• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

داستانِ امیر حمزہ کی طرح، عورتوں کے جلوس نکلنے اور شائستہ اکرام اللہ کے پردے سے پارلیمنٹ جیسے واقعات کو دہرانے کا سبب یہ ہے کہ پاکستان میں ایسا عذاب بھی آیا کہ کوئی شخص وزیراعظم بنانے کے لئے دستیاب نہ تھا تو قرعہ فال پاکستان کے امریکہ میں سفیر محمد علی بوگرہ کا نکلا ان کو وطن بلا کر وزیراعظم بنا دیا گیا۔ اُسی زمانے میں یہ سلسلہ چلا کہ جو بھی وزیراعظم بنتا تو ایک شادی اور کرلیتا۔ اس زمانے میں عائلی قوانین کا مسودہ تو تیار تھا، مگر کوئی نہ کوئی کنکر مار کر اس مسودے کو دھجی دھجی کرنا چاہتا تھا۔ ہماری ساری اپوا اور دیگر انجمنوں سے تعلق رکھنے والی خواتین جیسے بیگم جی اے خان، بیگم مسعود صادق، بیگم تزئین فریدی نے لاہور سے پیدل چلتے ہوئے جلوس نکالا۔ ایوب خان کا مارشل لا تھا فوراً آرڈیننس پیش ہوا۔ 1961میں آخر کار عائلی قوانین کا مسودہ پیش کر دیا گیا۔ رجعت پسند قوتوں نے اسکے خلاف جلوس نکالے مگر فوراً کے فوراً اس آرڈیننس کو لاگو کیا گیا۔ اس کا ابتدائی خاکہ غلام محمود اور مجھ خاکسار نے تیار کیا۔ بنیادی نکتہ یہ تھا کہ کوئی مرد پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر دوسری شادی نہیں کرسکتا۔ پھر یہ بھی قانونی طور پر منظور کیا گیا کہ شادی کی باقاعدہ رجسٹریشن اس علاقے کی مقامی حکومت کے سربراہ کے دفتر میں کرائی جائے گی۔ کسی جھگڑے کی صورت میں بھی اسی یونین کمیٹی یا کونسل میں شکایت درج کی جائے گی، جس کا فیصلہ تین ماہ کے اندر کیا جانا ضروری ٹھہرا۔

پہلے مارشل لا کے بعد دوسرا مارشل لا بہت دردناک تھا۔ پورے آئین کو بدلنے کی کوشش کرکے باقاعدہ آٹھویں قانونی ترمیم نہ صرف لاگو کی گئی بلکہ یہ قانون اور خواتین دونوں سخت جان نکلے۔ اب اس آٹھویں ترمیم میں حدود آرڈیننس خواتین کی آدھی گواہی وغیرہ ایسی تبدیلیاں کی گئیں کہ جہاں جہاں خواتین سفیر تھیں، ان کو بیک سیٹ پر بٹھا دیا گیا۔ ٹی وی پر ساری خواتین کو دوپٹے اوڑھا دیے گئے۔ جب یہ سب کچھ کیا جارہا تھا تو کراچی میں کچھ عورتوں کی آواز اٹھی، جس پر لاہور کی خواتین نے لبیک کہا اور اس کا نام رکھا گیا ویمن ایکشن فورم ’’خواتین محاذ عمل‘‘۔ اب ہوتا یہ تھا کہ جلسوں کی تو اجازت نہیں تھی تو ہم کسی کے گھر یا غیر ملکی اداروں کے چھوٹے دفاتر میں ان قوانین کے خلاف آواز اٹھاتے ۔ ایسے تمام مظاہروں میں ہمارے مرد دوست بھی شامل ہوتے تھے جیسا کہ ڈاکٹر مبشر حسن، عابد منٹو، اعتزاز احسن وغیرہ اور عابدہ حسین کی والدہ طاہر مظہر علی، بیگم محمودہ سلیم اور پھر کم از کم دو سو نوجوان بچیاں اور ہم سب دیف کی خواتین۔ حنا کو مت بھولیں کہ وہ عالمی نمائندہ پاکستان کی ہے۔

طے پایا کہ 12؍فروری 1983ءکو مال روڈ پر عاصمہ جہانگیر اور ساری دیف کی خواتین ایک یادداشت چیف جسٹس کو پیش کریں گی۔ ہماری ممبران کی بیٹیاں بھی شامل تھیں اور سب کے سامنے شعر پڑھتا ہوا حبیب جالب

اب دہر میں بے یارودگار نہیں ہم

پہلے کی طرح بے کس و لاچار نہیں ہم

حبیب جالب کو سنتے ہی تمام خواتین کو جوش چڑھا،اُدھر پولیس کی عورتوں اور مردوں نے اندھا دھند ہم سب پر لاٹھیاں برسانی شروع کیں۔ سب سے پہلا شکار جالب صاحب تھے۔ اس کے بعدہم میں سے آدھی خواتین جیل بھیج دی گئیں اور باقی جو زخمی تھیں انہیں اسپتال داخل کر دیا گیا۔ اگلے دن کے اخبار میں چھوٹی سی خبر ’’عورتوں کے جلوس پر لاٹھی چارج‘‘۔ ساتھ ہی بڑی سی خبر جو عورتیں اس جلوس میں شریک تھیں۔ ان سب کے نکاح فسخ ہو گئے ہیں۔ یہ علما کی جانب سے لگوائی گئی خبر تھی۔ یاد رہے کہ 12فروری 1983کو یہ واقعہ ہوا۔ اب دیف کو قائم ہوئے 40برس ہوگئے ہیں۔ دیف نے 12فروری کو پاکستان کی خواتین کا دن قرار دیا ۔ اور ہر سال 12فروری کو حکومت کو یاد کرایا جاتا ہے کہ حدود آرڈیننس اور قانونِ شہادت کی تلوار، عورتوں کے سروں پر ابھی تک لٹکی ہوئی ہے۔کم سن بچیوں کی شادی کا مسئلہ ہو کہ وراثت میں خاتون کا حصہ کہ زبردستی مذہب کی تبدیلی کا آئے دن کا قصہ۔ ہر دفعہ وعدے و عید ہوتے ہیں۔

کاش اس 12فروری کو ایسی خوش خیال باتیں اور خواتین کے حوالے سے وزیر اطلاعات اور وزیراعظم اپنے گھر کی عزت کو سلامت رکھتے ہوئے کچھ ایسے اقدامات کا حوالہ دیں اور عملدرآمد بھی کروائیں کہ دنیا میں پاکستان کا نام عزت سے لیا جانے لگے۔ کاش جہیز کے نام پر لڑکیوں کو زدوکوب نہ کیا جائے، کاش عورت جس نے صرف لڑکیوں کو جنم دیا ہو یہ جنم الزام نہ بنے، مرد دوسری شادی نہ کریں جیسا کہ مغرب کی عورتوں نے مطالبہ کیا ہے، ہماری عورتیں بھی کہیں کہ ہمیں گھر کے کام کا معاوضہ دیا جائے ورنہ دہری ذمہ داریاں اٹھاتے اٹھاتے خواتین تھک گئی ہیں۔ بچوں سے جبری مشقت ممنوع قرار دی جائے۔ معذوروں اور بزرگوں کی معاونت کیلئے باقاعدہ قوانین بنائے جائیں۔ سب سے بڑھ کر مذہبی منافرت کو میڈیا کے ذریعہ ختم کیا جائے۔ سوشل میڈیا پر سنجیدہ شخصیات کو اہمیت دی جائے اور ان کے ذریعہ معاشرے کو تہذیبی سطح پر مساوات پر مبنی بنانے کے اقدامات کئے جائیںمگر یہ ساری باتیں چالیس سال سے ہورہی ہیں۔ یاد کرائوں کہ جب پولیس عورتوں کے جتھے پر حملہ کرنے لگی تو عاصمہ جہانگیر سامنے آکر للکارتے ہوئے پولیس کو کہتی تھی آئو، آگے آئو میرے اوپر گولی چلائو۔ ان چالیس برسوں کی تاریخ لکھتے ہو ئے بھلا عاصمہ جہانگیر یاد نہیں آئیں گی جس کے نام پہ آج تک وکیلوں کے الیکشن لڑے جاتے ہیں۔ وہ ہوتی تو اس مجذوب حکومت کو دن میں تارے دکھا دیتی۔

تازہ ترین