دو عشرے پہلے تک وہ جنوبی پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ کے ایک دور افتادہ گائوں سے تعلق رکھنے والی ناخواندہ دیہاتی عورت تھی۔ زندگی کی بیس سے زائد بہاریں دیکھ چکی تھی۔ اُسے تین سال پہلے طلاق ہوئی تھی اور وہ اپنے والدین کے ساتھ رہ رہی تھی۔ اس علاقے میں مستی قبیلہ سب سے طاقت ور تھا۔ مائی کا تعلق بےزمین گجر خاندان سے تھا۔ اُس کے چھوٹے بھائی، شکور کو مستی قبیلے کے چار افراد نے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ مزید قہر یہ کہ مستیوں نے اُسی مظلوم لڑکے پر کیس بنا دیا۔ اُنہوں نے اپنی بہن، سلمیٰ جس کی عمر لڑکے سے دوگنا زیادہ تھی، کو اس کے ساتھ بند کردیا اور اُن پر ناجائز تعلقات کا الزام لگایا۔ یہ کاروکاری کا کیس تھا۔ اُسی روز مستی قبیلے کے جرگے نے فیصلہ سنایا کہ چونکہ مائی کے بھائی نے مستی قبیلے کی لڑکی کے ساتھ ناجائز تعلقات قائم کیے تھے، اس لئے مائی کو مستی قبیلے کے چار افراد اُسی وقت ریپ کریں گے۔ اس نے مزاحمت کی لیکن اُسے گھسیٹ کر باہر ایک کمرے میں لے جایا گیا جہاں جرگے کے شرکا بیٹھے ہوئے تھے۔ کمرے میں لے جاکر چار افراد نے مائی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی۔ اس واقعے سے علاقے میں دہشت پھیل گئی۔ مائی کے اپنے خاندان نے چھ دن تک سوچا کہ کیا وہ اس جرم کی رپورٹ درج کرائیں یا نہ کرائیں؟ پھر مائی کی والدہ نے قدم آگے بڑھایا۔ جو بھی ہو، وہ پولیس کے پاس جائیں گے۔
آخر کار یہ معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچ گیا۔ ججوں کی اکثریت (جسٹس ثاقب نثار اور شاکر اللہ جان) کے نزدیک مائی قابل اعتماد گواہ نہیں تھی کیوں کہ وہ کنواری نہیں تھی۔ اس سے ایک مخصوص صورت حال پیدا ہوئی ’’ایک جواں عمر کنواری لڑکی ایسے حالات کا شکار ہو، جس کے ساتھ ہونے والے جرم کا انکشاف ہونے سے بدنامی کی وجہ سے مستقبل متاثر ہوتا ہو، اگر خاندان والے اس پر سوچنے کے لئے کچھ وقت لگادیں کہ یہ صورتِ حال ایک بڑی عمر کی عورت کی ہے جسے کئی برس پہلے طلاق ہو گئی تھی‘‘ اس طرح مائی کا تمام بیان دھندلا گیا اور اسے اکثریتی بنچ نے مسترد کردیا۔ اس نوعیت کے بہت سے دیگر واقعات میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر عدالت نے ’’دیکھا‘‘ کہ اُس کے جسم پر کوئی زخم کا نشان نہیں تھا جس سے پتہ چلتا ہو کہ اس نے مزاحمت کی تھی۔ اس صورت میں اُسے اس کے لئے رضا مند سمجھا گیا۔ عدالت کا یہ نتیجہ واضح شہادت کے صریحاً برعکس تھا۔ اختلافی فیصلہ میڈکو لیگل رپورٹ اور استغاثہ کی گواہ، ڈاکٹر صفیہ کے بیان کا حوالہ دیتا تھا جس نے مائی کے زخموں کا معائنہ کیا تھا۔ دونوں کا ریکارڈ مائی کے بیان کی تصدیق کرتا تھا۔ تاہم اکثریتی بنچ نے بظاہر ریکارڈ کو پڑھنے میں غلطی کی تھی۔
اسی طرح شکور کے ساتھ چار مستی افراد کی بدفعلی پر مائی کے بیان کو بھی غلط سمجھا گیا۔ مزید ستم یہ کہ ایک جرم کی سنگینی کم کرنے کے لئے بارہ سالہ لڑکے، شکور کے مستی قبیلے کی چھبیس سالہ لڑکی، سلمیٰ کے ساتھ ناجائز تعلقات، اور وہ بھی لڑکی کی رضا مندی کے بغیر، کی کہانی تراشی گئی۔ بنچ کی اکثریت نے شکور پر حملے کو ’’ایک مبہم واقعہ‘‘ قرار دیا لیکن یہ ایسا نہیں تھا۔ اگر مختاراں مائی غیر شادی شدہ عورت ہوتی تو معاملہ واضح تھا۔ پھر اکثریتی جج اس کے بیان کو تسلیم کر لیتے لیکن مطلقہ ہونے کی وجہ سے اس کے پاس اپنے ساتھ کی جانے والی زیادتی ظاہر کرنے کا کوئی طریقہ نہیں تھا۔ بیس سال تک مختاراں مائی نے زیادتی کرنے والوں کے خلاف عدالتوں میں جنگ لڑی لیکن مرد حاکمیت کے سماج کے سامنے ہار گئی۔ جون 2019کو اس کی نظر ثانی کی اپیل مسترد کردی گئی لیکن پھر سامنے آئیں جسٹس عائشہ اے ملک۔
مختار اںمائی کیس پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے ایک عشرہ بعد لاہور ہائی کورٹ کی جسٹس عائشہ ملک نے Sadaf Aziz v. The Federation (جنوری 2021) میں کہا کہ زیادتی کا شکار ہونے والی عورت کا کنوارہ ہونا یا نہ ہونا جرم کی نوعیت کے اعتبار سے غیراہم ہے۔ ’’مروجہ ٹیسٹ سے جنسی تعلقات کی تاریخ جانچنا عورت کے شخصی وقار کی توہین ہے۔ اس سے اُس کی سماجی اور ثقافتی حیثیت بری طرح متاثر ہوتی ہے‘‘۔ (پیرا 23)۔ جج صاحبہ مزید لکھتی ہیں: ’’کنوارے پن کی جانچ کرنے والا ٹیسٹ انتہائی تکلیف دہ ہے اور پھر اس کی سائنسی اور طبی طور پر کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کے باوجود جنسی تشدد کے کیسز میں میڈیکل پروٹوکول کے طور پر یہ ٹیسٹ کیا جاتا ہے حالانکہ آبروریزی کے کیس میں جنسی طور پر فعال یا کنوارہ ہونا قطعی غیرمتعلقہ معاملہ ہے۔ اس صورت میں بھی نہیں جب کہ اس کے ایک سے زیادہ افراد کے ساتھ تعلقات ہوں۔ کیا ایسی عورت کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے؟ اس لئے ریپ کے کیسز کا کنوارہ ہونے یا نہ ہونے کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کیا جا سکتا‘‘ (پیرا 27)۔
صدف عزیز کیس کا فیصلہ کوئی معمولی تبدیلی نہیں۔ یہ فیصلہ دلیرانہ اور انتہائی اہم تبدیلیوں کا باعث بنے گا جن سے ایسے دقیانوسی اور توہین آمیز طریق کار کا خاتمہ ممکن ہوگا۔ امریکی سپریم کورٹ کے آنجہانی جج، جسٹس گنزبرگ (مرحوم) کی طرح جسٹس عائشہ ملک بھی ’’ہمارے قوانین میں بےبنیاد قصے کہانیوں کی وجہ سے سرایت کر جانے والی جامد روایات‘‘ پر کڑی تنقید کرتی ہیں۔ وہ قوانین جن کی بنیاد یہ ہے کہ عورتیں مردوں کی محکوم ہیں۔ اس طرح جسٹس عائشہ ملک ہمارے قانونی نظام کو فعال، ذمہ دار اور اُن مسائل، جنہیں آج تک نظر انداز کیا جاتا تھا، سے نمٹنے کے قابل بنانے میں اپنا کردار کرتی ہیں۔ کنواری، شادی شدہ، مطلقہ اور جنسی طور پر فعال عورتوں کی آبروریزی کے درمیان فرق ختم کرتے ہوئے جسٹس صاحبہ مختاراں مائی کے موقف کی تصدیق کردیتی ہیں۔
پسِ تحریر: جب دلیر صحافی، ندیم سعید نے کہانی شائع کی تو مائی کے لئے ہمدردی کا طوفان امڈ آیا۔ سب سے پہلے وفاقی وزیر عطیہ عنایت اللہ آگے آئیں اور مائی کو جنرل مشرف کی طرف سے پانچ لاکھ روپے کا چیک پیش کیا، جسے مائی نے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اس نے صرف اس وقت قبول کیا جب یہ اُس کے گائوں، میر والا میں لڑکیوں کے اسکول کی تعمیر پر خرچ کرنے کے لئے ڈپٹی کمشنر نے اس کے اکائونٹ میں جمع کرادیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ مستی قبیلے کی لڑکیاں بھی اسی اسکول میں پڑھتی ہیں۔ آبروریزی کرنے والے افراد کی بیٹیوں نے بھی اسی سکول سے تعلیم حاصل کی ہے۔ مائی نے بھی پہلی کلاس میں داخلہ لیا اور میٹرک کا امتحان پاس کیا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)