتی بھی ہے یا نہیں کیونکہ میری کیفیت کچھ ایسی ہو گئی ہے جیسی اس جملے میں سمٹی ہوئی ہے کہ .....

’’دل تھا تم نہیں تھے، اب تم ہو دل نہیں ہے‘‘

بھلے وقتوں میں لکھا تھا

عمر اس سوچ میں ساری جائے

زندگی کیسے گزاری جائے

کیسے گزاری جائے ؟کا جواب ملا تو احساس ہوا کہ یار!عمر کے بڑے نوٹ تو خرچ ہو چکے، بچی کھچی سی ’’ریزگاری‘‘ کے بارے سوچ بچار کا کیا فائدہ ؟

فائدہ تو کسی نے ’’اقوال زریں ‘‘ سے بھی نہ اٹھایا تو میرے ’’کالے قول ‘‘ کس کھاتے میں لیکن پھر وہی بات ’’بیکار مباش کچھ کیا کر۔کپڑے اُدھیڑ اُدھیڑ کر سیا کر ‘‘آج کے ’’کالے قول‘‘ میرے لائل پور کے نام ۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

رقیبوں کے پاس آئین سٹائین ہے، ہمارے پاس صرف ’’آئین‘‘ جسے ضیاء الحق نے چند صفحات پر مشتمل چیتھڑا قرار دیا تھا ۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

اس معاشرہ میں اوپر علاموں کی برسات ہے اور نیچے جہالت کا سیلاب۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

زندگی میں میرے کچھ دوست تھے کچھ دشمن، دیر سے سمجھ آئی کہ دوست دوست نہ تھے، دشمن کبھی دشمن نہ تھے ۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

کسی بھی قوم کا مقدر کسی دوسری قوم سے نہیں صرف اپنے آپ سے وابستہ ہوتا ہے ۔مستقبل کا دارومدار اجتماعی کردار پر ہوتا ہے لیکن فکری طور پر قلاش قیادتیں اسے سمجھنے سے قاصر ہوتی ہیں ۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

کچھ لوگوں کو چھوٹی چیزیں بڑی اور بڑی چیزیں چھوٹی نظر آتی ہیں ۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

قدرت کبھی کسی کو دھوکہ نہیں دیتی جیسے روشنی کبھی کسی کو اندھیرے میں نہیں رکھتی ۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

یہ ملک ایک قانون دان کا عطا کردہ تحفہ ہے اور ہمارے قانون دان ہمارے لئے اس ملک کا عظیم تحفہ ہیں۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

دشمن سے دوستی، منافق سے دوستی سے کہیں بہتر ہے۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

جدید دنیا دراصل جدید رومن اکھاڑہ ہے۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

جو حقیقت آشنا نہیں، وہ حق آشنا بھی نہیں

٭٭ ٭ ٭ ٭

بندہ اپنی چند پسندیدہ کتابوں اور چند پسندیدہ ٹی وی پروگراموں سے بھی پہچانا جا سکتا ہے۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

کاش مسیحی دنیا ’’تعلیم‘‘ کو اپنی خانقاہوں تک ہی محدود رکھتی تو ہم پر کبھی زوال نہ آتا۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

فولاد کے اندر موم اور موم کے اندر فولاد دیکھنا ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا ۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

مغرب کی اصل ’’سازش‘‘ یہ ہے کہ اپنے عظیم دماغوں کو گناہ کی طرح چھپا کر رکھتا ہے جبکہ ماڈلز، ایکٹروں، ناچوں، سنگرز، کھلاڑیوں، مسخروں اور دیگر اینٹرٹینرز کو بے حد گلیمرائز کرتا ہے تاکہ ذہنی طور پر پسماندہ قوموں کی نوجوان نسلیں صرف ان کا ’’چربہ‘‘ بننے کے خواب دیکھیں۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

زبانوں کی نہیں ...ذہنوں کی ’’تبدیلی‘‘ سے ’’تبدیلی ‘‘ آتی ہے لیکن اس کیلئے بھی خالی کھوپڑیاں نہیں مغز درکار ہیں۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

آنے اور جانے میں، عروج و زوال کی طرح صرف سوچ اور سمت کا فرق ہوتا ہے۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

جہاں لاء(LAW)قدم قدم پر رسوا ہو وہاں صرف مارشل کا لاء(LAW)ہی اکلوتا رستہ رہ جاتا ہے۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

واقعی پاکستان ایک شاعر کا خواب ہے۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

ہم ’’کھل جا سم سم‘‘ کا ورد کرتے رہے، انہوں نے صرف سِم(SIM)کے زور پر سب کچھ سمیٹ لیا۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

جسم ساکت، روح کا سفر جاری رہتا ہے۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

زبان تو دماغ میں ہوتی ہے۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین