اسلام آباد (این این آئی، ٹی وی رپورٹ) وزیر اعظم ترقیاتی فنڈ کیس میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا نوٹ سامنے آیا ہے۔
جسٹس فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کسی جج کو مقدمہ سننے سے نہیں روک سکتی، انہوں نے کہا کہ سوالات اٹھ رہے ہیں، بنچ میں شامل جج کے دستخط کرائے بغیر فیصلہ کیے جاری ہوسکتا ہے۔
جسٹس فائزعیسیٰ نے کہا کہ نوٹس وزیراعظم عمران خان کےبیان پرلیاگیا جوآئین کیخلاف تھا، تحقیق کے بجائے جج کو اس کے آئینی فرائض کی ادائیگی سے روک دیاگیا۔
اپنے نوٹ میں انہوں نے لکھا کہ بینچ جسٹس مقبول باقر اور مجھ پر مشتمل تھا، دو رکنی بینچ نے 10 فروری کو سماعت ملتوی کردی، 10 فروری کو حکم لکھوایا کہ وزیراعظم کا جواب اطمینان بخش نہ ہوا تومعاملہ چیف جسٹس کو بھجوایا جائیگا۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے لکھا کہ چیف جسٹس نے معاملہ 5رکنی بینچ کے سامنے مقرر کردیا، میں نے جسٹس مقبول باقرکوبینچ سےالگ اورپانچ رکنی بینچ پراعتراض کیا،چیف جسٹس نے خط کا جواب نہیں دیا، نہ ہی اٹھائے گئے سوالات کاجواب دیا۔
انہوں نے لکھا کہ بینچ کی تشکیل سےشکوک پیدا ہوئےکہ آخراس کیس میں غیرمعمولی دلچسپی کیوں ہے،عدالتی نظام کی غیرجانبداری اور عوامی اعتماد پر اٹھنے والے سوالات کاجواب نہیں دیاگیا۔
جسٹس فائزعیسیٰ کے نوٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس نےزبانی بھی نہیں بتایاکہ جسٹس مقبول باقر کو کیوں بینچ سےہٹایا، کیس کی فائلوں سے انکشاف ہوتا ہے کہ چیف جسٹس کو زبانی احکامات پر فائل پیش کی گئی، چیف جسٹس نے 10 فروری کو 5 رکنی بینچ کی تشکیل کا حکم دیا۔
کیس سننے والی دورکنی بینچ سے لیکر 5 رکنی بینچ کے سامنے لگادیاگیا، چیف جسٹس نےصوابدیدی اختیار استعمال کرکے 5 رکنی بینچ نامناسب اندازمیں تشکیل دیا، بینچ کی تشکیل سے غیر ضروری سوالات پیدا ہوئے۔
جسٹس عیسیٰ نے اپنے خط میں سوالات کیے تھے کہ مجھے بتایا جائے کہ کیوں مجھے حکم/ فیصلہ نہیں بھیجا گیا؟ کیوں سینئر جج کو فیصلہ بھیجنے کی روایت کو نہیں اپنایا گیا؟
کیوں اسے میرے پڑھنے سے قبل میڈیا جو جاری کردیا گیا (مجھے اس پر دستخط کرکے اتفاق یا اختلاف کرنے کا موقع بھی نہیں دیا گیا)؟ اسے میڈیا کو جاری کرنے کا حکم کس نے دیا ؟
مجھے کیس کی فائل دی جائے تاکہ میں بالآخر حکم/ فیصلہ پڑھ سکوں، جسٹس عیسی نے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ تمام ججز کے دستخط ہونے تک حکم نامہ قانونی نہیں ہوسکتا۔