• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے قوم کی توجہ ”وقت“ کی طرف دلائی ہے کہ ہم ”وقت“ سے بے خبر ہیں اور اس لاعلمی کے سبب خسارہ اٹھا رہے ہیں۔ ایک دولت ہمارے پاس ہے مگر ہم ہیں کہ اس کو مٹی میں ملاتے جارہے ہیں۔ وقت کیا ہے؟ وقت اس کائنات کی روح ہے۔ یہ پوری کائنات وقت کے مطابق چل رہی ہے۔ ایک ایک ذرہ جو گردش میں ہے‘ اس کا ایک وقت مقرر ہے اور جس دن اللہ تعالیٰ اس کائنات میں سے وقت کو نکال لے گا اس دن یہ سب آپس میں ٹکرا جائیں گے اور قیامت پربا ہوجائے گی۔
وقت کی وسعتیں لامحدود ہیں اور جو لوگ وقت کی قدر کرتے ہیں‘ غور وفکر کرتے ہیں، بھلائی کے عمل کرتے ہیں وقت ان کے لئے پھیلتا جاتا ہے۔ان کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہوتا جاتا ہے اور ایک ایک لمحے میں وہ بڑے کارنامے انجام دیتے ہیں‘ بڑی بڑی فتوحات حاصل کر لیتے ہیں۔ چیف جسٹس نے مدرٹریسا ‘ ہیلن کیلر، نیوٹن اور آئن اسٹائن کی مثال دی ہے کہ انہوں نے وقت کی قدر کی اور وقت نے ان کے لئے وسعت اختیار کی اور انہوں نے انسانیت کے لئے بڑے بڑے کارنامے انجام دیئے۔ لوگ فتوحات حاصل کرنے کے لئے بڑی جدوجہد کرتے ہیں‘ جنگی تیاریاں کرتے ہیں، لشکر بناتے ہیں، پھر جنگیں لڑتے ہیں لیکن جولیس سیزر کے بارے میں کہا گیا”وہ آیا، اُس نے دیکھا‘ اس نے فتح کرلیا“۔ فاتح کی نظر کا دورانیہ کتنا ہوگا، بس وہ دیکھتا ہے اور فتح کرلیتا ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ عمر ننگی تلوار لئے دروازے پر کھڑے ہیں۔ صحابہ پریشان ہوئے لیکن حضورﷺ نے دروازہ کھولا‘ ایک نگاہ ڈالی اور پوچھا” عمر !کس ارادے سے آئے ہو“۔ بس تلوار ہاتھ سے گر گئی اور انہوں نے کلمہ پڑھ لیا۔ ایک نگاہ نے کتنی بڑی فتح حاصل کرلی۔ نگاہ ڈالنے کے عمل میں کتنا وقت لگتا ہے کہ جس پر نگاہ کی جائے اس کی زندگی بدل جاتی ہے۔ امیر خسرو نے نظام الدین اولیاء کے بارے میں دوحہ کہا۔چھاپ تلک سب چھین لی رے موسے نیناں مِلائی کے ایک نظر سے زندگی ہی بدل دی۔جدید دور میں وقت کی اکائی سیکنڈ کو قرار دیا گیا لیکن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اسرار کے پردے اٹھاتا جاتا ہے۔ اب جو نینو ٹیکنالوجی آئی ہے تو اس نے وقت کی وسعتوں کی خبر دی ہے۔ ایک نینوسیکنڈ وجود میں آیا ہے جس نے ایک سیکنڈ کو کئی لاکھ حصوں میں بانٹ دیا ہے۔ کرکٹ میچوں میں جو اسپیڈ گن استعمال کی جاتی ہے وہ بتاتی ہے کہ ایک فاسٹ بولر جب گیند پھینکتا ہے تو گیند بیٹ سے لگ کر پہلی یا دوسری سلپ کے فیلڈر کے پاس ایک سکینڈ کے 60ویں حصے میں پہنچ جاتی ہے۔ اس اسپیڈ گن نے ایک سیکنڈ کو 100حصوں میں بانٹ دیا ہے۔ تین سال پہلے سائنسدانوں نے کائنات کے اسرار جاننے کے لئے جنیوا میں زیر زمین دھماکہ کیا۔ اس دھماکے کا دورانیہ ایک سکینڈ کے ایک لاکھ ویں حصے کے برابر تھا۔وقت کا تصور ہمارے ذہنوں میں کچھ ہے اور حقیقت میں کچھ اور ہے۔ سورہ کہف میں جو نوجوان غار میں چھپ کر سو گئے تو اللہ نے اُن کو 309سال کے بعد اٹھا دیا۔ جب آنکھ کھلی تو ایک نے پوچھا کہ ہم کتنا عرصہ سوئے ہوں گے تو دوسرے نے کہا ایک دن کا کچھ حصہ یا ایک دن۔ پھر انہوں نے ایک کو ایک سکّہ دے کر بازار بھیجا کہ کچھ کھانے کا سامان لے آئے مگر جب وہ بازار میں پہنچا اور سکہ دکاندار کو دیا تو اس نے کہا کہ یہ سکّہ تو تین سو سال پرانا ہے۔ جس بادشاہ کا یہ سکّہ تھا وہ تو تاریخ کاحصہ ہوگیا ہے۔وقت کی رفتار کا ایک واقعہ سورہ نمل میں حضرت سلیمان  کے دربار سے بیان کیا گیا ہے کہ جب ہد ہد نے ملکہ سبا کے دربار اور تخت کی خبر دی تو حضرت سلیمان نے ملکہ کو خط لکھا اور جب ملکہ نے ان کے ملک آنے کا قصد کیا تو حضرت سلیمان نے درباریوں سے کہا کہ ”کوئی ہے ! جو ملکہ کا تخت اس کے آنے سے پہلے یہاں لے آئے“۔ تو عفریت کہ ایک طاقتور جن تھا اس نے کہا ”میں اس ملک سے یہ تخت دربار ختم ہونے سے پہلے پہلے لے آؤں گا“ پھر وہاں ایک شخص تھا جس کے پاس کتاب کا علم تھا اس نے کہا کہ میں آپ کی پلک جھپکنے سے پہلے وہ تخت لے آتا ہوں اور تخت دربار میں رکھا ہوا تھا۔ وقت کس طرح وسعت اختیار کر جاتا ہے یہ اللہ کی ام الکتاب میں درج ہے۔ وقت کی رفتار کا سب سے عظیم واقعہ معراج کاواقعہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حرم پاک سے مسجد اقصیٰ تشریف لے گئے پھر وہاں سے سات آسمانوں کی طرف۔ پھر معراج کے سفر مبارک کے بہت سے واقعات پیش آئے اور جب آپ واپس تشریف لائے تو دروازے کی کنڈی ہل رہی تھی اور بستر ابھی گرم تھا۔وقت کی قدر کرنے والوں کو انعام یہ ملتا ہے کہ ان کو وقت کی وسعتیں ملنا شروع ہوجاتی ہیں اور وہ فتوحات حاصل کرنے لگتے ہیں۔ فتح کا مطلب ہے کھلنا ۔ علوم کے دروازے کھلنے لگتے ہیں اور انسان کامیابیاں پانے لگتا ہے۔ ایک پنجابی فلم کا گانا مجھے بہت پسند آیا تھا جس میں وقت ہی کی بات کی گئی تھی۔
وقت گرزدا جائے ایہہ واپس مڑ نہ آئے
خورے کی ہوجانا، خورے کی ہوجائے
وقت کی اہمیت کی بات اللہ تعالیٰ نے سورہ عصر میں کی ہے کہ ”وقت کی قسم انسان خسارے میں ہے“۔ جی ہاں وقت ہر لمحہ گزرتا جارہا ہے اور انسان خسارے میں ہے لیکن جس نے وقت بنانے والے پر یقین کیا اور وقت کو اچھے اور مفید کاموں میں استعمال کیا اور دوسروں کو اس سچائی سے آگاہ کیا اور صبر کی تلقین کی تو وہ خسارے میں نہ رہا۔
ایک برف بیچنے والا بازار میں برف بیچ رہا تھا، وہ صدا لگا رہا تھا۔”لوگو! میری برف خرید لو۔ اگر یہ بک گئی تو میں فائدے میں ہوں اور اگر نہ بکی تو میں خسارے میں ہوں گا کیونکہ یہ ہر لمحہ پانی بنتی جارہی ہے“۔
تازہ ترین