امریکہ تین سال بعد اقوام متحدہ کے اہم ترین ادارے ہیومن رائٹس کونسل میں اپنا قائدانہ کردار ادا کرنے واپس آگیا ہے، امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے انسانی حقوق سے متعلق اقوامِ متحدہ کی کونسل میں بطور مبصر واپسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ کا حالیہ اقدام امریکہ کی طرف سے جمہوریت، انسانی حقوق اور مساوات سے متعلق دیرینہ خارجہ پالیسی سے دوبارہ منسلک ہونے کے عہد کا اعادہ ہے،امریکی وزارت خارجہ کے دفتر سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ بخوبی جانتا ہے کہ اقوام متحدہ کے تحت انسانی حقوق کونسل پوری دنیا میں ظلم اور نا انصافی کا مقابلہ کرنے والوں کے لئے ایک اہم فورم کی حیثیت رکھتی ہے،یہاں موجود رہ کر ہم ادارے میں اصلاحات لانے کی کوشش کریں گے اور یقینی بنائیں گے کہ اقوام متحدہ کا یہ اہم ادارہ اپنی استعداد کے مطابق کام کرسکے۔مذکورہ کونسل کی رکنیت کے لئے الیکشن رواں برس منعقد کئےجائیںگے،فی الحال امریکہ ہیومن رائٹس کونسل کے سامنے درپیش عالمی امور سے متعلق ووٹ ڈالنے کا اہل نہیں ہے، تاہم بہت جلد امریکہ فیصلہ سازی کے عمل کیلئے اپنا ووٹنگ کا حق دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہیومن رائٹس کونسل کو اسرائیل کے حوالے سے تعصب برتنے پر کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے امریکہ کی علیحدگی کا فیصلہ کیا تھا،ان کا موقف تھا کہ کونسل کے اراکین میںامریکہ کے مخالف کچھ ایسے ممالک بھی شامل ہیں جوبذات خود انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ذمہ دار ہیں، تاہم دنیا کی واحد سپرپاور کی اس اہم ترین عالمی ادارے سے علیحدگی سے نہ صرف امریکہ کے تشخص کو دھچکا لگا بلکہ یہ اقدام ان ممالک کیلئے بھی شدید مایوس کُن تھا جنکی نظر میں امریکہ کو بطور انسانی حقوق کے عالمی چیمپئن کی حیثیت سے دنیا بھر میں مظلوم افراد کی دادرسی کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہئے۔ امریکہ کی ہیومن رائٹس کونسل سے غیرموجودگی کا کچھ ممالک نے اپنے مقاصد کے حصول کیلئے فائدہ اٹھانے کی کوششیں کیں،یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر سے انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے سرگرم اداروں کی جانب سے امریکہ کی واپسی کا خیرمقدم کیا جارہا ہے، انہیں امید ہے کہ امریکہ کی اہم ترین عالمی ادارے میں موجودگی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ روکنے کا باعث بنے گی۔ میں سمجھتا ہو ںکہ امریکہ میں ہرڈیموکریٹ صدر عالمی سطح پر انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے فعال کردار ادا کرتا ہے، جوبائیڈن صدر اوباما کے دور صدارت میں بھی انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے بہت سرگرم رہے، اب بھی انہوں نے عہدہ صدارت سنبھالتے ہی بھارت سمیت ان ممالک کے سربراہان سے سب سے پہلے رابطہ قائم کرنا ضروری سمجھا ہے جن پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے الزامات عائد کئےجاتے ہیں۔سابق امریکی صدر ٹرمپ اپنے دورصدارت میں بھارت کی متنازع حکومتی پالیسیوںکو نظرانداز کرتے رہے لیکن جوبائیڈن کی جیت نے مقبوضہ کشمیر کے مظلوم باسیوں کو ایک نیا ولولہ عطا کیا ہے، جوبائیڈن نے اپنی انتخابی مہم میںکشمیریوں کے حقوق کی بحالی کا مطالبہ کیا تھا،اسی طرح بھارتی نژادنائب صدر کملا ہیرس کا شمار بھی انسانی حقوق کا تحفظ کرنے والوں میں کیا جاتا ہے جنہوں نے بھارت سے تعلق ہونے کے باوجود حق و انصاف کی خاطر مظلوم کشمیریوں کیلئے آواز بلند کی۔ڈیموکریٹ صدرکی کامیابی سے مقبوضہ وادی کے باسیوں کیلئے انٹرنیٹ کی بحالی کی راہ ہموار ہوئی ہے، اس حوالے سے برطانوی نشریاتی ادارے نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ انسانی حقوق سمیت متعدد معاملات پر مودی سرکارپر دباؤ ڈال سکتی ہے، بی بی سی کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کے مقبوضہ کشمیر میں غیرجمہوری طرز عمل پرجو بائیڈن سمیت ڈیموکریٹک پارٹی کے متعدد رہنماؤں نےتشویش کا اظہار کیا ہے ، مزید براں دونوں ممالک کے مابین تجارتی سطح پر بھی اختلافات سامنے آنے کی توقع ہے۔ماضی میں بھارت سویت یونین کا قریبی اتحادی تھا، تاہم سویت یونین کے زوال کے بعد دنیا کی سب سے بڑی جمہورت کا دعویٰ دار ہونے کی حیثیت سے انسانی حقوق کے چیئرمین امریکہ سے قریب ہوگیا، امریکہ چین کے خلاف اپنے عزائم کی تکمیل کیلئے بھارت کوخطے میں علاقائی سپرپاورکی حیثیت دینے کا بھی خواہاں ہے، تاہم مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈاؤن، متنازع قانون شہریت اور کسانوں کی بے مثال احتجاجی تحریک نے مودی سرکار کے غیرجمہوری اقدامات کی قلعی کھول دی ہے۔ اسی طرح بھارت میں گیارہ عدد مظلوم پاکستانی ہندو تارکین وطن کے پراسرار قتل کی ذمہ داری براہ راست مودی سرکار پر عائد ہوتی ہے جس نے خطے کو عدم استحکام کا شکار کرنے کیلئے متنازع قوانین متعارف کرائے ہیں، یہ مظلوم پاکستانی گھرانہ روشن مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے بھارت گیا تھا لیکن آج ان مظلوموں کی آخری رسومات کی ادائیگی کیلئے ارتھیاںبھی ہمارے حوالے نہیں کی جارہیں ، اس حوالے سے پاکستان کی محب وطن ہندو کمیونٹی بھارتی ہائی کمیشن کے باہر پرامن احتجاج ریکارڈ کرا چکی ہے لیکن مودی سرکار کے کان پر جوں بھی نہیں رینگی۔ پاکستان ہندو کونسل نے اصولی فیصلہ کیا ہے کہ ہم انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں ملوث بھارت کی ہٹ دھرمی کو عالمی برادری کے سامنے بے نقاب کرنے کیلئے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے، گزشتہ دنوںمیں نے قومی اسمبلی کی خارجہ امور کمیٹی کے اجلاس کے دوران اپنا یہ مطالبہ دہرایا ہے کہ بھارت میں گیارہ بے گناہ پاکستانی ہندو باشندوں کا خون کسی صورت رائیگاں نہیں جانے دیا جائے ، پاکستان کو اپنے مظلوم شہریوں کو انصاف دلوانے کیلئے تیاری اور حکمت عملی کے ساتھ یہ معاملہ انسانی حقوق کونسل سمیت دیگر عالمی فورمز پر اٹھانا چاہئے ۔میری نظر میں جوبائیڈن کا یواین ہیومن رائٹس کونسل میں واپسی کا عزم اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ موجودہ امریکی قیادت کی ترجیحات میں انسانی حقوق کاتحفظ سرفہرست ہے، تاہم اس سلسلے میں حکومت ِپاکستان کو اپنا کیس بھرپور انداز میں امریکہ اور عالمی برادری کے سامنے پیش کرناچاہئے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)