• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپوزیشن کے ساتھ ساتھ حکومت کے لوگ بھی یہ کہہ کر رہے ہیں کہ مہنگائی میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے لیکن عام آدمی پر اس مہنگائی کے اثرات کا کوئی بھی درست اندازہ نہیں کر رہا اور نہ ہی اس حوالے سے مستقبل کی سیاسی حکمت عملی وضع کی جا رہی ہے۔ 

اس صورت حال میں سیاست اچانک ایسی قوتوں کے ہاتھ میں جا سکتی ہے، جن کے بارے میں بیرونی طاقتیں تو شاید اندازے لگا رہی ہیں لیکن ہم نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ 

کسی تجزیہ کار یا کالم نگار کا یہ منصب نہیں ہے کہ حکومت یا اپوزیشن کی کارکردگی کے بارے میں حتمی رائے قائم کرے اور وہ فیصلے سنائے یا تحریر کرے، جو عوام کو کرنا ہے۔ تجزیہ کار اور کالم نگار کا منصب یہ ہے کہ معروضی حقائق بیان کرے اور ان حقائق کو مربوط کرکے ایسی دلیل مرتب کرے، جو بددیانتی اور تعصب سے پاک ہو اور وسیع تر حلقوں کے لئے قابلِ قبول۔ 

حقیقت یہ ہے کہ اپوزیشن والے بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بےروزگاری اور خراب ہوتی ہوئی معیشت کو تحریک انصاف کی حکومت کی ناکامی قرار دے رہے ہیں اور وزیراعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اپوزیشن والے مہنگائی کو بنیاد بنا کر کوئی بڑی سیاسی تحریک نہیں چلا سکے۔ وہ عوام کی سیاسی بےچینی کو ختم نہیں کر سکے ہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت سے مہنگائی کنٹرول نہیں ہو رہی۔ گزشتہ اڑہائی سال میں مہنگائی کی شرح میں جس قدر تیزی سے اضافہ ہوا ہے اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ جبکہ بےروزگاری بھی بےتحاشا بڑھی ہے۔ 

عوام میں مایوسی اور بےچینی کا جو لیول ہے، وہ اسٹیٹس کو کے لئےلازمی خطرہ ہے۔ مجھے اس تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کہ ضروریات زندگی کی کن کن چیزوں میں کتنا اضافہ ہوا؟ 

ہمیں اس بحث میں بھی الجھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے، معیشتوں کی کارکردگی کا جائزہ لینے والی بین الاقوامی تنظیمیں، اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور دیگر ملکی ادارے کیا اعداد و شمار پیش کر رہے ہیں؟ ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ عوام کیا محسوس کر رہے ہیں اور آج عام آدمی کی زندگی کس طرح گزر رہی ہے؟ 

صحیح اکانومی وہ ہے جو عام آدمی محسوس کرتا ہے۔ وہ تو آٹا، چاول، چینی، انڈا، مرغی اور سبزی کی قیمتیں دیکھتا ہے اور 2018سے مقابلہ کرتا ہے، وہی اصل اکانومی ہے۔ وہ یہ دلیل نہیں مانتا کہ 51سال میں حکومتوں نے کیا کیا، میرے خیال میں حکومت کو اندازہ ہو گا کہ عوام کی زندگی کس قدر اجیرن ہو رہی ہے اور ان کی تکالیف اور مصائب کی انتہا کیا ہے لیکن وہ اس کا الزام ماضی کی حکومتوں پر ڈال کر اسے خود سیاسی ایشو نہیں بنانا چاہتی ہے۔ وہ عوام کو ریلیف دینے کےوعدوں سے بھی دستبردار ہو گئی ہے۔

اس سے پہلے کہ مستقبل کے سیاسی حالات کے بارے میں کوئی اندازے لگائے جائیں، یہاں یہ مناسب ہو گا کہ حکمرانوں کو یہ باور کرایا جائے کہ وہ اقتدار میں آنے سے پہلے بھی کہتے تھے کہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)اور ان کی مخالف سیاسی جماعتوں نے لوٹ مار کی ہے اور ملکی معیشت کو تباہ کر دیا ہے۔ یعنی پہلے سے اس بات کا ادراک تھا کہ معیشت اور نظام حکومت کا برا حال ہے، یہ بھی کہتے تھے کہ وہ حکومت میں آکر سب کچھ ٹھیک کر دیں گے۔ 

اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کوخودپر اعتماد تھا کہ وہ تباہ حال معیشت اور نظام حکومت کو درست کر دیں اور اس حوالے سے ان کے پاس صلاحیت موجود ہے۔ 

حکومت میں آنے سے پہلے جب انہیں سب کچھ معلوم تھا تو حکومت میں آنے کے ڈھائی سال بعد یہ کہنا کہاں کا انصاف ہے کہ حالات ان سے سنبھل نہیں رہے۔

اب آتے ہیں اس بات پر کہ حکومت اور اپوزیشن پاکستان کی سیاست کو کس طرف لے جا رہے ہیں۔ 2018کے عام انتخابات میں وزیراعظم عمران خان اور ان کی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف عوام کے لئے ایک امید بن کر آئے تھے لیکن تحریک انصاف والے خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ عوام کی امید پر پورا اترے یا نہیں۔ 

تحریک انصاف کی قیادت نے جس طرح کی سیاست کو پاکستان میں رائج کیا ہے، اس سے لبرل، اعتدال پسند اور وفاق پرست سیاسی قوتیں اپنی سیاسی ساکھ بچانے میں مصروف ہو گئی ہیں اور سیاست مجموعی طور پر گالی بن گئی ہے۔ 

2018کے سینیٹ کے انتخابات میں جو تحریک انصاف کے ارکان نے جو کچھ کیا اور اب 2021کے سینیٹ کے انتخابات میں تحریک انصاف کے ارکان پر جس طرح اس کی قیادت شکوک و شبہات کا اظہار کر رہی ہے، اس سے تحریک انصاف کی سیاست مثالی نہیں رہی۔ دوسری طرف اپوزیشن بھی لوگوں کے معاشی مسائل کو بنیاد بنا کر انہیں سڑکوں پر لانے سے شعوری یا لا شعوری طور پر گریزاں ہے۔ 

اپوزیشن جماعتیں یہ سمجھتی ہیں کہ یہ بات بعد ازاں ان کے گلے میں پڑ جائے گی کیونکہ پاکستان کی معیشت کو عالمی مالیاتی اداروں اور ان کی پروردہ ملکی طاقتوں، کارٹیلز اور مافیاز کے چنگل سے نکالنا آسان نہیں ہے۔ کسی بڑی کایا پلٹ سے گریز کرتے ہوئے اپوزیشن کی جماعتیں ڈیل اور سمجھوتے اور تھوڑے سے سیاسی دبا کے ساتھ معاملات طے کرنا چاہتی ہیں۔

2018کے عام انتخابات میں دائیں بازو کی انتہا پسند قوتوں کے ووٹ بینک میں اضافہ ایک وارننگ تھی۔ 

 حالات مزید خراب ہو گئے ہیں۔ عوام کا سیاسی دھارا کوئی اور رُخ اختیار کر سکتا ہے۔ ایسے حالات پیدا ہونے سے پہلے عوام کے معاشی مسائل حل کرنے کے لئے حکومت اور اپوزیشن مل کر سیاسی فیصلے کریں۔ یہ آخری مواقع میں سے ایک موقع ہے۔ بہت حبس زدہ صورت حال ہے۔

تازہ ترین