سپریم کورٹ آف پاکستان نے سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس میں الیکشن کمیشن کی رپورٹ غیر تسلی بخش قرار دے دی۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ دورانِ سماعت سپریم کورٹ آف پاکستان میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد نے ریمارکس دیئے ہیں کہ چیف الیکشن کمشنر صاحب! آپ ہمیں کرپٹ پریکٹس روکنے کی اسکیم نہیں بتا رہے، اتنے عرصے سے کیس چل رہا ہے، آپ صرف ایکٹ کے مطابق کام کرنے کی باتیں کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ آئین میں کہاں لکھا ہوا ہے کہ ووٹ دینے کے بعد اس کی شناخت نہیں کی جاسکتی؟
چیف الیکشن کمشنر نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ ماضی میں بیلٹ پیپر پر نشان لگانے کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے، قابلِ شناحت بیلٹ پیپرز کی قانون میں گنجائش نہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے چیف الیکشن کمشنر سے دورانِ سماعت استفسار کیا کہ ہمیں پوری اسکیم بتائی جائے کہ انتخابات کیسے شفاف ہوں گے؟
چیف الیکشن کمشنر نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن اپنے اختیارات کے تحت تمام کرپٹ پریکٹسز کو روکتا ہے، انتخابات سے پہلے اور بعد میں شکایت پر کارروائی کی جاتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر صاحب آپ بات کی گہرائی کو سمجھ نہیں رہے، الیکشن کمیشن کوئی عام سرکاری محکمہ نہیں، اس کا ایک مینڈیٹ ہے۔
عدالت نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو بات کرنے سے روک دیا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے الیکشن کمشنر کے وکیل کی سر زنش کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے چیف الیکشن کمشنر کو بلایا ہے، آپ خاموش رہیں۔
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ ہم نے امیدواروں کیلئے 15 لاکھ روپے تک کا بینک اکاؤنٹ کھولنا ضروری قرار دیا ہے، آرٹیکل 226 کے تحت انتخابات خفیہ بیلٹ سے ہوتے ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے چیف الیکشن کمشنر سے سوال کیا کہ خفیہ بیلٹ کیا ہوتا ہے؟
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے جواب دیا کہ خفیہ بیلٹ وہ ہوتا ہے جس کی شناخت نہ ہو سکے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ آپ نے کہاں سے خفیہ بیلٹ کی تعریف نکالی ہے؟
جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ عدالت نے آپ کو زحمت اس لیے دی کہ بتائیں کرپٹ پریکٹسز کے سد باب کیلئے کیا اقدامات کیئے؟
چیف الیکشن کمشنر نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے طے کیا ہے کہ بیلٹ پیپر پر ووٹر کا سیریل نمبر نہیں ہونا چاہیئے، اگر ووٹر کے بارے میں معلوم کرنا بھی ہے تو آئینی ترمیم کی جائے، ہم نے سینیٹ انتخابات سے متعلق بہت غور و خوض کیا ہے، عدالت کو تحریری جواب جمع کرا چکے ہیں، انتخابات سے کرپشن کو ختم کرنے کا طریقہ کار ایکٹ میں موجود ہے، الیکشن کمیشن اپنی آئینی ذمے داریوں سے آگاہ ہے۔
چیف جسٹس نے حکم دیا کہ الیکشن کمیشن کو انتخابی عمل سے کرپشن ہر حال میں روکنا ہو گی۔
جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ پارٹی لائن سے ہٹ کر ووٹ دینے پر کارروائی نہیں ہو سکتی۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ آپ نے شاید ہمارا کل کا حکم سمجھنے کی کوشش نہیں کی، آپ کو معلوم نہیں کہ پاکستان میں الیکشن کیسے ہوتا ہے؟ کوڈ آف کنڈکٹ بنانے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔
چیف الیکشن کمشنر نے بتایا کہ مانیٹرنگ اور پولیٹیکل فنانس ونگ کو مضبوط کیا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ یہ افسران کے کرنے کا کام ہے، آپ خود کیا کرتے ہیں؟ چیف الیکشن کمشنر صاحب! آپ ہمیں کرپٹ پریکٹس روکنے کی اسکیم نہیں بتا رہے، اتنے عرصے سے کیس چل رہا ہے، آپ صرف ایکٹ کے مطابق کام کرنے کی باتیں کر رہے ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ قومی اسمبلی کے نمائندگان کے خلاف ٹریبونل کیس سنتا ہے؟
چیف الیکشن کمشنر نے بتایا کہ قومی اسمبلی میں ووٹ قابلِ شناخت نہیں ہوتے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آئین میں کہاں لکھا ہوا ہے کہ ووٹ دینے کے بعد اس کی شناخت نہیں کی جا سکتی؟