• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم پاکستانی جمہوریت کے کتنے دلدادہ ہیں، اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہم نے نیم جاں جمہوریت کو سینے سے لگائے پانچ سال گزار دیئے کہ کہیں یہ جاں بحق نہ ہو جائے۔ حکمرانوں کی شرمناک لوٹ مار ، بے بس کر دینے والی مہنگائی، عذاب مسلسل جیسی لوڈشیڈنگ، بے قابو دہشت گردی اور انتظامی اختیارات کا بدترین استعمال، کونسی کڑوی گولی ہے جسے ہم نے منہ میں نہیں اتارا مقصد یہ تھا کہ جمہوریت بچی رہے۔ہماری یہ عجب جمہوریت تھی جو لوٹ مار، دہشت گردی، کمر توڑتی مہنگائی اور اندھیروں میں ہی زندہ رہ سکتی تھی۔ عوام نے کس طرح یہ سب کچھ برداشت کر لیا؟ لے دے کر اس سوال کا ایک ہی جواب آتا ہے کہ عوام صبر و شکر کا یہ کمال مظاہرہ جمہوریت کے چلتے سانسوں کو چلتا رکھنے کے لئے کر تے رہے ۔ طب یونانی کی تھیوریز میں سے ایک یہ تھی کہ نسخہ جتنا کڑوا اور بدمزہ ہو گا علاج اتنا بہتر ہو گا۔ جیسے تریاق جس کا ذائقہ زہر سے زیادہ مہلک ہوتا ہے لیکن یہ زہرخوری کا موثر علاج ہے۔ گویا تھیوری یہ ہے کہ زہر، زہر کو مارتا ہے جیسے لوہا لوہے کو کاٹتا ہے۔ ہم اپنے ساتھ خود یہ ظلم عظیم کرتے گئے کہ ہم جمہوریت کی بقا کے لئے بدترین کرپشن، دھما چوکڑی حکومت، اندھیروں اور دہشت گردی جیسی کڑوی گولیاں برائے بقائے جمہوریت کھاتے چلے گئے۔ ان کا خطرناک ذائقہ تو تریاق کی طرح تھا لیکن ان کو جمہوریت کی بقا کے نام پر مسلسل نگلتے رہنے کا اثر زہرناک ہے کہ یہ تریاق نہیں تھا فقط زہر تھا زہر۔
زہر کھا کھا کر جب ہم نے پی پی کو اس کے اقتدار کی پانچویں باری پوری کرا دی اور خیر سے نگران اقتدار پر برا جمان ہو گئے تو پھر ایک بڑی سی کڑوی گولی ہمیں کھانے کو کہا گیا۔ یوں کہ عوام کو سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ الیکشن مکمل طور پر آئین کے مطابق نہیں ہو سکتے لہٰذا امیدواروں کی الیکشن کمیشن میں چھانٹ پھٹک کے لئے آئین کی آرٹیکلز 62، 63 پر زور نہ دیا جائے۔ (پنجابی محاورے کے مطابق) ”دڑ وٹ جاؤ“ یعنی ہے تو واقعی بہت غلط لیکن چپ ہی کر جاؤ۔ حیرت تو یہ ہے کہ فوجی آمروں کی آمریت اور ان کی قائم کی گئی نیم جمہوری حکومتوں کے قیام کی مخالفت میں جن ”جمہوریت پرستوں“ نے غیرآئینی حکومت کی دلیل دے دے کر آئینی حکومت کی بحالی کے لئے رات دن ایک کئے رکھا،سکروٹننگ کے عمل کے دوران جمہوریت کے یہ مجاور اتنی ہی محنت ٹیکس چوروں، قرض خوروں اور جعلی ڈگری ہولڈرز کو پھر انتخابی امیدوار بنوانے کے لئے ”دڑ وٹنے“ پر زور دیتے رہے۔ جب آئین کے مکمل اطلاق پر یقین رکھنے والے خاموش نہ رہے تو پھر 62/63 کو جنرل ضیاء سے منسوب کر کے یہ رونا رویا گیا کہ بحالی آئین کا کارنامہ انجام دینے والی پارلیمانی کمیٹی ناقابل عمل آرٹیکلز کو حذف کرنا بھول گئی سو یہ کانٹا بدستور آئین میں رہ گیا۔ پھر ایک سازش سے ملک گیر سطح پر ریٹرننگ افسروں سے آرٹیکل 62/63 کی وہ بھد اڑوائی گئی کہ سکروٹننگ کا عمل ہی بدبودار ہو گیا جب درخواست دہندگان سے ایک سے بڑھ کر ایک مضحکہ خیز سوال پوچھے گئے۔ قرار دیا گیا کہ مسرت شاہین، انتخابی امیدوار بننے کی اہل ہیں اور ایاز میر نہیں۔ خاکسار نے قلم کے دم تک اپنے کالموں میں شور مچایا کہ یہ ملک گیر فتنہ منظم سازش ہے لیکن کارخانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔ اب ایک ایسے سینئر قلم کار نے بھی اسے منظم سازش قرار دے دیا ہے جو ریٹرننگ افسروں کی بھد اڑائی پر اپنی چٹخارے دار قلم کاری سے خود بھی آئین کی بھد اڑانے میں خوشی خوشی شریک تھے۔ گویا سکروٹننگ کے دوران ریٹرننگ افسروں کا اختیار کیا گیا منظم رویہ بھی انسداد آمریت کے موثر علاج کے لئے کڑوی گولی ہے جسے دڑ وٹ کر حلق سے اتارنے کو جمہوریت کی بقا کے لئے ضروری قرار دیا جا رہا تھا لیکن حقیقت میں یہ بھی زہر ہی تھی اور دینے والے آئین و قانون کے مجرم۔ اس زہر نوشی، جس پر قوم کو ”کم وقت“ کا پریشر ڈال کر مجبور کیا گیا کا ہی خطرناک نتیجہ نکلا کہ کراچی، لاہور اور نہ جانے کئی کئی حلقوں کے انتخابات متنازع ہو گئے۔ یوں پورا انتخابی عمل ہی مشکوک ہو گیا۔ ہارنے اور جیتنے والی تمام ہی جماعتوں کے پاس بہت زیادہ قابل توجہ شکایات کے انبار ہیں اور الیکشن کمیشن کی حالت بھی نحیف جمہوریت سے کم نہیں۔ اب مجاورانِ جمہوریت پھر دڑ وٹنے کا درس دے رہے ہیں۔ اس مرتبہ یہ کڑوی گولی یہ کہہ کر حلق سے اتاری جا رہی ہے کہ شکر کرو الیکشن ہو گئے، دہشت گرد تو ان کو روکنے کے درپے تھے، سو جو ہو گئے ان کے نتائج کو قبول کرو اور چلاؤ جمہوریت کی گاڑی خواہ فضا کو دھوئیں اور شور سے مکدر ہی کر دے۔ خود ڈرائیور اور سواریوں کو یہی محسوس نہ ہو کہ ان کی گاڑی موت کے کنویں میں چل رہی ہے۔
یہ تو مانا کہ ملک کی اقتصادی حالت دگرگوں ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ حکومت پر بلاجواز اور غیرضروری دباؤ ڈال کر اسے پریشان نہیں کرنا چاہئے۔ یہ بھی مانا جا سکتا ہے کہ نئی بننے والی حکومت لوڈشیڈنگ ختم کرنے میں بہت کمٹڈ ہے لیکن مشکلات بھی بہت ہیں۔ مشکلات میں گھری لیکن تیسری مرتبہ اقتدار میں آنے والی حکومت جو سرکار دربار میں اچھے برے کا تجربہ رکھتی ہے، بہتر ہے کہ وہ خود یا ثنا خواہان تقدیس حکومت واضح طور پر آغاز حکومت پر ہی واضح کر دے کہ عوام کو کہاں کہاں دڑ وٹنے یا کڑوی گولی نگلنے کو کہا جائے گا؟ انہیں جو بعد میں مہلک و منفی اثرات سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے جو کڑوی گولی نگلی یا ان سے نگلوائی گئی وہ تریاق نہیں زہر تھا، اس کی اپنی پیچیدگی ہے۔ نہیں تو پھر حکومت پر ہراساں کر دینے والی نظریں گاڑھنے والے ”بدنظر“ اپنی فہرست تیار کر لیں کہ انہیں کہاں کہاں دڑوٹنا ہے اور کہاں کہاں حسب دستور کڑوی گولی نگلنے کے لئے سودا نہیں ہو گا۔ ایسی چپ جو بعد میں کروڑوں لوگوں کی آہ و بکا اور چیخ و پکار میں تبدیل ہو جائے، اس کا تجزیہ فوراً کر لینا چاہئے کہ یہ زہر ہے یا تریاق۔
واضح رہے کہ اہل نظر نے بہت لکھا بہت سمجھایا کہ بھائی پانی اور ترقی لازم و ملزوم ہیں یعنی قدرت کے دیئے گئے بیش بہا آبی ذخائر کا صحیح استعمال۔ بہت دہائی دی گئی کہ اگر ہم دریائے سندھ کا 84فیصد پانی بغیر کسی استعمال کے سمندر میں بہاتے رہے تو ہمارے کھیت کھلیان بنجر ہو جائیں گے اور شہر اور بستیاں اندھیروں میں ڈوب جائیں گی۔ معیشت تباہ ہو جائے گی۔ خدارا کالاباغ ڈیم بننے دو لیکن ہمیں کبھی سندھ اور کبھی پختون کارڈ دکھا کر اور پھر ایم کیو ایم کی دھمکیوں سے ڈرایا جاتا کہ دڑ وٹے رہو وگرنہ ملکی استحکام خطرے میں پڑ جائے گا۔ قوم نے زہر کا یہ پیالہ بھی پی لیا۔ اب اس کے نتیجے میں پورا ملک و قوم جاں بلب ہے۔ کیا اب بھی ہم اپنے آبی وسائل کے انسانی استعمال پر ”جمہوری قوتوں“ کی لگائی گئی پابندی پر دڑ وٹتے رہیں یا زہر پیتے رہیں؟کیا ریٹرننگ افسروں کے سازشی نیٹ ورک کی دی گئی جمہوریت ہمیں اتنی جرأت عطا کرے گی کہ ہم اپنی دلیل دے سکیں اور وہ سن سکیں؟
تازہ ترین