• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:خواجہ محمد سلیمان ۔۔۔برمنگھم
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آزاد کشمیر میں مختلف خاندانوں اور قبیلوں کے لوگ آباد ہیں اور اسے عام زبان میں برادری کا نام دیا جاتا ہے، اس تقسیم کا تعلق اس خطہ کی تاریخ سے ہے ،یہ تاریخ صدیوں پر محیط ہے ،اس تاریخ پر ہندو رسم رواج کا بھی عمل دخل ہے لیکن چونکہ یہاں اکثریت مسلمانوں کی ہے اور اسلام کی تعلیم بڑی واضح ہے کہ تمام انسان آدم علیہ السلام کی اولاد سے ہیں اور یہ جو ذات پات کی تقسیم ہندووانہ تہذیب میں پائی جاتی ہے اس کا حقیقت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، یہ خود ساختہ تقسیم ہے ،ہاں نظام حیات چلانے کیلئے انسانو ں کو مختلف قبیلوں میں تقسیم کیا گیا ہے جس طرح زمین پر مختلف رنگ ونسل کے لوگ آباد اور ان کی زبانیں مختلف ہیں لیکن سب انسان ہیں یہی اس کائنات کی خوبصورتی ہے لیکن عملی طور پر دیکھا جائے تو بعض نسل اور قوم پرست اپنے مقاصد حاصل کرنے کیلئے لوگوں کے درمیان نفرتیں پیدا کرتے ہیں جس سے دنیا کا امن واماں خراب ہوتا ہے۔سیاست میں برادری کو ساتھ لگانا بذات خود کوئی بری بات نہیں لیکن اہلیت نہ ہو اور برادری کو استعمال کر کے کوئی منصب حاصل کر نا غلط ہے اور اس سے نہ برادری کو کوئی فائدہ ہے اور نہ ہی ایسا شخص معاشرے کو کوئی فائدہ پہنچا سکتاہے، ووٹ دیتے وقت یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ہم اپنی نمائندگی کیلئے کس کو ووٹ دے رہے ہیں میری برادری کا اگر نااہل شخص میر ا ووٹ حاصل کر کے اسمبلی میں پہنچ بھی گیا تو یہ مجھے اور دوسروں کو کیا فائدہ پہنچائے گا۔آزاد کشمیر کی سیاسی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ علاقائی اور برادری کی سیاست نے معاشرے کو نقصان پہنچایا ہے اچھے کردار کے لوگ صرف اس لئے آگے نہیں جا سکے کہ ان کی برادری یا تو تھوڑی تعداد میں تھی یا ان کو کم ذات سمجھا گیا یہ سوچ وفکر سخت نقصان دہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں سیاست اور کرپشن ایک ساتھ چل رہے ہیں اگر اپنے ملک وقوم کی باگ ڈور اچھے انسانون کے سپرد نہیں کریں گے تو پھر یہی ہو گا جو آج کل سیاست میں ہو رہا ہے ۔مغربی ممالک میں سیاسی نظا م اسی لئے بہتر چل رہا ہے کہ یہاں لوگ برادری یا علاقہ کے نام پر ووٹ نہیں دیتے بلکہ اس امید وار اور پارٹی کو ووٹ دیتے جس کے پاس ملک کے نظام چلانے کا بہتر منشور ہے اور پھر یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اقتدار میں آکر اس پر عمل بھی ہو رہا ہے کہ نہیں اگر نہیں ہو رہا تو پھر آئندہ الیکشن میں اس پارٹی کو ووٹ نہیں دیتے اس طرح سیاسی سسٹم عوام کے آگے جواب دے ہے ۔ہمارے ملک میں سیاست شخصیت پرستی کا شکار ہے ایک لیڈر عوام کو نعروں سے متاثر کرتا ہے وہ پارٹی بناتا ہے اور اقتدار میں آکر مزے لوٹتا ہے اور اپنے تمام کئے گئے وعدوں کو بھول جاتاہے ۔خاندانی سیاست نے قابل لوگوں کو آگے آنے سے روکا ہواہے اور یہ ملک کی ترقی میں بہت بڑی رکاوٹ ہے اور کرپشن کی بھی بنیادی وجہ یہی ہے اگر ہم چاہتے ہیں کہ ملک کا سیاسی نظام پاک صاف ہو تو پھر پاک صاف لوگ ہی ایسا نظام لا سکتے ہیں ہمارے ملک میں اچھے کردار کے لوگ موجود ہیں لیکن سسٹم ان کو آگے نہیں آنے دیتا وہ انکے راستے میں روڑے اٹکاتا ہے اب اس سسٹم صاف کرنے کے لئے ایک انقلاب کی ضرورت ہے جس کی طرف پاکستان جارہا ہے۔
تازہ ترین